23 مارچ یوم پاکستان نہیں


کیسی اذیت ہے۔ 23 مارچ کا تاریخی دن ہے اور اس پر کچھ اچھا لکھنا چاہتا ہوں مگر انگلیاں لیپ ٹاپ پر حرکت کرنے کو تیار نہیں۔ انگلیوں کی بغاوت تو ایک طرف جس دماغ پر برسوں سے ناز ہے وہی سوچنا چھوڑ چکا ہے۔ اور جو کچھ دماغ سوچ رہا ہے اسے لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ مثال کے طور پر اگر میرا دماغ یہ سوچے کہ 23 مارچ ایک تاریخی دن ہی نہیں تھا بلکہ ایک عام سا دن تھا جس طرح کے دن تحریک آزادی میں روز آتے تھے تو میں یہ بات نہیں کہہ سکتا حالانکہ دماغ کی لاجک سمجھ بھی آتی ہے اور دل تسلیم بھی کرتا ہے۔ بہت عرصے سے ہزار ہا آرٹیکلز 23 مارچ کی اہمیت پر سن اور پڑھ چکا ہوں مگر سوال پھر وہی ہے کہ 23 مارچ کو کیا خاص ہوا؟ کیا نیا ہوا؟ ایک عزم کا اظہار بلکہ عزم بھی نہیں ایک مطالبہ۔ آزادی کا مطالبہ نہیں بلکہ حقوق کا مطالبہ اور ساتھ میں ان حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ بتایا گیا کہ مسلم اکثریت والے صوبوں کو ایک منظم طریقے سے ہندو اکثریت والے علاقوں سے الگ کر دیا جائے تاکہ وہاں مسلمان اپنے طریقے اپنی مرضی سے اپنے چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے فیصلے کر سکیں۔

جی جی چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے فیصلے کیونکہ اس قرارداد میں انگریزوں کو یہ ہرگز نہیں کہا گیا تھا کہ آپ انڈیا سے کوچ کریں۔برٹش حکومت میں رہتے ہوئے اپنے لوکل فیصلوں کاا ختیار۔ خیر یہ بات تو تحریک آزادی کی کسی جماعت نے بھی نہیں کہی۔1944ء تک کانگریس کو بنے اٹھاون اور مسلم لیگ کو اڑتیس سال ہو چکے تھے مگر کبھی کسی جماعت نے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ نہیں کیا۔ درحقیقت یہ تو ان جماعتون کے منشور میں ہی نہیں تھا۔ ان کا منشور تھا کہ برٹش انڈیا میں انڈین کمیونٹی کو ان کے حقوق دلوائے جائیں اور بس۔ اس حقوق کی جنگ میں مسلم لیگ اور کانگریس میں بنیادی اختلاف بس ایک تھا اور وہ یہ کہ کانگریس کہتی تھی کہ مسلمان ایک اقلیت ہیں اور انہیں ان کی آبادی کے لحاظ سے حصہ ملنا چاہیے جبکہ مسلم لیگ کا نظریہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک تاریخی اہمیت ہے وہ اس علاقے میں ہزار سال تک حکمران رہے ہیں اس لیے انہیں تھوڑا زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔

نہرو رپورٹ اور قائد اعظم کے چودہ نکات میں بس دو تین ہی بڑے بڑے فرق تھے۔ ایک تو یہ کہ نہرو کے مطابق مسلمانوں کی آبادی پچیس فیصد تھی تو انہیں پچیس فیصد نشستیں ہی ملنی چاہئیں جبکہ قائد اعظم کے مطابق مسلمانوں کی آبادی چونکہ دوسرے نمبر پر تھی اس لیے انہیں کم از کم تینتیس فیصد نشستیں تو ملنی چاہئیں۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ قائد اعظم یہ چاہتے تھے کہ بنگال اور بمبئی جیسے بڑے صوبے جن میں کچھ جگہوں پر مسلمانوں اور کچھ جگہوں پر ہندوﺅں کی اکثریت ہے ان کو اس طرح سے تقسیم کر دیا جائے کہ مسلمان اکثریت والا علاقہ ہندو اکثریت والے علاقے سے الگ ہو جائے۔ مقصد صرف یہی تھا کہ اگر یہ صوبہ اکٹھا رہے گا تو مجموعی آبادی زیادہ ہونے کہ وجہ سے صوبے پر حکومت ہندوﺅں کی رہے گی۔ سمجھنے کے لیے کچھ سالوں سے ایم کیو ایم کے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبے کو دیکھ لیجیے۔ اس کے پیچھے بھی وہی سوچ کارفرما ہے۔تینوں راﺅنڈ ٹیبل کانفرنسز اسی ایجنڈے پر ہوئیں کہ کسی طرح مسلم لیگ اور کانگریس ایک پیج پر آ جائیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔

علامہ اقبال نے تصور پاکستان دیا مگر اس میں بھی واضح طور پر آزاد ملک کی بات نہیں ہوئی بلکہ یہ کہا کہ مسلمان اکثریت والے علاقوں کو ایک یا ایک سے زیادہ یونٹس میں تبدیل کر دیا جائے جو برٹش انڈیا یا آزاد انڈیا میں اپنی مرضی سے فیصلے کر سکیں۔ یعنی کہ ایک بار پھر بات صوبائی آزادی کی ہو رہی تھی اور ایسی صوبائی آزادی کی جس میں مسلم آبادی والے علاقے ایک صوبے میں ہوں۔ بمبئی سے سندھ کی علیحدگی اور بنگال کی تقسیم دونوں کا مقصد مسلمان اکثریتی علاقوں کو ہندو اکثریتی علاقوں سے الگ کرنا تھا تاکہ اپنی مرضی سے فیصلے کیے جا سکیں۔

ایک الگ ملک کا خیال تو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بالکل قریب جا کر آیا جب کانگریس اور مسلم لیگ کو یہ محسوس ہوا کہ انگریز اب جنگ عظیم سے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ اگر ہم انہیں انڈیا چھوڑنے کا کہیں تو وہ مان جائیں گے۔ تاریخی حقائق یہ ہیں کہ انڈیا چھوڑنے کا مطالبہ بھی کانگریس نے کیا تھا نہ کہ مسلم لیگ نے مگر جب مسلم لیگ نے یہ دیکھا کہ انگریز برصغیر چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انہوں نے انگریزوں پر یہ زور ڈالا کہ جانے سے پہلے انہیں الگ ملک بنا دیا جائے کیونکہ آزادی کے بعد انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے۔ تو تحریک پاکستان اپنی اصلی شکل میں 1944 ء سے شروع ہوئی نہ کہ1940 ء سے

23 مارچ1940 کو ایک عزم کو وہرایا گیا ،ایک مطالبے کو دہرایا گیا۔ نہ تو عزم نیا تھا نہ ہی مطالبہ۔ مسلمانوں نے اپنے حقوق کی آواز ایک بار پھر سے اٹھائی۔ جناب والا حقوق کی آواز آزادی کی آواز نہیں۔ مسلم اکثریتی علاقوں کی تنظیم بدلنے کا مطالبہ کیا گیا ایک الگ آزاد وطن کا نہیں۔ اس لیے میرے لیے 23 مارچ کا دن مسلمانوں کے حقوق کی آواز کا دن تھا ایسے ہی ہزاروں اور دنوں کی طرح۔ مسلم لیگ کی جدوجہد مسلمانوں کے حقوق کے لیے تھی اسلام کے حقوق کے لیے نہیں۔ مسلمانوں کو ایک یونائٹیڈ انڈیا میں رہنے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر انہیں اپنے حقوق ملتے اور ان کے حقوق مجموعی شریعت کا نفاذ نہیں بلکہ اپنی انفرادی زندگی اپنی مرضی سے اپنے مذہب کے مطابق گزارنے کی آزادی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).