لے کے رہیں گے پاکستان, بن کے رہے گا پاکستان


یہ 23 مارچ 1940 ء کا دن تھا۔ لاہور کا منٹو پارک لوگوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ آنکھوں میں آنسووں کے موتی ٹمٹما رہے تھے اور دل کی دھڑکن بہت تیز تھی۔ جوش و جذبہ رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا تھا۔ بلا امتیاز رنگ و نسل وہ سب ایک مقصد کی خاطر ایک پرچم کے سائے تلے اکٹھے ہوئے تھے اور ان کے لبوں پر بس ایک ہی نعرہ تھا۔

لے کے رہیں گے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان

ان کے پاس آزاد فضا نہیں تھی۔ ان کی نسلیں صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی تھیں لیکن اب وہ تھک چکے تھے اور ان سب کی صرف ایک خواہش تھی۔ آزادی ، آزادی اور صرف آزادی۔ اور اس ایک خواہش نے ان کو ایک کر دیا تھا۔ اس دن نہ تو کوئی پنجابی تھا ، نہ سندھی اور نہ ہی کوئی بلوچی تھا۔ وہ سب صرف مسلمان تھے۔ سب ایک رب کے ماننے والے ، ایک مذہب کے پیروکار۔ ان کا مقصد ایک تھا اور ان کا قائد بھی ایک تھا۔ اور وہ قائد بھی ایسا جو اپنے قول کا پکا تھا۔ وہ جو کہتا تھا اس کو منوانے کا ہنر بھی جانتا تھا۔ وہ سب اس دن اس قائد کی آواز پر لبیک کہنے آئے تھے۔ مسلم لیگ کے اس ستائیسویں اجلاس میں اس عظیم قائد نے بہت واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ ۔

’آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ متفقہ رائے ہے کہ اس ملک میں اس وقت تک کوئی دستوری خاکہ قابل عمل یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا جب تک کہ وہ درج ذیل اصولوں پر مرتب نہ کر لیا جائے۔ یعنی جغرافیائی لحاظ سے متفقہ علاقے الگ خطے بنا دیے جائیں اور ان میں جو علاقائی ترمیمیں ضروری سمجھی جائیں نہ کر لی جائیں تا کہ ہندوستان کے شمال ، مغرب اور شمال مشرق میں جن علاقوں کے اندر ازروئے آبادی مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ یکجا ہو کر ایسی آزاد ریاستیں بن جائیں جو خود مختار اور مقتدر ہوں‘۔

قائد اعظم کے اس اعلان کے بعد برصغیر کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پاکستان کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد مزید سرگرم ہو گئیں۔ اور بالآخر سات سال کی انتھک کوشش کے بعد اس عظیم قائد نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور 14 اکست 1947 کو پاکستان کا ستارا دنیا کے نقشے پر چمکا۔

لیکن آج 77 سال بعد قائد کا پاکستان کہاں ہے؟ کیا آج ہم نے اپنے اسلاف کی قربانیاں بھلا دی ہیں ؟ آج ہمارے پاس اس ملک کو لے کرصرف شکوے اور گلے ہیں۔ ہمیں پاکستان نے دیا ہی کیا ہے؟ ایک آزاد فضا میں سانس لینا کتنی بڑی نعمت ہے اس بات کا اندازہ ان غلاموں کو ہو سکتا تھا جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ ہم تو غلامی کی گھٹن کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آج بھی پاکستان کا ستارہ دنیا کا نقشے پر چمکتا ہے لیکن کرپشن و بد عنوانی ، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اس ستارے کی شان کو گدلا کر دیا ہے۔ اس کے لیے ہم کسی ایک کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ اس ملک کو گندا کرنے میں انفرادی اور اجتماعی طور پر سب اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔

آج سے 77 سال قبل یہ خطہ ایسا تھا کہ لوگ اس کے لئے جان دینے کو تیار تھے اور اس کے حصول میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ چیزوں کی قدر تب ہوتی ہے جب وہ آپ سے چھن جاتی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ آپ ایک صبح اٹھیں اور آپ سے یہ آزاد فضا چھن چکی ہو۔ آزادی کیا نعمت ہے فلسطینیوں سے پوچھیں لیکن ہم کیا کریں ہمیں پاکستان نے دیا ہی کیا ہے؟ بظاہر ہم 23 مارچ کو بہت جذبے اور جنون سے مناتے ہیں لیکن یقین جانئے اصل میں یہ محض ایک تہوار بن کر رہ گیا ہے۔

چلئے 77 سال بعد پھر سے ایک قرارداد پاس کرتے ہیں کہ ہم اس الزام تراشی کے کھیل سے نکل کر اس ملک کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے تو ہم سب کو مل کر اس کے ماتھے کے جھومر کی چمک کو بحال کرنا ہے۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اگے ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
پاکستان زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).