آج ذرا دل پر ہاتھ رکھ کے خود سے پوچھیں


آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟

یہ وہ بنیادی سوال ہے جو پچھلے پینسٹھ سال سے تیر کی طرح ہمارے پیچھے ہے اور ہم اس کا سامنا کرنے کے بجائے خود کو جواب سے بچانے کے لیے خطِ منحنی میں دائرے کی صورت بھاگ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہمیں جواب معلوم نہیں لیکن ہم اس کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے۔

اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اب اور کتنی تحقیق درکار ہے کہ محمد علی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ اگر ہم ان کے بیانات کو اپنے اپنے نظریے، پسند اور زاویے کی خوردبین کے نیچے علیحدہ علیحدہ رکھ کے دیکھنے کے مرض سے چھٹکارا پا کر جناح صاحب کی مجموعی زندگی، طرزِ سیاست، عقائد اور عمل کو ایک ہی فریم میں پینٹنگ کی طرح دیکھنے کے قابل خود کو بنا لیں تو پھر اس سوال کے جواب کو ہضم کرنا قدرے آسان ہوجائے گا کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ مگر اس سوال کے جواب تک پہنچنے کے لیے جو سیڑھی درکار ہے، اس پردرج ذیل سوالیہ پائیدانوں پر پاؤں رکھے بغیر نہیں چڑھا جاسکتا۔

( اول ) کیا محمد علی جناح نے ایسا پاکستان چاہا تھا جو جدید دنیا میں اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے دنیاوی ترقی کا ایسا نمونہ بنے جس کے اندر رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام کرتے ہوئے دوسرے کی ایمانی ملکیت پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں تاکہ ترقی اور یکجہتی کا عمل بلا رکاوٹ جاری رہے یا پھر جناح صاحب ایسا پاکستان چاہتے تھے جسے بنا کر وہ اور ان کے ساتھی خود کو اس عمارت سے بطور معمار علیحدہ کرلیں اور یہ ملک ایسے لوگوں کے انتظام میں دے دیں جو خود طے کریں کہ اس ریاست میں صرف ایک مذہبی نظریے، ایک فقہہ اور ایک ہی طرح کی سوچ رکھنے والے گروہ، تنظیم یا طبقے کی بالادستی ہو اور باقی تمام شہری اس گروہ، تنظیم یا طبقے کو صاحب الرائے سمجھ کر صرف ان کا اتباع کریں اور کوئی سوال نہ اٹھائیں۔ اور اس کے بدلے یہ صاحب الرائے گروہ، تنظیم یا طبقہ ضمانت دے کہ پاکستان اور اس میں بسنے والے لوگ دنیا میں بھی سرخرو ہوں گے اور آخرت میں بھی؟

( دوم ) کیا ہم واقعی جناح صاحب کے تصور کے تحت زندگی گذارنا چاہتے ہیں یا ایک مخصوص نظریاتی طبقے کو رہنما بنانا چاہتے ہیں یا پھر تھوڑا سا جناح اور تھوڑا سا غیر جناح لے کر ایک انوکھی نظریاتی کھچڑی پکانا چاہ رہے ہیں۔

( سوم ) کیا ہم جناح صاحب کا مغربی تصورِ جمہوریت سبز رنگ کے ساتھ پسند کرتے ہیں یا پھر ایک ایسا ڈنڈا بردار وردی پوش یا شیروانی پسند چاہتے ہیں جو معاشرے کو عین تیر کی طرح سیدھا رکھے، دائیں بائیں کچھ نہ دیکھے اور اس کی نظر میں جو بھی اس ملک کے لیے بہترین ہے وہ کرتا چلا جائے اور جو چیخے وہ غدار، ملعون، قابلِ گردن زدنی کہلائے۔ یا ہم کوئی ایسا نظریاتی گروہ حکمران دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمارے بیڈ روم اور کھانے پینے سے لے کر تعلیم و صحت و خیالات کی تطہیر کا ایسا نظام بنادے جس میں ہم اس کی آنکھ سے دیکھیں، اس کے دماغ سے سوچیں اور اس کی اجازت سے قدم اٹھائیں۔

