دودھ بیچنے والا کیسے پاکستان کا وزیر اعظم بنا


تقریباً ایک صدی قبل یعنی 20 ستمبر1916ء کو لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا، چار بہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹا تھا؛ پوراگاؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ اس کے گاؤں میں کوئی اسکول نہ تھا، لہٰذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے جاتا، راستے میں ایک برساتی نالے سے اسے گزرنا پڑتا؛ چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ آٹھ میل دور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا؛ اس نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا؛ مزید تعلیم حاصل کرنے لاہورآیا؛ یہاں اس نے سنٹرل ماڈل اسکول میں (جو کہ اس وقت کا نمبر ون اسکول تھا) داخلہ لے لیا۔ اس کا گاؤں شہر سے تیرہ کلومیٹر دور تھا۔غریب ہونے کی وجہ سے اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل تھی، مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے، بل کہ ان حالات کے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچے گا اور اپنی تعلیم جاری رکھے گا چناں چہ وہ صبح منہ اندھیرے اذان سے پہلے اٹھتا، مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا، ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتا، شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اور کچھ دُکان داروں کو دودھ فروخت کرتا اور مسجد میں جا کر کپڑے بدلتا پھر اسکول چلا جاتا۔ کالج کے زمانہ تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور اپنی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس نے غربت کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔

بچپن میں اس کے پاس اسکول کے جوتے نہ تھے۔ اسکول کے لیے بوٹ بہت ضروری تھے۔ جیسے تیسے کرتے اس نے کچھ پیسے جمع کر کے اپنے لیے جوتے خریدے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گاؤں میں بھی جوتے پہنتا تو وہ جلدی گھِس جاتے چناں چہ وہ گاؤں سے والد کی دیسی جوتی پہن کر آتا اور شہر میں جہاں دودھ کا برتن رکھتا، وہاں اپنے بوٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتا اور اپنے اسکول شوز پہن کے اسکول چلا جاتا۔ والد سارا دن اور بیٹا ساری رات ننگے پاؤں پھرتا۔ 1935ء میں اس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا۔ اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے گاؤں سے ریڑھی میں دودھ لاتا اور شہر میں فروخت کر دیتا۔ اس کام میں کبھی اس نے عار محسوس نہ کیا۔ فرسٹ ائیر میں اس کے پاس کوٹ نہ تھا اور کلاس میں کوٹ پہننا لازمی تھا چناں چہ اسے کلا س سے نکال کر غیر حاضری لگا دی جاتی۔ اس معاملے کا علم اساتذہ کو ہوا تو انہوں نے اس ذہین طالبعلم کی مدد کی۔ نوجوان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ 1939ء میں اس نے بی اے آنر کیا۔ یہ اپنے علاقے میں واحد گریجویٹ تھا۔ یہ نوجوان اس دوران جان چکا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی کام آسانی سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ کامیابیوں اور بہترین کامیابیوں کے لیے ان تھک محنت اور تگ و دو لازمی عنصر ہے۔

معاشی دباو کے تحت بی اے کے بعد اس نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری کر لی۔ چوں کہ اس کا مقصد لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصے بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا۔ 1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی۔ اس پر خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اس جذبے کے تحت 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا۔ پیپلزپارٹی کے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گیا۔ 1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوا اور نواب مظفر قزلباش کے بھائی کو، جن کے گھر یہ دودھ بیچتا کرتا تھا، شکست دی۔ 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک اور پس ماندہ علاقہ جات بنا۔ 1972ء میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا۔ وزارت اعلیٰ کے دوران اکثر رکشے میں سفر کرتا۔ اپنے گورنر مصطفی کھر کے ساتھ نبھا نہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثال قائم کی۔ 1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ 1973ء میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلم دان سونپا گیا۔ 1976ء میں وفاقی وزیر بلدیات و دیہی مقرر کیا گیا۔ دو دفعہ اسپیکر قومی اسمبلی بنا اور چار سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر رہا۔

ایک مفلس و قلاش ان پڑھ کسان کا بیٹا، جس نے کامیابی کا ایک طویل اور کٹھن سفر اپنے دودھ بیچنے سے شروع کیا اور آخر کار پاکستان کا وزیراعظم بنا، یہ پاکستان کا منفرد وزیراعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے کے مکان میں رہا۔ جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا، جس کا جنازہ اسی کرائے کے گھر سے اٹھا، جو لوٹ کھسوٹ سے دور رہا۔ جس کی بیوی اس کے وزارت عظمیٰ کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتی پھرتی۔ قارئین ملک معراج خالد تاریخ کی ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ آپ 23 جون 2003ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کے ہم سے رخصت ہوئے لگ بھگ چودہ سال ہو گئے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ ایسے افراد کو صدیوں تک یاد رکھتی ہے۔ یہ کسی کے ساتھ بے ایمانی نہیں کرتے، جس نے اپنا مقصد حیات انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کیا۔ جنہوں نے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ آج تاریخ پھر اس موڑ پہ ہے جہاں اسے ایسے باہمت و محب وطن رہنما کی ضرورت ہے۔

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal