23 مارچ، مضبوط پاکستان کا ادھورا خواب


23 مارچ پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ اس دن قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی اور اس کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔یوم پاکستان کو منانے کیلئے ہر سال 23 مارچ کو خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں افواج پاکستان کی پریڈ اور اس کے علاوہ مختلف ریاستی اثاثوں اور مختلف اشیاءکی نمائش کی جاتی ہے، اور اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ قائد اعظم اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک خوبصورت ار خوشحال پاکستان کا خواب دیکھا تھا کہ پاکستان امن کا گہوارا ہوگا جہاں ہر ایک شخص کو مذہبی،شخصی آزادی ہوگی۔ پاکستاں کی معیشت اور ادارے مضبوط ہوں گے اور اس آزاد اور خودمختار پاکستان میں عوام کی خدمت کی جائے گی۔ قائد اعظم نے خطبہ صدارت دستور ساز اسمبلی 1947ء کو فرمایا کہ اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش حال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکور کرنی پڑے گی۔

مگر ہم نے قائد اور اقبال کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیا اور ہم اپنے اپنے کاروبار میں لگ گئے، نہ ہی ہم نے عوامی خدمت کی نہ ہی اداروں کو مضبوط کیا۔ ایک ہاتھ سے ہم نے اداروں کو بیچا ،دوسرے ہاتھ سے ان کو خرید کر ہم امیر سے امیر تر ہوگئے اور ہمارے قومی ادارے معاشی طور پر کمزور اور بدحالی کا شکار ہوتے گئے اور ہما رے حکمرانوں اور ان قومی اداروں کے سربراہان کے اپنے کاروبار اور بینک بیلنس، دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے گئے۔ بقول غالب یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔

کوئی دور تھا جب ہمارے اداروں اور ان کے سنبھالنے والوں کی دنیا مثالیں دیا کرتی تھی کہ پاکستاں ایئر لائینز دنیا کی کامیاب ترین ایئر لائنز ہیں اور آج دنیا کی ائیرلائنز ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے مگر ہماری قومی ایئر لائن شدید مالی خسارے سے دوچار ہے۔ پی آئی اے کی انتظا میہ اور اس کے یونین عہدیداران امیر ہو گئے مگر بے چاری (پی آئی اے) اپنا خون دیتے دیتے تباہی کے کنارے آ پہنچی، اور ایسا ہی حال ہے ہمارے سارے اداروں کا ہے جو ماضی میں کماو پوت تھے، آج ہم ان کو بیچنے کی بات کر رہے ہیں۔( پی ٹی سی ایل) پاکستان سٹیل مل، پاکستان ریلویز، بینک، کارپوریشنز اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں کام کرنے والے بے رحم لوگ میڈیکل الاﺅنس کی مد میں اپنے گھر اور جائیدادیں بنا گئے۔ باقی جو کرتا دھرتا تھے انھوں نے سرکاری مال پر خوب ہاتھ صاف کیے، مال کمایا اور اپنی سات پشتو ں کے لئے سامان سو برس کا اکٹھا کر لیا، نہ کاغذ چھوڑا نہ کوئی قلم۔ سرکاری مال کو اپنا سمجھ کے گھر لے آئے اور ابھی تک یہ کام جاری ہے۔ ماضی میں جو سرکاری ادارے خسارے میں جا رہے تھے، جب ان کی نجکاری ہوئی اس کے بعد وہ دوبارہ خود کفیل بن گئے۔ اور یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے لوگ، جب نجی اداروں میں کام کرتے ہیں اکثر وہ بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

پتا نہیں کہ غلطی کس کی ہے، اداروں کی یا پھر لوگوں کی۔ پتا نہیں کیوں ہم سرکاری اداروں کو اپنی ملکیت سمجھ کر اس کی ہر چیز کا غلط استعمال کرتے ہیں، گاڑی سے لے کر فائل کور کو بھی نہیں چھوڑتے۔ ہم اپنے کاروبار کو تو صحیح چلا تے ہیں اور اس کی دن رات ترقی بھی ہو جاتی ہے، صفائی کرنے والے ادارے ناکام ہیں اور کچرا اٹھانے سے لیکر صفائی ستھرائی کے لیے ٹھیکے چینی اور ترکی کی کمپنیوں کو دینے پڑ رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہمیں واپڈا، پولیس، صحت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تمام محکموں کو بھی ٹھیکے پر دینا پڑے گا، نہیں تو یہ دلِ بے رحم لوگ ان اداروں کو بھی مالِ مفت سمجھ کر ایک دن کھا جائیں گے۔ ہمارے ہاں ادارے اورتنخواہیں لینے کے لئے لوگ تو موجود ہیں مگر کام اور محنت کا رواج نہیں اور لگتا یہ ہے کہ مالِ مفت اور دلِ بے رحم کی لت ہی لگ گئی ہے، یا پھر رواج سا بن گیا ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ مالِ مفت والے لوگ تو غیر سرکاری اداروں میں بھی پائے جاتے ہیں اور سارا قصور تو سیاسی، سفارشی اور رشتے داروں کو بھرتی کر نے کا ہے، اور سرکاری لوگ تو بیچارے ویسے ہی بدنام ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اداروں کو نہیں بلکہ ہم ان دلِ بے رحم لوگوں کو نجکاری کا حصہ بنائیں،اور ان اداروں کو ٹھیک کریں مگر یہاں پر یہ بھی بڑا سوال ہے کہ ان کو ٹھیک کریگا کون؟ کیوں کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).