جمعیت کا خیر اس کے شر سے ایک رتی بڑھ کر ہی ہے


یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ جیسی خیر کی ضامن تنظیم کا وجود اس کے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا ہے۔ لیکن جس طرح اب اچانک الیکٹرانک میڈیا نے بھی یکطرفہ رپورٹنگ کر کے سارا الزام جمعیت پر دھر دیا ہے وہ نہایت تشویشناک بات ہے۔

چلیں الیکٹرانک میڈیا تو ریٹنگ کا بھوکا ہے مگر ستم بالائے ستم یہ کہ اگلے دن اس واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے جماعت اسلامی اور جمعیت کے لئے گوشہ ہمدردی رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد عملے میں ہونے کے باوجود روزنامہ دنیا نے اس خبر کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ پختون طلبہ کا پروگرام فیصل آڈیٹوریم میں یونیورسٹی کی اجازت سے ہو رہا تھا اور اس کا افتتاح پنجاب ہائر ایجوکیشن کے وزیر اور وائس چانسلر نے کیا تھا جبکہ باہر راہداری میں جمعیت نے بلا اجازت اپنا پروگرام شروع کر دیا۔ دونوں پروگرامز میں سپیکر کی آواز بلند تھی۔ پشتون طلبہ نے اپنا کلچر ڈانس شروع کیا تو اسلامی جمعیت طلبہ نے منع کیا اور پھر جمعیت کے کارکنوں نے ہلہ بول دیا۔

میڈیا کو ایسا رویہ اختیار کرنے پر شرم کرنی چاہیے۔ اسے سوچنا چاہیے کہ اس کے ایسے رویے کی بنا پر خدانخواستہ اگر اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی لگ گئی تو کیا ہو گا؟

جمعیت کا پنجاب یونیورسٹی سے صفایا ہوتے ہی یہاں اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا۔ ہر روز طالبات اغوا ہونے لگیں گی۔ جگہ جگہ جوڑے دکھائی دیا کریں گے۔ اساتذہ بھی طالبات کو بلیک میل کرنے لگیں گے اور راہ راست سے ہٹ جائیں گے۔ قومی دنوں کے پروگراموں کی بجائے کلچرل شو ہونے لگیں گے۔ بک فئیر بھی نہیں ہوا کریں گے۔ ادھر غنڈہ گردی، بھتہ خوری، قبضہ گروپ، طالبات کے ساتھ زیادتی، شراب خوری، چرس نوشی، غیر شرعی جنسی تعلقات وغیرہ معمول ہوں گے۔

جب تک جمعیت کے ہونے یا نہ ہونے کے اثرات پر آپ کو ایک زندہ مثال نہ دی جائے اس وقت تک آپ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی۔

پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس سے چند کلومیٹر دور نہر پر ہی ایف سی کالج یونیورسٹی کو دیکھ لیں۔ یہ ادارہ 1864 میں ایک امریکی مسیحی مشنری ڈاکٹر چارلس ولیم فارمن نے قائم کیا تھا۔ بھٹو نے اسے 1972 میں قومیا لیا۔ جب جنرل ضیا الحق کا زریں دور آیا تو اس کے بعد سے وہاں سے کفار کی طلبہ تنظیموں کے خلاف اسلامی جمعیت نے جہاد کیا اور ان کا تقریباً صفایا کر دیا اور یوں بوقت ضرورت دونوں ادارے ایک دوسرے کو نیک مقاص کے لئے کمک فراہم کرنے لگے۔ اس وقت بھی ایف سی کالج میں طالبات ہوا کرتی تھیں مگر صرف ماسٹرز کے درجات میں۔

بدقسمتی سے جنرل ضیا الحق جیسے عظیم مرد حق سے بھی غلطی ہوئی اور انہوں نے طلبہ یونینوں پر 1984 میں پابندی عائد کر دی۔ لیکن خوش قسمتی سے جمعیت وہاں موجود رہی جبکہ کفار کی طلبہ تنظیموں کو نہ جانے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا یا جنرل ضیا کی پولیس پکڑ کر لے گئی۔ اس کے بعد جمعیت کا وہ سنہری دور شروع ہوا جس میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگے۔ جو بکری ایسا کرنے سے انکار کرتی تھی وہ اتنی زیادہ شرمندہ ہوتی کہ دوبارہ اس گھاٹ پر دکھائی نہ دیتی۔

سنہ 2003 میں گمراہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ایف سی کالج کو واپس امریکی مشنری چرچ کے حوالے کر دیا جو کہ اس کا حقیقی مالک تھا۔ اس کے بعد جمعیت وہاں دکھائی نہیں دی۔ اس کالج کا اب ایسا حال ہے کہ آپ یقین نہیں کریں گے۔ وہاں طلبہ آپ کو کسی خوف سے بے نیاز ہو کر گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ طلبا و طالبات جوڑوں کی شکل میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ حتی کہ ایسے غیر ملکی سفید فام اساتذہ بھی وہاں آ کر قوم کے معصوم بچوں کو پڑھانے لگے ہیں جن کو نہ تو نظریہ پاکستان کا علم ہے، نہ طلبہ میں جہاد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے اہل ہیں اور نہ ہی ملک کی نظریاتی بنیادوں سے ان کو دلچسپی ہے۔ بلکہ الٹا وہ تو معصوم طلبہ کے نظریات تباہ کرتے ہیں اور ان کو خود سے اپنا ذہن استعمال کر کے منطقی انداز میں سوچنا سمجھنا سکھاتے ہیں اور صرف دنیاوی علم دیتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ جو طلبہ و طالبات امریکی یونیورسٹیوں میں وظائف وغیرہ لینا چاہتے ہیں، ان کی راہنمائی کے لئے بھی اسی ایف سی کالج میں امریکیوں نے مرکز قائم کر رکھا ہے۔ اس طرح ملک بھر کے ذہین طلبہ و طالبات کو ایک سازش کے تحت امریکہ لے جایا جاتا ہے۔

