پاکستانی حکومتیں، جج اور عدلیہ


انیس سو ستر کے وسط میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دنوں میں پولیس نے سانگھڑ کے سیشن جج اویس مرتضی کو ڈیفنس آف پاکستان رولز (ڈی پی آر) کے تحت گرفتار کر کے انہیں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر نظربند کر دیا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ہتھکڑی بھی لگائی گئی تھی۔
جج اویس مرتضیٰ کا اصل ’قصور‘ کیا تھا؟ یہی کہ انہوں نے پیر پگاڑو کے حروں (مریدوں ) کی ضمانت منظور کی تھی۔

یہ واقعہ مجھے پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی اور پھر انہیں ان کی سرکاری رہائشگاہ پر محصور کیے جانے پر یاد آیا۔

ذوالفقار علی بھٹو یا پرویز مشرف ہی کیا روز اول سے لے کر آج تک پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کے پاؤں تلے روندی ہوئی تمام تاریخ ان کی طرف سے عدلیہ اور اس کے ججوں کو زیر و زبر کرنے سے بھری پڑی ہے۔

سندھ چیف کورٹ نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے خلاف سپیکر مولوی تمیز الدین کیس کی سماعت کی اور فیصلہ گورنر جنرل کے خلاف اور اسمبلی کی بحالی کے حق میں دیا۔ اس تاریخی فیصلے کے مصنف جسٹس محمد بچل میمن تھے۔

گورنر جنرل نے اس فیصلے کے خلاف پاکستان فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی اور ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت چیف جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔

اسی طرح پاکستان کی عدلیہ نے ’نظریہ ضرورت‘ یا ڈنڈے کے تحت آنے والے دنوں میں ملک میں مارشل لاؤں اور آئین و قوانین سے ماورا حکمرانوں اور حکومتوں کیے لیے راستہ کھول دیا۔

سندھ کے کسان لیڈر حیدر بخش جتوئی نے جسٹس منیر کے فیصلے کے خلاف ایک پمفلٹ لکھا ’جسٹس آف چیف جسٹس‘ جس پر انہیں تین برس قید کی سزا ہوئی تھی۔

جب ایوب خان نے اکتوبر انیس سو اٹھاون میں مارشل لاء نافذ کیا تو جسٹس ایم آر (محمد رستم ) کیانی مغربی پاکستان ہائیکورٹ (اب لاہور ہائیکورٹ) کے چیف جسٹس تھے۔

مغربی پاکستان ہائیکورٹ میں کئی کیسوں کی سماعت اور فیصلوں میں جسٹس کیانی نے ایوب خان اور ان کی حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ انیس سو باسٹھ میں انہیں سپریم کورٹ میں ترقی کے بجائے ہائیکورٹ سے ہی ریٹائر کر دیا گیا۔

یحییٰ خان کے دنوں میں بنگال میں فوجی آپریشن کے دوران اس وقت کے مشرقی پاکستان میں جنرل ٹکا خان سے ڈھاکہ ہائیکورٹ کے جسٹس ایم ایم مرشد نے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔

جب یحییٰ خان اور ان کا فوجی ٹولہ اقتدار سے ہٹ گیا تو پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک غلام جیلانی کی غیر قانونی نظربندی کے خلاف ان کی بیٹی عاصمہ جیلانی کی دائر کردہ درخواست کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے پہلی بار پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا حکم دیا۔ ججوں نے اس مشہور عاصمہ جیلانی کیس میں یحییٰ خان اور اس کے ساتھی ٹولے کو ملکی اقتدار پر قابض قراردیا (لیکن تب جب یحییٰ خان حکومت ختم ہو گئی تھی) ۔

اپنی حکومت کو سول مطلق العنانی کی طرز پر چلانے کے لیے انہوں نے قانونی اصلاحات کے نام پر آئین میں ترامیم کروائی۔

ضیاءالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور بھٹو قتل کے کیس میں قیدی بنے۔ ضیاء الحق نے جسٹس کے۔ ایم صمدانی اور جسٹس دراب پٹیل سمیت ان ججوں کا گھیرا تنگ کیا جنہوں نے بھٹو کی درخواست ضمانت منظور کی یا مقدمہ قتل میں اختلافی فیصلے یا نوٹ لکھے تھے۔

نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے جنرل ضیاء الحق کو جلد سے جلد انتخابات کروانے اور مارشل لاء ختم کر کے بیرکوں میں واپس جانے کا کہا تھا۔

ضیاء الحق کو علم تھا کہ ان کے چیف جسٹس انوارالحق پر اپنی سول سروس کے دنوں میں انکم ٹیکس کی چوری جیسے الزام لگے ہیں اور وہ اور مولوی مشتاق اور ساتھی جج اپنی تقرریوں اور ترقیوں کے سلسلے میں بھٹو سے متنفر رہے تھے اس کے باوجود انہیں بھٹو کیس اور پھر اس کی اپیل سننے والے بینچوں میں ان کی تقرریاں رہنے دیں۔

ضیا ءالحق کے ہی دنوں میں سندھ ہائی کورٹ کے جج سید غوث علی شاہ نے ضمنی انتخابات لڑے تھے اور اس طرح وہ ججی کے منصب سے براہ راست سندھ کے وزیر اعلی منتخب ہو گئے۔

’سپریم کورٹ حکومت کے ریسکیو پر‘ جیسی شہ سرخی سے ضمیمہ شائع کرنے والے انگریزی روزنامے ’فرنٹیئر پوسٹ‘ پر توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا گیا۔

انیس سو ترانوے میں نواز شریف کیس میں شاید جسٹس سجاد علی شاہ کے ’لاہور اور لاڑکانہ‘ کا فرق کرنے والے اختلافی نوٹ پر بینظیر بھٹو کے دوسری دفعہ اقتدار میں آنے پر انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ جسٹس اجمل میاں اس وقت سب سے سینئر جج تھے۔

لیکن جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ میں سیاسی بنیاد پر ججوں کی تقرریوں کے خلاف پٹیشن کی سماعت پر بینظیر بھٹو ان سے ناراض ہوئی اور ان کے اہل خانہ کے خلاف سندھ میں عبداللہ شاہ حکومت کے ہاتھوں انتقامی کارروائیاں شروع کی گئیں۔ ان کے داماد کے خلاف بدعنوانی کے مقدمے میں ان کے حیدرآباد میں گھر پر پولیس کے ذریعے چھاپے مارے گئے۔

سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت کے چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد اور دیگر ججوں کو ریاستی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے کیسوں کی شنوائیاں کرنے پر زبردست مداخلت اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سندھ کے چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد کو ترقی کے نام پر وفاقی شرعی عدالت میں مقرر کر دیا گیا جہاں وہ اتنے فارغ بیٹھے تھے کہ انہیں وقت گزاری کے لیے تاش کھیلنا سیکھنا پڑی تھی۔

انیس سو بانوے میں کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران لوگوں پر تشدد پر فوج سے باز پرس کرنے پر پر ڈسٹرکٹ جج شبیر احمد کے چیمبر اور عدالت پر چھاپہ مارا گیا اور کچھ دنوں بعد جج کے لیے سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ وہ اصل میں ’بھارت کے شہری‘ ہیں۔

انیس سو ستانوے کے انتخابات میں ’ہیوی مینڈیٹ ”لے کر آنے والے وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی کے سندھ میں نامزد وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لینے سے قبل ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اسلام آباد سے سبک دوش ہونے والی نگران حکومت کے وزیر قانون سے کہا گیا تھا۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ پر نواز شریف کی پارٹی کے ہلہ بولوں کے ہاتھوں حملے کے دوران صدر اور فوج کے سربراہ کو اپیلیں کرتے رہ گئے۔ سجاد علی شاہ کی جبری ریٹائرمنٹ کی اصل وجہ نواز شریف حکومت سے محاذ آرائی نہیں بلکہ ائرمارشل اصغر خان کی طرف سے آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کی طرف سے سیاستدانوں میں بانٹی جانے والی کروڑہا روپوں کی رقوم کے خلاف دائر کی جانے والی پٹیشن کی سماعت تھی۔

نواز شریف کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں سے عبوری آئینی حکم یا پی سی اوز کے تحت حلف اٹھانے کو کہا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو ان کی رہائشگاہ پر ایک فوجی کرنل نے تب تک سپریم کورٹ جانے سے روکے رکھا جب تک ججوں نے سی پی او کے تحت حلف نہیں اٹھا لیے۔
(مارچ 2007 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments