ہرے پاسپورٹ میں لپٹی خوشبو اور دیسی احساس کمتری


دادا مرحوم کی ایک عادت سنی ہے۔ پکی عادت، پتھر پر لکیر ٹائپ عادت۔ کہ جب کبھی بھی کسی نئے بندے کو ملتے یا سنتے تو اپنی سفید پگڑی کا شملہ درست کرتے اور اپنی آنکھیں سکیڑ کر پہلا سوال یہی کرتے

‘کون ایں؟ کتھوں دا ایں؟

یعنی

کون ہو؟ کہاں سے ہو؟

ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے جہان فانی سے کوچ کر چکے تھے۔ لہٰذا ہم تو وہی سنائیں گئی جو سنا۔ جیسے جیسے بچپن سے لڑکپن کی منزلیں طے کر رہے تھے دادا مرحوم کی شخصیت کا ایک مہیب سا خاکہ ذہن میں تشکیل پا چکا تھا جس پر سب سے پکا رنگ تو اسی سوال کا تھا۔ خدا لگتی کہیں تو عمر کے اس حصّے میں یہ بات کچھ بھاتی نہ تھی۔ کہ کیا فرق پڑتا ہے کوئی کہاں کا ہے۔ ملتان ہو یا مردان، فرق کیا پڑتا ہے۔ جوان خون کی طبعیت کچھ انقلابی نوعیت کی بھی تھی۔ Racism، equality جیسے الفاظ نئے نئے سنے تھے اور مشق برابر جاری تھی۔

خیر عمر رفتہ کے سال بالکل اسی طرح سے گزرے جیسے کسی تیز رفتار ٹرین پر بیٹھے مسافر کی نظروں سے ارد گرد کے منظر۔ قسمت یا نصیب دبئی لے آیا جہاں بھانت بھانت کی قومیت کے لوگوں سے واسطہ پڑا۔ رنگ بھی جدا تھے اور بود و باش بھی۔ کبھی کبھار تو یوں لگتا تھا کہ جیسے اقوام متحدہ کے کنونشن میں موجود ہوں۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جس میں سب اپنے ڈیسک برابر بجا رہے ہیں بھلے تقریر سنیں نہ سنیں۔ لیکن یہیں پر آ کر اپنے پاسپورٹ اور تشخص کا احساس بھی بڑھ گیا۔ اپنی پہچان کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگی جب پہلا سوال ہی nationality کے بارے میں ہوتا تھا۔

‘کون ایں ؟ کتھوں دا ایں؟’

لیکن صاحب یہیں ہم نے زندگی کا ایک اور رخ بھی دیکھا۔ کچھ پرانے دوست جو معاش کی تلاش میں عرب ملکوں کی خاک چھاننے آئے تھے ان کا بھی رنگ بدلتے دیکھا۔ پاکستانی پاسپورٹ زیادہ تر کے لئے شرم کا سبب تھا۔ جو دوست جتنا فینسی اس کے لئے یہ تذلیل اتنی ہی گہری۔ ایک ساحلی نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ کوئی تم سے پوچھے تو اپنا تعلق ایران سے بتانا۔ پاکستانی اور انڈین کمیونٹی کے لئے مشترکہ اصطلاح دیسی کو تو گالی جانئے۔ شکر ادا کیجئے اپنے لشکری آباؤ اجداد کا کہ جن کی بدولت ہماری مماثلت ہر قومیت سے مل جاتی ہے۔ اچھا تو ہم سنا رہے تھے قصہ اپنی ان دوست کا جن کو نہ صرف ہم نے یہ جھوٹ بولنے سے انکار کیا بلکہ ان کی دوستی سے بھی۔ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔

بہت سے ایسے پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی جو لفظ دیسی کو گالی سمجھتے تھے۔ ایسے علاقوں میں رہنا پسند کرتے تھے جہاں کم سے کم دیسی تو نہ رہتے ہوں۔ ایسی جگہوں پر جانا پسند کرتے تھے جہاں دور دور سے بھی کوئی بھوری چمڑی والا نہ دکھے۔ سارا دن خوشی سے مسرور رہتے اگر کوئی انہیں غلطی سے مصری یا لبنانی سمجھ لے تو عید مبارک۔ پاکستانی لہجے میں انگریزی؟ توبہ توبہ۔ اب آپ کہیں گے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں لیکن صاحب یہ کالم سب کی نذر ہے بھی نہیں۔

اس وقت پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں دوسرے آخری نمبر پر ہے۔ ائیرپورٹس والے بھی ہمیں کچھ خاص پسند نہیں کرتے۔ اسی بات کو کیس بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کہ بھیا شرم آتی ہے خود کو پاکستانی کہتے ہوئے۔ لوگ رائے قائم کریں گے۔ ہمارا تو کہنا بس اتنا ہی ہے کہ جناب جب تک آپ خود کی تحکیم کرنا ترک نہیں کریں گے کسی اور سے کیا گلہ؟ اپنی شناخت کم از کم خود سے تو مت چھپائیے۔

جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، اپنا ہے۔ دہشت گردی، غربت، کرپشن سے انکار نہیں لیکن اپنی پہچان کی نفی کیوں؟ جیسا بھی ہے گھر ہے۔ کبھی جانے کے لیے ویزا درکار نہیں ہو گا۔ حقیقت سے منہ مت موڑئیے۔ جاگتی آنکھوں سے انگریزی کا جو بھی لہجہ اپنا لیجئے خواب تو مادری زبان میں ہی دیکھیں گے نہ۔ سرخاب کے پر چپکانے سے بھی کبھی بندر سرخاب بن سکا ہے بھلا!

یوم پاکستان ہے۔ تمام بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے التماس ہے کہ کوئی پوچھے ‘کون ایں؟ کتھوں دا ایں؟ ‘ تو اپنا سر اونچا کر لیجئے۔ رنگ بدل سکتا ہے، رہائشی کا علاقہ بدل سکتا ہے، جاگتی آنکھوں کی زبان بدل سکتی ہے لیکن رنگوں میں دوڑتا خون نہیں۔ خوابوں کی زبان بھی وہی رہے گی اور دھرتی کی خوشبو سے شناسائی بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).