لیکن سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ نو برس پہلے کی اطلاع کے مطابق یہ مشنری چرچ اپنے طلبہ کو ایک ملین ڈالر، یعنی دس کروڑ روپے سے زیادہ کے وظائف دے رہا تھا۔ اب نو برس بعد اس کی ویب سائٹ پر دعوی ہے کہ صرف سوا سات کروڑ کے وظیفے دے رہے ہیں۔ کالج میں 15 فیصد کے قریب مسیحی طلبہ بھی پڑھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے سرکاری اشتہارات سے یہ بات واضح ہے کہ اقلیتی طلبہ کو اس طرح کی کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جن ملازمتوں کا کوٹہ مختص کر دیا گیا ہے ان کے لئے تو تعلیم کی سرے سے ہی ضرورت نہیں ہوا کرتی ہے۔ یہ پہلو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اگر ہمارے مسلمان طلبہ ان سے گھل مل کر اگر غیر مسلم اقلیتوں کو بھی انسان سمجھنے لگے تو کیا ہو گا؟ اسی طرح اس کالج کا نصاب اور تعلیمی معیار بھی ایک اچھے امریکی تعلیمی ادارے کے طور پر مرتب کیے جانے کی اطلاعات ہیں جو کہ ہمارے باحمیت نوجوانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔

بہرحال حاصل کلام یہ ہے کہ ان ساری حماقتوں کے سبب ایف سی کالج طلبہ کی کردار سازی کرنے والے ایک بہترین نظریاتی ادارے کی بجائے ایک بہترین تعلیمی ادارہ بن گیا ہے جس کی جتنی مذمت بھی کی جائے اتنی کم ہے۔ اگر وہاں اسلامی جمعیت طلبہ جیسی باحمیت تنظیم کا وجود باقی رہتا تو ایسی حرکات کرنے کی نہ تو انتظامیہ کو جرات ہوتی اور نہ ہی طلبہ کو۔

اب ایک طرف تو یہ چند بڑے سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں جمعیت کی وجہ سے سکھ چین کا راج ہے اور طلبہ کی ہر ممکنہ طریقے سے کردار سازی پر زور دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ خوشحال گھرانوں کے طلبہ ان نجی اور نیم سرکاری یونیورسٹیوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں جمعیت جیسی کردار ساز تنظیمیں موجود نہیں ہیں۔ اب ان اداروں کا حال آپ کے سامنے ہے۔ خوشحال گھرانوں کے ان طلبہ و طالبات کی اخلاقی حالت تباہ ہو چکی ہے۔ ان نجی اداروں کے طلبہ ویسی زندگی بسر کرتے ہیں جیسی پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات 1882 سے لے کر 1977 تک بسر کرتے رہے تھے۔ یعنی ادھر غنڈہ گردی، بھتہ خوری، قبضہ گروپ، طالبات کے ساتھ زیادتی، شراب خوری، چرس نوشی، غیر شرعی جنسی تعلقات وغیرہ سب کچھ ہو رہا ہے اور پڑھانی نہیں ہو رہی ہے۔ اگر تعلیمی اداروں میں جمعیت نہ ہو تو ظلم کی ایسی اندھیر نگری ہی ہو گی۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ بمشکل ملک کے ایک دو فیصد اعلی تعلیمی اداروں میں ہی طلبہ کی کردار سازی ہو رہی ہے، بقیہ ننانوے فیصد اداروں میں جہاں جمعیت کا وجود نہیں ہے، طلبہ بگڑ چکے ہیں۔ وہاں غنڈہ گردی، بھتہ خوری، قبضہ گروپ، طالبات کے ساتھ زیادتی، شراب خوری، چرس نوشی، غیر شرعی جنسی تعلقات وغیرہ معمول ہیں۔ اب جمعیت کے مخالفین یہ الزام لگائیں گے کہ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے سابقہ اور حالیہ اراکین کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں جمعیت کا وجود کیوں نہیں ہے؟ صالحین کے ان اداروں میں جمعیت کے نہ ہونے کی کی وجہ بہت سادہ سی ہے اور معمولی سا غور و فکر کر کے ہر ذی شعور اور صالح شخص سمجھ سکتا ہے۔ آپ میں اگر ایمان کی ذرہ برابر بھی رمق باقی ہے تو آپ کو یہ وجہ خود ہی سمجھنی ہو گی۔

بہرحال اب تک یہ بات تو آپ اب تک سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ خواہ کوئی تعلیمی ادارہ بھی ہو، اگر وہاں اسلامی جمعیت طلبہ نہیں ہوتی ہے وہاں ہر روز طالبات اغوا ہوتی ہیں، جگہ جگہ جوڑے دکھائی دیتے ہیں، اساتذہ بھی طالبات کو بلیک میل کرتے ہیں اور راہ راست سے ہٹ چکے ہیں۔ اس لئے میڈیا اور جمعیت کے دیگر ناقدین ہوش کے ناخن لیں۔ جمعیت کا خیر اس کے شر سے ایک رتی بڑھ کر ہی ہے۔ اسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جمعیت کا خیر کتنا بڑا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar