لوٹ مار کریں مگر ذہانت سے


جب انیسویں صدی میں زار کی فوجوں نے بخارا پر قبضے کے بعد نمنگان کا محاصرہ کرلیا تو امیرِ نمنگان سے مذاکرات شروع ہوئے۔ روسی جنرل نے پیش کش کی کہ اگر آپ الحاق پر رضامند ہوجائیں تو سرکارِ ماسکو آپ کی املاک بشمول زرعی رقبہ آپ کی ملکیت میں برقرار رکھے گی اور پینتالیس ہزار روبل سالانہ الاؤنس بھی مرحمت ہوگا۔ معاہدے کو تحریری شکل دی گئی لیکن امیرِ بخارا نے الاؤنس کی رقم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پینتالیس ہزار روبل بہت کم ہے، اس میں ہمارا اور ہمارے کنبے کا گزارہ مشکل سے ہوگا لہذا رقم بڑھائی جائے۔ روسی جنرل نے کہا کہ آپ جو بھی تجویز فرمائیں ہمیں منظور ہوگا۔ ایک معتمد نے امیر کے کان میں کچھ کہنے کی کوشش کی مگر امیر نے معتمد کو جھٹکتے ہوئے با آوازِ بلند کہا کہ ہمیں پانچ ہزار روبل سالانہ الاؤنس سے کم پر سمجھوتہ منظور نہیں۔ روسی جنرل کا منہ کھلے کا کھلا رھ گیا اور پھر اس نے مسکراتے ہوئے سمجھوتے پر دستخط کردیے۔ پتہ یہ چلا کہ امیر صاحب کو پانچ سے اوپر گنتی نہیں آتی تھی۔

جب انگریزوں نے شمال مغربی سرحدی صوبے کے قبائلی علاقوں کو پرامن رکھنے کے لیے بیسویں صدی کے شروع میں مقامی ملکوں سے انفرادی سمجھوتے کرنے شروع کیے تو حسبِ مراتب کسی کو ایک، کسی کو دو، کسی کو پانچ، کسی کو دس روپے ماہانہ اعزازیہ دینا بھی منظور فرمایا اور ہر قبائلی ملک کے لیے نمک کے ڈلوں کی حسبِ مراتب مقدار بھی منظور فرمائی۔ یوں سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

جس زمانے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی کے خلاف تحریک عروج پر تھی تو میرے ایک سینئر ساتھی نے اسلام آباد ائیرپورٹ سے دفتر تک کے لیے ٹیکسی لی۔ دورانِ سفر ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ سرجی! چیف جسٹس کی بحالی کی مہم پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ میرے دوست نے پوچھا کہ کیا اندازہ ہے، اب تک کتنا پیسہ خرچ ہوا ہوگا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ پچھلے ایک مہینے میں کچھ نہیں کچھ نہیں تو کم ازکم آٹھ سے نو لاکھ روپیہ ضرور لگ گیا ہوگا۔

فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست کا محاورہ یونہی وجود میں نہیں آیا۔ جب پانچویں کلاس کے ٹیچر نے بچوں سے پوچھا کہ بڑا ہو کر کون کیا بننا چاہتا ہے تو میں نے کہا تھا کہ میں تو ریل کار کا ڈرائیور بنوں گا۔ ٹیچر نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا کہ ایک تو یہ کہ ریل کار دیکھنے میں بہت بھلی لگتی ہے، دوسرے یہ کہ اس کی سیٹیں بہت نرم ہوتی ہیں۔ تیسرے یہ کہ ریل کار کے ڈرائیور کو سیرسپاٹے کا بہت موقع ملتا ہے۔

جیسے میرے صحافی دوست اور اخباری چیف رپورٹر مرحوم یوسف خان نے بتایا تھا کہ ایک دن نیشنل پیپلز پارٹی کراچی کے ایک مقامی سیاسی رہنما کا فون آیا کہ یوسف بھائی ملک جل رہا ہے۔ لاقانونیت انتہا پر ہے۔ عام آدمی کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ مجھ جیسا آدمی کیا کرے۔ یوسف خان نے کہا کہ اگر میں بیک پیج پر آپ کا دو کالمی بیان چھاپ دوں تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔ سیاسی رہنما نے خوشی سے سرشار آواز میں کہا، بالکل ہو جائے گا۔ ۔ ۔

جیسے بابائے سوشلزم مرحوم شیخ محمد رشید سے کسی نے کہا تھا کہ بھٹو صاحب نے آپ کو پیپلز پارٹی کا محض نمائشی سینئر وائس چیرمین بنا کر وزارِت ِ صحت پر ٹرخا دیا ہے۔ مشورہ تو آپ کا بھٹو صاحب ایک بھی نہیں مانتے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ ’’ گل تیری مناسب اے، پر میری گڈی تے جھنڈاتینوں چنگا کیوں نئیں لگدا؟ ؟ ‘‘ (بات تیری مناسب ہے مگر میری گاڑی پر جھنڈا تجھے کیوں پسند نہیں )۔

جیسے چوہدری پرویز الہی کو کم ازکم یہ اطمینان تو ہے کہ بے اختیار ہی سہی نائب وزیرِ اعظم تو کہلاتے ہیں۔

جیسے طاہرِ القادری کے منہ سے نکل گیا تھا کہ کم ازکم عبوری وزارتِ عظمی پر ہی بات ٹل سکتی ہے۔

جیسے کوئٹہ کی ہزارہ قیادت کا خیال ہے کہ رئیسانی حکومت کی برطرفی، گورنر راج اور کوئٹہ میں فوج کی طلبی سے فرقہ وارانہ دہشت گردی تھم جائے گی اور حکومت نے فوراً یہ بات مان لی۔
بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انگریز کے زمانے سے جانتی ہے کہ یہاں کے لوگ زیادہ سے زیادہ کتنا آگے اور کتنا بڑا سوچ سکتے ہیں۔ لہذا اسے کسی بھی قابلِ ذکر شخص کو راضی کرنے اور خوش رکھنے میں کبھی کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کبھی وقتی طور پر پسپا ہوتی ہے یا نقصان اٹھاتی ہے تو لوگوں کی بے لگام خواہشات کے سبب نہیں بلکہ اپنی بے اعتدالیوں، بے وقوف چالاکیوں، تکبر اور بدانتظامی کے سبب اٹھاتی ہے۔

انگریز یہ بات شروع میں ہی سمجھ گیا تھا کہ اگر روزمرہ کے چھوٹے بڑے پھڈے میں بلا ضرورت ٹانگ نہ اڑائی جائے اور مقامی لوگوں کو جان و مال اور روزگار کے تحفظ کا تاثر بھی دے دیا جائے تو اکثریت اپنے حال میں مست ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد آپ وسائل کو جتنا لوٹیں کھسوٹیں، چند دانشوروں کو چھوڑ کے کسی کو کوئی خاص پروا نہیں ہوتی۔ مگر مشکل یہ ہے کہ انگریز کے بعد آنے والے حکمران لوٹ کھسوٹ بھی ذہانت سے نہ کرسکے اور انھوں نے لوٹ کے مال کی گٹھڑی بھی عام آدمی کے تن کی آخری چادر سے باندھنے کی کوشش کی اور بدنام ہوگئے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران جب ہندوستان میں عام بھرتی کی مہم شروع ہوئی تو تعلقہ داروں اور گاؤں کے سرپنچوں کو پابند کیا گیا کہ وہ جتنی تعداد میں تنومند جوان بھرتی کرائیں گے، اتنا ہی انعام و مراعات پائیں گے۔ ایک تعلقہ دار نے جب اپنی جاگیر میں بھرتی کی کوشش کی تو بہت کم جوان راضی ہوئے۔ اس نے رغبت بڑھانے کی خاطر اعلان کرادیا کہ جو بھی بھرتی ہوگا اسے میں ڈپٹی کمشنر صاحب سے کہہ کہ ڈائریکٹ لفٹین لگواؤں گا۔ چنانچہ جوانوں کا ہجوم اکھٹا ہوگیا اور تعلقہ دار اس ہجوم کی قیادت کرتا ہوا ڈی سی آفس تک پہنچا۔ ڈی سی سے ملاقات کے دوران تعلقہ دار نے کہا کہ میں بہت سے جوانوں کو ساتھ لایا ہوں مگر اس وعدے پر کہ آپ سب کو لفٹین کا عہدہ دیں گے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ فوجی قوانین کے مطابق یہ ممکن نہیں ہے۔ ہم انھیں زیادہ سے زیادہ سپاہی بھرتی کرسکتے ہیں۔ ان میں سے جو باصلاحیت ہوں گے وہ بعد میں صوبیدار کے عہدے تک بھی ترقی کرسکتے ہیں۔ یہ سن کر تعلقہ دار کو پسینہ آگیا مگر وہ خود پر قابو پا کر باہر آیا اور مسکراتے ہوئے جوانوں سے یوں خطاب کیا۔

’’ میرے بچو! آج تم نے میرا سر فخر سے بلند کردیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ہے کہ لفٹین تو بہت معمولی چیز ہوتی ہے۔ میں تو ان سب کو صوبے دار بناؤں گا۔ صوبے دار کا مطلب پتہ ہے؟ اس کا مطلب ہے پورے صوبے کا مالک۔ اور صوبے کا مالک تو کہیں بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ ہندوستان سے لے کر یورپ تک کہیں بھی۔ لیکن اس کے لیے شروع میں تمہیں سپاہی کی تربیت دی جائے گی تاکہ تم تربیت مکمل کرکے صوبے داری سنبھال سکو۔ صرف یہی نہیں بلکہ میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے یہ بھی منوا لیا ہے کہ ہمارے کڑیل جوانوں کا ایک ذاتی پیسہ بھی خرچ نہیں ہونا چاہیے۔ آنے جانے کا کرایہ، رہائش، خوراک، سواری، بیرونِ ملک جانے کا بھتہ، سالانہ چھٹی، کڑکڑاتی وردی اور چمکیلے بوٹ سمیت سب کچھ مہیا کرنا سرکار کی ذمے داری ہوگی۔ اور اگر سرکار نے ایسا نہیں کیا تو ہمارا ایک بھی جوان بھرتی نہیں ہوگا ‘‘۔

سب نے تالیاں بجائیں اور ہنستے گاتے ہوئے تعلقہ دار کو کندھے پر اٹھا کر ان کی رہائش گاہ تک لے آئے۔

عام آدمی کی تلخی کو آج بھی ذرا سا کھرچیں تو وہ اتنا ہی سادہ نکلے گا جتنا سو برس پہلے تھا۔ مگر کسی کو کھرچنے کا ڈھنگ بھی تو آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).