کوہاٹ ٹنل پر ہماری غلطی کب معاف ہوگی


(اے وسیم خٹک)۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی پاک جاپان دوستی ٹنل بنا نہیں تھا اس وقت جب پشاور آنا ہوتا تو ہمیں کوتل کی پہاڑی سے جانا پڑتا جس پر سفر کرنا جان کو جوکھوں میں ڈالنے سے کم نہیں تھا اور سفر بھی ایک اذیت ہوتی تھی۔ صبح کیا ہوا ناشتہ کوتل کی پہاڑی پر چڑھتے ہی منہ کوآجاتا اور یہ ہر ہفتے کے دن ہوتا تھا کیونکہ ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی ہفتے کو ڈیوٹیوں پر جانا ہوتا تھا۔

پھر سنا کہ جاپان کی مدد سے کوہاٹ ٹنل بن رہی ہے جس سے سفر کم ہوجائے گا اور لوگوں کو آسانی ہوجائے گی، ہم بہت خوش تھے کیونکہ اس پہاڑی کی وجہ ہر مہینے حادثے کے باعث معصوم جانوں کا ضیاع ہوتا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب ٹنل پر کام شروع ہوا اور اتنی سرعت سے کام جاری رہا کہ لوگ پکنک کے لئے آنے لگے پھر ایک دن ہم کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ہم نے کوہاٹ ٹنل کو کراس کیا، سفر کافی کم ہوگیا تھا۔ جو پہلے ساڑھے تین گھنٹے گھر سے پشاور تک لگتے تھے وہ گھٹ کر دو گھنٹوں سے بھی کم پر ہوگیا۔

اس ٹنل کے باعث جنوبی اضلاع کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا، اب رات پشاور میں گزارنے کی ضرور نہیں رہی تھی، مگر پھر جب پرائی جنگ میں ہم کود گئے تو یہ راستہ کٹھن ہوگیا۔ جگہ جگہ ناکے لگ گئے، پشاور میں دھماکے، کوہاٹ میں دھماکے، میران شاہ بنوں میں دھماکے، درہ آدم خیل میں دھماکے الغرض پورا صوبہ دھماکوں کی زد میں رہا اور کوہاٹ ٹنل میں بھی دھماکہ ہوگیا، جس کے بعد اس ٹنل کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا گیا بلکہ جنوبی اضلاع کا رابطہ پشاور سے کٹ کر رہ گیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ رمضان کے مہینے میں اس سڑک کو بند کردیا گیا تھا تو متبادل روٹ کا استعمال شروع کیا گیا جس پر سفر پندرہ سے بیس گھنٹوں پر محیط کردیا گیا اور جب کھولا گیا تو رات کو اس ٹنل پر آمدورفت معطل کردی گئی۔ گاڑیوں کو شام سے پہلے ہی بند کردیا جاتا، جس سے بہت سے مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پھر وقت نے دیکھا کہ سڑک تو امدورفت کے لئے کھول دی گئی مگر ساتھ میں سیکورٹی فورسز کو کنٹرول دیا گیا، تب سے جگہ جگہ پر آرمی کے چیک پوسٹ قائم کیے گئے ہیں جو ہر آنے اور جانے والے مسافر اور مسافر گاڑیوں کی تلاشی لینے میں مصروف ہیں اور کئی جگہوں پر جنوبی اضلاع کے عوام کی تضحیک کی جارہی ہے جن کو شناختی کارڈ دکھاؤ، تلاشی دو، کہاں سے آرہے ہو، کیا کام کرتے ہو، کیا مقصد ہے پشاور جانے کا، اور بہت سے سوالات کی بوچھاڑ ہوتی ہے، اور یہ ایک جگہ پر نہیں پشاور سے نکلتے ہی آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کسی اور ملک سفر کررہے ہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ ایک دن ہمیں ساتھ میں پاسپورٹ بھی ساتھ میں لے جانا پڑے گا۔

بہت سے واقعات میں عوام کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، مگر کوئی سننے والا نہیں، ان کے خلاف کوئی قانون کوئی عدالت کچھ نہیں کرسکتی، سیکورٹی فورسز ہماری حفاظت کے لئے مامور ہیں مگر بے عزتی کے لئے نہیں، جہاں بیٹے کے سامنے باپ سے شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے، بیوی کے سامنے خاوند سے سوالات کیے جاتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ شاید اس کا خادند ہی عسکریت پسند ہے، کوہاٹ جاتے ہوئے راستے میں کچے راستے بنائے گئے ہیں جس پر گاڑیوں کو ڈالا جاتا ہے، جس کے باعث مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، کیونکہ وہ راستے کسی بھی طور سفر کے قابل نہیں جس پر گاڑیوں کو متبادل راستہ دیا گیا ہے۔

آپریشن ضرب عضب ہوگیا اور اپریشن رد الفساد بھی جاری و ساری ہے اور کہا جاتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی کمر توڑدی گئی ہے مگر جنوبی اضلاع جانے والے باشندوں کی غلطی معاف نہیں ہورہی۔ دو گھنٹے کا سفر چار گھنٹوں پر محیط ہو گیا ہے۔ اس سے بہتر نہیں ہے کہ ٹنل کو بند کرکے دوبارہ کوتل کی پہاڑی کو کھولا جائے جس سے تھوڑا تو سفر کم ہو گا، اور عوام کو شناختی کارڈ دکھاؤ جیسے گردانوں سے نجات مل جائے گی کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ آنے والے برسوں میں یہ چیک پوسٹ ختم ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).