( چہارم ) ہمیں اس کا بھی جواب سوچنا ہوگا کہ دنیا خدا کی بنائی ہوئی ایک خوبصورت شے ہے جسے اگر مزید خوبصورت بنانا ہمارے بس میں نہیں تو کم ازکم بدصورت بنانے سے ہی اجتناب کیا جائے۔ یا پھر ہم یہ طے کرلیں کہ دنیا کائنات کے صحرا میں ایک عارضی نخلستان ہے جو صرف اس لیے ہے کہ یہاں گھڑی دو گھڑی دم لے کر آگے چلا جائے۔ اور اس پڑاؤ کو چھوڑنے سے پہلے اسے کھانا پکانے کے لیے استعمال شدہ ادھ جلی لکڑیوں، سفری جانوروں کی لید اور استعمال شدہ اشیا کے کچرے سے صاف کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ ہم سے پیچھے آنے والا قافلہ خود ہی اس جگہ کی صفائی کرلے گا یا پھر ہم اسی پڑاؤ کو زیادہ بہتر حالت میں چھوڑ کر اگلی منزل کے لیے رختِ سفر باندھیں۔

( پنجم ) ہم میں سے ہر ایک یہ جملہ کسی نہ کسی انداز میں پسند کرتا ہے کہ ’’ جیو اور جینے دو ’’۔ کیا ہم واقعی جانتے ہیں کہ اس جملے کا مطلب دراصل ہے کیا؟ یا ہمارے نزدیک اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ تم جیو یا نہ جیو لیکن ہمیں جینے دو۔

( ششم ) کیا ہمیں اس مختصر زندگی میں اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنے کی فکر کرنی چاہیے یا دوسروں کی دنیا اور عاقبت کے تصور کو اپنے تئیں درست کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ کیا اس میں یہ خطرہ تو نہیں کہ آپ دوسروں کو اپنی طرح پاک باز بنانے کی کوششوں میں اتنے دور نکل جائیں کہ اپنی دنیا اور عاقبت بھی پیچھے رہ جائے۔

ویسے ایک بات تو بتائیے؟ ہم میں سے کتنے ہیں جو روزانہ کسی اجنبی کو اپنے کھانے پینے میں شریک کرتے ہیں۔ اور اس کے غم اور خوشیاں بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اپنی دنیا اور عاقبت کے تصور میں اسے شریک کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں جسے آپ اچھی طرح جانتے تک نہیں؟؟ کیا وہ آپ سے بھی زیادہ اس ثواب کا مستحق ہے یا پھر وہ اتنا گدھا ہے کہ اسے اپنے اچھے برے کی کوئی تمیز نہیں لہذا آپ کا فرض ہے کہ وہ چاہے یا نہ چاہے اسے گھسیٹتے ہوئے اس جانب لے جائیں جسے آپ درست جانتے ہیں۔

( ہفتم ) کیا سوائے اپنے دفاع کے کسی پر ہاتھ اٹھانا یا کسی کو قتل کرنا درست ہے، بھلے اس کا نظریہ اور سوچ آپ کے نظریے اور سوچ سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو۔ اگر یہ عمل جائز ہے تو پھر قیامِ پاکستان کے دوران جتنے بھی مسلمان غیر مسلموں نے اور جتنے بھی غیر مسلموں کو مسلمانوں نے قتل کیا وہ کیسے ناجائز ہے؟؟

جب آپ تنہائی میں دل پر ہاتھ رکھ کے آنکھیں بند کرکے ان سوالات کے جوابات سوچ لیں گے اور پھر یہ طے کرلیں گے کہ ہم کس طرف ہیں تو اس بنیادی سوال کا انفرادی و اجتماعی جواب بھی آسانی سے مل جائے گا کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں۔

اگر آپ ان سوالات کا سامنا کرنے اور ان کا جواب اپنے اندر سے تلاش کرنے سے خوفزدہ ہیں تو پھر جہاں رہیں خوش رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).