23 مارچ۔ یومِ جمہوریہ سے یومِ قرار دادِ پاکستان تک


11 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو پاکستان کے مستقبل کے دستور کے خد و خال دیتے ہوئے اپنی وہ مشہور تقریر کی جس میں تمام شہریوں کو ان کے عقیدے سے بالاتر ہو کر ایک جیسا پاکستانی کہا تھا اور ان کو ایک جیسا شہری قرار دیا تھا۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد دو قومی نظریے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’آپ دیکھیں گے کہ عنقریب یہاں نہ ہندو ہندو رہیں تو اور نہ مسلمان مسلمان۔ مذہب کے اعتبار سے نہیں، اس لئے کہ وہ ہر شخص کا انفرادی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں، ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے‘۔ مزید فرمایا کہ ’آپ آزاد ہیں۔ آپ اس معاملے میں آزاد ہیں کہ ریاست پاکستان میں آپ مندر مسجد یا کسی بھی عبادت گاہ میں جائیں۔ ریاست کے معاملات سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں کہ آپ کس مذہب، ذات یا مسلک سے تعلق رکھتے ہیں‘۔

15 اگست سے جو اسمبلی دستور بنانے بیٹھی تو اس پر اتنی زیادہ محنت کی کہ کہیں 1956 میں جا کر دستور پر کام مکمل ہوا۔ دوسری طرف بھارتی نہایت کام چور نکلے۔ انہوں نے نومبر 1949 میں دستور بنایا اور 26 جنوری 1950 کو رائج بھی کر دیا۔ حالانکہ پاکستانی دستور ساز اسمبلی تو ایک ایک شق پر اتنا زیادہ غور کر رہی تھی کہ 12 مارچ 1949 کو قائداعظم کی وفات کے چھے ماہ بعد دستور کا دیباچہ، یعنی قرار داد مقاصد ہی منظور کی۔

یہ پہلا پاکستانی دستور 29 فروری 1956 کو منظور ہوا اور 23 مارچ 1956 کو اسے نافذ العمل کیا گیا۔ غالباً مسلسل نو سال تک محنت کرنے کے بعد دستور ساز اسمبلی تھک چکی تھی اس لئے اس نے 23 مارچ کو ’یوم جمہوریہ‘ قرار دیتے ہوئے ہر سال چھٹی منانے کا اعلان کر دیا۔ اس دستور کے اہم نکات کچھ یوں تھے۔

پاکستان کا نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ رکھ دیا گیا۔ پاکستان کو ایک وفاق قرار دیا گیا اور پارلیمانی نظام حکومت اختیار کیا گیا۔ یہ دستور دنیا کے طویل ترین دساتیر میں سے تھا کیونکہ اس میں وفاقی کے علاوہ صوبائی معاملات بھی ’ہمیشہ کے لئے طے کر دیے گئے تھے‘۔ اس میں 234 شقیں اور 6 شیڈول تھے۔

دستور ساز اسمبلی نے 1954 میں گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کی کوشش کی تھی تو گورنر جنرل غلام محمد نے اسے گھر بھیج دیا تھا اور یوں مشہور عدالتی نظریہ ضرورت نے جنم لیا تھا۔ غالباً اسی وجہ سے 1956 کا دستور منظور کرنے والی اسمبلی صدر کے اختیارات کے بارے میں محتاط تھی۔

اس دستور میں صدر کو وسیع اختیارات دیے گئے تھے۔ صدر کو پانچ سال کی مدت کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیاں منتخب کرتی تھیں۔ وہ کابینہ کے مشورے پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا سکتا تھا یا ختم کر سکتا تھا۔ اجلاس کے علاوہ اسے قومی اسمبلی کو ختم کرنے کا اختیار بھی حاصل تھا۔ بجٹ پیش کرنے کے لئے اس کی منظوری درکار تھی۔ اسے وفاقی قوانین کو ویٹو کرنے کا محدود جبکہ صوبائی قوانین کو ویٹو کرنے کا مکمل اختیار حاصل تھا۔

دستور میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو صدر تعینات کرتا تھا اور کسی الزام کے بغیر ان کو نہیں ہٹایا جا سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا حق حاصل تھا۔ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کو بھی یقینی بنایا گیا تھا۔

