قائد اعظم نے پاکستان کیوں بنایا؟ ۔۔۔ بیس ضروری نکات


آج یوم پاکستان ہے۔ زیادہ صحیح اصطلاح میں یوم قرارداد پاکستان ہے۔ گڑے مردے اکھاڑنے کے کچھ شوقین اسے یوم جمہوریہ بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ ماضی کے اسیر ہیں۔ مردہ پرست ہیں، کفن چور ہیں۔ طے شدہ معاملات پر بحث مباحثہ چھیڑ کر قوم میں خلفشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نظریہ ارتقا میں یقین رکھتے ہیں۔ سائنسی سوچ میں ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ اس سے انسانیت آگے بڑھتی ہے۔ تاریخ کی سوجھ بوجھ میں بھی ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ اس ارتقا کو ہمیشہ سرکاری اعلانات کی مدد سے سمجھنا اور تسلیم کرنا چاہیے۔  مثال کے طور پر گزرے ہوئے کل فیصل آباد جانا ہوا۔ یہ عظیم شہر فیصل آباد مملکت سعودیہ عریبیہ سے ہماری دوستی کا لازوال نشان ہے۔ عبداللہ پل کے قریب سڑک کے کنارے ایک بینر دکھائی دیا۔ ایک مذہبی تنظیم کے طرف سے 22 مارچ کی سہ پہر فیصل آباد میں ایک عظیم الشان جلسے کا اعلان تھا: جلی حروف میں لکھا تھا

ردالفساد کی حمایت میں ۔۔۔

سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف ۔۔۔

واہ واہ۔۔۔ اسے کہتے ہیں، وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنا۔ بلکہ یہاں تو شاید دونوں ہاتھوں سے وقت کی طنابیں کھینچ لی ہیں۔ ایک طناب کا رخ راولپنڈی کی مری روڈ کی طرف ہے اور دوسری طناب کہیں آب پارہ کے آس پاس طنبورے کے تار جیسی کساوٹ میں ہے۔ اب اسلام اباد کی اس مسجد کا نام بھی غالباً بدل دیا جائے گا جسے چند ماہ قبل حضرت راحیل شریف کے نام نامی سے منسوب کیا گیا تھا۔

صاحبان، عرض کی جا چکی ہے کہ تاریخ میں بھی ارتقا ہوتے رہنا ضروری ہے۔ تاریخ کے ارتقا کا رخ ماضی کی طرف ہوتا ہے۔ ماضی میں پیش آنے والے واقعات کو حسب منشا حذف کر دیا جاتا ہے، نئے واقعات گھڑے جاتے ہیں اور کچھ واقعات کو معمولی تبدیلی کے ساتھ نئے معنی پہنا دیے جاتے ہیں۔ تاریخ کے ارتقا کا تقاضا ہے کہ 23 مارچ کو یوم قرار داد پاکستان کہا اور مانا جائے۔ یہ سوال اٹھانے کی اجازت نہیں کہ 1947 سے 1956 تک 23 مارچ کے روز اہل پاکستان کس کلھیا میں گڑ پھوڑتے تھے۔ اور یہ بھی کہ 1957-58 کے دو برس میں ہم نے 23 مارچ کے روز یوم جمہوریہ کیوں منایا؟ یوم جمہوریہ کسے کہتے ہیں؟ جمہوریہ کسے کہتے ہیں؟ ہمیں جمہوریت اور جمہوریہ سے عناد کب پیدا ہوا؟ ایسے سوالات وسیع تر قومی مفاد کے منافی ہیں۔

ہمیں 23 مارچ کو یوم پاکستان مناتے ہوئے غور کرنا چاہیے کہ اسلامیان ہند نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اس قطعہ ارضی پر یہ مملکت کیوں قائم کی جسے پاکستان کہتے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، قائد اعظم، ان کے عظیم رفقا اور کروڑوں اسلامیان ہیںد کے پیش نظر درج ذیل بیس مقاصد تھے جن کی تکمیل کے لئے دنیا کے نقشے پر یہ عظیم  مملکت قائم کی گئی:

  1. تین جون کو تقسیم ہند کا منصوبہ تسلیم کرنے کا اعلان کرتے وقت قائد اعظم کے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو وطن کی آزادی کے لئے لاکھوں جانوں کی قربانی دینے کا موقع نصیب ہو سکے۔
  2. مشرقی پنجاب، مغربی بنگال، یوپی اور سی پی کے مسلمانوں کو تبادلہ آبادی کے ذریعے نئے ملک میں آباد کیا جا سکے جہاں مہاجروں کی آباد کاری کے لئے کورنگی کا عظیم تعمیراتی منصوبہ شروع کیا جائے۔
  3. پاکستان قائم ہونے کے بعد حضرت قائد اعظم زیارت کے پرفضا مقام پر زندگی کے آخری ایام آرام و سکون سے گزار سکیں
  4. پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد منظور کی جا سکے
  5. ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا جا سکے
  6. لیاقت علی خان، ناظم الدین اور عبدالرب نشتر جیسے نااہل، بدعنوان اور مفاد پرست رہنماؤں کی بجائے غلام محمد، اسکندر مرزا، اور چوہدری محمد علی جیسے تجربہ کار، دیانتدار اور اعلیٰ انتظامی اہلیت رکھنے والے افراد ملک کی باگ ڈور سنبھال سکیں
  7. دنیا بھر کے ماہرین آئین اور قانون دانوں کو نظریہ ضرورت کی حقیقی افادیت سے روشناس کرایا جا سکے۔
  8. جمہوریت کے مغربی اور ناقابل عمل نظام کو بنیادی جمہوریتوں کے تاریخ ساز تصور سے متعارف کرایا جا سکے۔
  9. مشرقی پاکستان کے رہنے والوں کو پیرٹی (Parity)، قومی یک جہتی اور وطن دوستی کا سبق پڑھایا جا سکے۔
  10. مغربی پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو ون یونٹ سے ثمرات سے فیض اٹھانے کا موقع مل سکے۔
  11. ہمسایہ ملک افغناستان کے پسماندہ عوام کو تزویراتی گہرائی کے عسکری، معاشی اور سیاسی مطالب سے روشناس کرایا جا سکے۔
  12. دنیا کی عسکری تاریخ میں کھیم کرن، چونڈہ، ہلواڑا، تھر راجھستان، کشتیا، چٹاگانگ، ڈھاکہ، سیاچین اور کارگل کے مقامات کو مناسب مقام مل سکے
  13. منتخب رہنماؤں کو گولی مارنے ، پھانسی دینے اور بم سے اڑانے کے لئے راولپنڈی شہر کی موزونیت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جا سکے۔
  14. علم سیاسیات کے فرسودہ نصاب میں، ریاستی نظریہ، سرکاری مذہب، جہاد فی سبیل للہ، کلیدی عہدہ اور تکفیر جیسے تصورات کو شامل کیا جا سکے۔
  15. قائد اعظم اور علامہ اقبال کے مزارات پر پورے اعزاز کے ساتھ گارڈ کی تبدیلی کی رسم ادا کی جا سکے
  16. واہگہ اٹاری بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب پورے تزک و احتشام کے ساتھ ادا کی جا سکے۔
  17. فرزندان توحید عید الضحیٰ پر قربانی کی کھالیں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں، فرقہ پرست جماعتوں، مذہبی مدارس اور فلاحی اداروں کو عطیہ کر سکیں۔
  18. ملک خدا بخش بچہ سرکاری ریڈیو پر، الطاف حسین ٹیلی فون پر اور چوہدری نثار علی خان نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر قوم سے خطاب کر سکیں۔
  19. اوریا مقبول جان، عامر لیاقت حسین اور زید حامد جیسے ذہین و فطین علما قوم میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جمہوری شعور بیدار کر سکیں
  20. 23 مارچ کے دن قومی تعطیل منائی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).