عوام کس سے سوال کریں؟


پاکستان میں 1977 ء کے بعد کے بیانیہ کو تشکیل دینے والوں کی اکثریت آج منوں مٹی تلے دفن ہے لیکن دور حاضر کی ذہنیت اور سوچ بھی اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ سامنے آ رہی ہے ، سابقہ بیانیہ کو چیلنج کر رہی ہے اور اپنی جولانیاں دکھا رہی ہے ۔۔ کچھ سوالات ہیں جن کا جواب اس تناظر میں ضروری ہے کہ ہم سوچیں اور ان کی جستجو کریں۔-

مذہب کو سمجھنا آخر کس نے ہے ؟ کیا ہر فرد اس سلسلے میں آزاد ہے یا کوئی مذہبی اجارہ داری اس میں کارفرما ہے ؟
مذہب اور ریاست کا تعلق کیا ہے اور اسے واضح کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟

سماج ہوتا کیا ہے ، بنتا کیسے ہے ، سماجی تعلقات کیسے وجود میں آتے ہیں اور ان میں ارتقا کی ممکن صورتیں کیا ہیں ؟
ثقافت ، ثقافتی ورثہ ؟ یہ کیا بلا ہے آخر .. اس مs sy یں خوبیاں زیادہ ہیں یا خامیاں ۔

اور آیا یہ کہ کیا مذہب اور ثقافت میں کوئی تصادم پایا جاتا ہے ؟ مگران سب باتوں سے کسی کو کیا لینا دینا۔۔

بدقسمتی سے جب تاریخ کی بات کریں تو اس کا تعلق اور نقطہ آغاز ، ماضی کے واقعات اور شخصیات میں سے صرف محمد بن قاسم سے جوڑا جاتا ہے اور آغاز بھی وہیں سے کیا جاتا ہے ۔

آج بات کرنا ، سوالات اٹھانا ، اور مکالمہ میں اپنے موقف کا اظہار کرنا بہت مشکل ہے ، بات سن بھی کون رہا ہے ؟ سنائی جائے تو کسے ، سنی جائے تو کس کی ؟

آج جسے’ عدل‘ کہتے ہیں اور جو’ عادل‘ مشہور ہے وہ بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی تعصب سے متاثر نظر آتا ہے۔

انسانیت کا تو پوچھیں نہیں کہ وہ کہاں اور کیسے پیچھے رہ گئی ہے۔ لگتا یوں ہے کہ آگے ہے تو بس جنوں اور اندھی عقیدت ۔ فرقہ وارانہ لٹریچر اور نفرت انگیز آڈیو ویڈیوز سے تشکیل پاتا اندھا عقیدہ ، ادھورا سچ ، فرقہ وارانہ سوچ اور جمہوریت کے نام پر قانون ساز اداروں میں موجود وہ رہنما ، جن کی بصیرت ، بہادری اور جرات نہ زباں پر نظر آتی ہے نہ کردار میں اور نہ نتائج میں ۔

مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اس گھمبیر صورتحال میں ہم سب دیکھیں بھی تو کس کی طرف …. کیا سیاسی قیادت کی طرف ؟

ان میں سے کسی کے ہاتھ پانامہ میں رنگے ہیں تو کوئی بیڈ گورننس اور اقربا پروری میں پیچھے نہیں رہا۔ دوڑ ہے تو لوٹ مار اور فساد کی۔

کوئی تبدیلی کے نام پر اقتدار کے حصول میں ہی لگا ہوا ہے اور کوئی ہر حکومت کی آشیر باد اور اس کی چھتری کے سوا رہ نہیں سکتا۔ کسی نے تشدد اور خوف سے لوگوں کو اپنی قید میں رکھنے کی پالیسی کو ترک کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تو کوئی ایسا کام کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے جو وہ نہیں کرنا چاہتا مگر قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں کی دو سال کی توسیع کے بعد سینٹ میں بھی بل کے حق میں ووٹ دیتا ہے – آج ایک سینیٹر یہ کہتے پائے گئے کہ’ میں اپنے اندر اچھا محسوس نہیں کر پا رہا ‘ اور یہ کہ’ پارلیمنٹ کے لیے یہ سب شرمندگی کا باعث ہے ‘ – شرمندگی کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ آخر کون شرمندہ کر رہا ہے پارلیمنٹ و جمہوریت کو؟

دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے جو لگتا ہے اپنی ادارہ جاتی اجارہ داری سے دستبردار ہونا نہیں چاہتی اور ہنوز سینہ پھلائے بیٹھی ہے۔
ہائے افسوس . ہم عوام کریں تو کیا کریں ؟ جائیں تو کہاں ؟

جمشید رضوانی
Latest posts by جمشید رضوانی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).