آئین میں اسلامی تعلیمات کے اصول، غربت کے خاتمے، فلاح کے مساوی مواقع، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، جہالت کے خاتمے، معیار زندگی کی بلندی وغیرہ کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔

بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔ ان سے متصادم تمام ملکی قوانین اور پالیسیوں کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا تھا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو یکساں طور پر یہ حقوق دیے گئے تھے۔ ان میں جان و مال، آزادی، ذاتی تحفظ، آزادی اظہار رائے، نقل و حرکت کی آزادی، شہریوں کی پرائیویسی کا تحفظ وغیرہ شامل تھے۔ اردو اور بنگالی کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا اور انگریزی کو سرکاری امور کی انجام دہی کے لئے پچیس سال تک اختیار کیا گیا تھا۔

23 مارچ 1956 کو دستور کے نافذ العمل ہونے کے بعد گورنر جنرل اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بن گئے۔ 7 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا کو عوامی لیگ اور مسلم لیگ کے مذاکرات کے باعث اپنے اختیارات خطرے میں محسوس ہوئے تو انہوں نے پاکستان کا پہلا دستور منسوخ کر دیا اور ملک میں مارشل لگاتے ہوئے ’انتہائی ذہین پاکستانی قوم‘ کی امنگوں کے عین مطابق ایک برانڈ نیو دستور تیار کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی رائے تھی کہ 15 فیصد شرح خواندگی رکھنے والی انتہائی ذہین پاکستانی قوم کے لئے جمہوریت موزوں نہیں ہے۔

اس کے بیس دن بعد 27 اکتوبر 1958 کو آرمی چیف جنرل ایوب خان کو خیال آیا کہ 15 فیصد شرح خواندگی رکھنے والی انتہائی ذہین قوم کے لئے جمہوریت کے علاوہ صدر اسکندر مرزا بھی موزوں نہیں ہیں۔ جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لگا کر حکومت پر قبضہ کر لیا۔

راویانِ غلط بیان بتاتے ہیں کہ اتفاق ایسا ہوا کہ اگلے سال ہی، یعنی 1959 کو 23 مارچ آ گیا۔ اب ملک میں تو مارشل لا لگا ہوا تھا، قوم کو 23 مارچ کی چھٹی بھی چاہیے تھی اور چھٹی کے معاملے سے چھیڑ چھاڑ کی چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بھی جرات نہیں کر سکتا ہے۔ جنرل صاحب اپنی کابینہ سمیت سوچ میں پڑ گئے کہ کیا کریں اور مارشل لا کے زمانے میں یوم جمہوریت کیسے منائیں۔

کسی نابغے نے انہیں بتایا کہ قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دے دیتے ہیں اور 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کی بجائے یومِ قرارداد پاکستان کی چھٹی دے دیتے ہیں۔ اب اس میں معمولی سا ایک مسئلہ تھا۔

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا تاریخی اجلاس 22 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں ہوا جس میں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے قرارداد کے ڈرافٹ پر بحث کا آغاز ہوا۔ 23 مارچ کو اسے اوپن سیشن میں پیش کیا گیا۔ اس ڈرافٹ کو 24 مارچ 1940 کو منظور کیا گیا تھا جسے پہلے پہل قراردادِ لاہور اور اب قراردادِ پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 24 مارچ کو منظور ہوئی تو 23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کا دن کیسے قرار دیا جا سکتا تھا؟

لیکن یہ پاکستان ہے۔ ہو گیا۔ ممکن ہے کہ 22 اور 24 کی ایوریج نکالی گئی ہو۔ ممکن ہے کہ ڈرافٹ تیار کرنے یا منظور کرنے کے دن کو اہمیت نہ دی گئی ہو۔ اگر 14 اگست کو رات بارہ بج کر ایک منٹ پر آزادی ملے اور تاریخِ آزادی پھر بھی 14 اگست ہی رہے، تو 23 مارچ پر اعتراض کیسے کریں؟

جمہوریت میں ہی ترقی اور اتحاد کا راستہ ہے۔ تمام شہریوں کو برابر سمجھنے اور آئین میں موجود وعدے پورے کرنے میں ہی فلاح ہے۔ یہی ہم سب کا پاکستان ہے۔
قوم کو 23 مارچ کو پاکستان کا یوم جمہوریہ مبارک ہو۔ ’ہم سب‘ کا پاکستان مبارک ہو۔
Mar 23, 2017

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar