قومی مفاد کا آؤٹ شدہ پرچہ


لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کا قتل پرانے زمانے کی باتیں ہیں حالیہ برسوں میں جب بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا اس کے خراج کے طور پر پی پی پی کو حکومت ملی، پانچ سال پورے کرنے والی پہلی جمہوری حکومت، جس کا ہمیشہ سے رونا رویا جاتا ہے کہ انہیں حکومت نہیں کرنے دی جاتی، اس کہانی کو ایک اور تناظر میں دیکھتے ہیں ایک ریاست کے اندر کسی شخص کی شریک حیات کو قتل کیا جاتا ہے، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مقتولہ کا شوہر قتل کے کچھ عرصے بعد اسی ریاست کے سیاہ و سفید کا پانچ سال کے لئے مالک بن جاتا ہے اپنی شریک حیات کے قاتلوں کوڈھونڈنے کے بجائے بینک اکاؤنٹ بچانے اور بڑھانے میں مصروف رہتا ہے نہ بچے پوچھتے ہیں کہ ہماری ماں کے قاتلوں کا کیا بنا، نہ شریک اقتدار لوگ، اقتدار کے خاتمے کے بعد سب کو اپنی ماں اور اپنے لیڈرکے قاتلوں کا نہ پکڑنا جانا کھلنے لگتا ہے، وہ ان کی گرفتاری کے لئے ورد شروع کرتے ہیں، خلوتوں میں وہ ووٹ دینے والے روبوٹوں پر ہنس رہے ہوتے ہیں کہ یہ روبوٹ پھر سے انہیں ووٹ دیں گے انہیں اقتدار کی غلام گردشوں میں پھر سے پہنچا دیں گے اور توقع رکھیں گے کہ وہ ان کا ملک چلائیں گے، ملک میں بہتری لائیں گے، انصاف کا بول بالا کریں گے، کیا ہوش و حواس میں رہنے والے افراد کو بھی ایسا لگتا ہے کہ ایک ایسا بندہ جو اپنے خاندان کی حفاظت نہیں کرسکتا اپنی شریک حیات کو انصاف نہیں دلا سکتا اتنا پیارا ملک دوبارہ اس کے حوالے کرکے اس سے ملک چلانے اور انصاف دلانے کی توقع رکھنا کیا دیوانے کا خواب نہیں؟

دوسری کہانی سنو! چار سال سے لگاتار ایک بندہ ایک وعدہ دہراتا جارہا ہے کہ وہ جب اقتدار میں آئے گا تو زر بابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر گھسیٹے گا، ملکی دولت جو وہ اپنے اکاؤنٹ میں کرپشن کے ذریعے جمع کرچکے ہیں انکی انتڑیوں سے نکال کر ملکی خزانے میں جمع کرے گا، (حالانکہ اسی وقت عوام کو سمجھ جانا چاہئے تھا کہ جو پیسے دبئی میں جمع ہیں وہ انتڑیوں سے کیسے نکالے جاسکتے ہیں) ملک کے سمجھدار عوام سمجھ جاتے ہیں کہ اب یہ کام کا بندہ آگیا اسی کو ووٹ دے کر اپنی دولت واپس حاصل کریں گے، حالانکہ ان سمجھدار عوام کو پتا بھی ہے کہ 30 سال سے یہی بندہ پنجاب میں برسراقتدار ہے پنجاب میں انہوں نے کونسے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں جواسلام آباد پہنچ کر بہائے گا، خیر ان کو ووٹ پڑتا ہے۔ مسند اقتدار پر بیٹھنے کی افتتاحی تقریب میں زر بابا اور چالیس چور شامل ہوتے ہیں ان کی انتڑیوں سے ملکی خزانے کا پیسہ نکال کر جمع کرنے کا وعدہ کرنے والا بندہ پہلے دن ہی انہیں اپنا بڑا بھائی قرار دیتا ہے، ڈھٹائی کی حد دیکھیں اسی میڈیا، انہی عوام کے سامنے، جن سے وہ وعدہ کرچکا ہوتا ہے کہ ان کا پیسہ واپس کرے گا۔

ان دونوں افراد نے وزیر داخلہ کی آسامی پر دو افراد کو اپائنٹ کیا، گزشتہ والا وزیر داخلہ پانچ سال کاغذات کا پلندہ لہرا لہرا کر یہ یقین دلاتا رہا کہ بس کچھ ہی لمحوں اور دنوں کی بات ہے جب وہ اپنے باس کے کہنے پر (ملکی قوانین کے تحت نہیں) دونوں بھائیوں کو ہمیشہ کے لئے اندر کردے گا اور ان لہراتے ہوئے کاغذات میں ایسے ثبوت ہیں کہ کوئی مائی کا لعل ان دونوں کو قانون کی گرفت سے بچا نہیں سکتا، کئی ایسے دن بھی گزرے ہیں کہ ہم اسی خوش فہمی میں سوئے ہی نہیں کہ آج وہ دونوں اندر ہوں گے، مگر پانچ سال کے بعد ان کے باس یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ اگلے پانچ سال آپ کے، ہم کچھ نہیں کہیں گے، آپ کو لگے گا ہی نہیں کہ ملک میں کوئی اپوزیشن بھی ہے۔

اب گھیسٹنے والوں کے وزیر داخلہ کی باری چل رہی ہے، وہی پیپر چار سال سے لہرا لہرا کر ہمارا خون جلا رہے ہیں، ہمیں تو شک ہے کہ یہ وہی پرانے والے پیپر ہی ہیں کیونکہ ان کا رنگ تک ازبر ہوچکا ہے ہمیں، مگر یہ کمال کے وزیر داخلہ ہیں اتنا یقین دلاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ پریس کانفرنس سے پہلے آرڈر پاس کرکے پولیس پارٹی ان ملزموں کی گرفتاری کے لئے روانہ کرکے آچکے ہیں، ان کو خودکش حملوں کے ہر کردار کا پتہ ہوتا ہے مگر کوئی گرفتار نہیں ہوتا، ڈان لیکس رپورٹ پیش کرنے کے اب تک کوئی 10 دفعہ تاریخیں دے چکے ہیں، پانامہ کے علاوہ ان کو سب کچھ پتا ہے۔

توجناب! پرچہ آپ نے آؤٹ کردیا ہے، آؤٹ شدہ قومی مفاد کے پرچے کے مطابق آپ دونوں ہی رہبری کا حق نہیں رکھتے، کیوں؟ کیوں کہ آپ دونوں کے پاس ایک دوسرے کے ثابت شدہ جرائم کی پوری پوری کتابیں موجود ہیں، مگر ایک دوسرے کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں، آوٹ شدہ پرچہ یہ بتا رہا ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر اب تک قومی مفاد کا کوئی پرچہ بنا ہی نہیں، یہ سب ذاتی مفادات کے پرچے ہیں جو عوام کو قومی مفاد کا پرچہ کہہ کر بیچا گیا، آپ دونوں کے پاس جو ثبوت موجود ہیں ایک دوسرے کے جرائم کا، اگر ان جرائم کے پیش نظر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو کس کو زیادہ خطرہ لاحق ہوگا، قومی مفادات کو، جمہوریت کو یا پھر آپ کے ’’ذاتی مفادات‘‘ کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).