توہین مذہب کو کیسے روکا جائے؟


وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے 22 اسلامی ملکوں کے سفیروں کے ایک اجلاس کی صدارت کی ہے۔ اجلاس میں سوشل میڈیا پو توہین مذہب پر مشتمل مواد کے خلاف مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ تمام سفیروں نے اتفاق کیا ہے کہ اسلام ، پیغمبر اسلام اور اکابرین کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب پاکستان کی وزارت خارجہ اس حوالے سے ایک دستاویز تیار کرے گی۔ اس کے بعد تمام ملکوں کے کے سفیر اپنی حکومتوں سے ان نکات پر مشاورت کریں گے۔ پاکستانی وزارت داخلہ کی خواہش ہے کہ تمام اسلامی ملک مل کر توہین مذہب پر مشتمل مواد کے خلاف جدوجہد کریں ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس وقت دہشت گردی کا نشانہ بھی مسلمان ہی بن رہے ہیں اور انہیں پر اس حوالے سے الزام تراشی بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ابھرنے والی رائے کے خلاف کام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وزارت داخلہ کا یہ اقدام اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پر اسلام دشمن مواد کی اشاعت کے حوالے سے ایک مقدمہ کی سماعت کے بعد سامنے آیا ہے۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی انتہائی جذباتی انداز میں اس مقدمہ کی سماعت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مشتمل مواد کی روک تھام نہ کرسکی تو وہ ملک میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کا حکم دے دیں گے۔

دنیا بھر میں مذہب کے نام پر شروع ہونے والی دہشت گردی کے بعد سے اسلام اور مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی مواد کی اشاعت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مغربی ممالک میں پاپولسٹ تحریکیں اب کامیاب سیاسی پارٹیوں کی صورت اختیار کر رہی ہیں اور لوگوں کی توجہ اور ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ ان ملکوں کی روایتی اور مسلمہ سیاسی پارٹیاں مقبولیت حاصل کرنے کے ان سطحی اور انسانیت دشمن ہتھکنڈوں کی روک تھام کی کوشش ضرور کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مقبول ووٹر کر متاثر کرنے کےلئے مسلمان آبادیوں کے خلاف اقدامات کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اس طرح ایک طرف یورپ اور امریکہ میں آباد مسلمانوں کو نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف میڈیا مباحث میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں لب و لہجہ تلخ اور بعض اوقات توہین آمیز ہوتا ہے۔ اس رجحان کے خلاف جب بھی آواز بلند ہوتی ہے اور سیاسی رویہ اور سماجی برتاؤ کے ذریعے متعصبانہ اور نفرت انگیز ماحول پیدا کرنے کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کسی نہ کسی ملک میں کوئی نہ کوئی ایسا افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے جو ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر ایک مسلمان دہشت گرد کی کارروائی میں چار افراد کی ہلاکت ایسا ہی المناک واقعہ ہے۔ 52 سالہ دہشت گرد برطانیہ میں ہی پیدا ہوا اور اس نے کچھ برس قبل اسلام قبول کیا تھا۔ تاہم جس طرح سے اس نے اپنی گاڑی سے راہ گیروں کو کچل کر ہلاک و زخمی کیا اور پھر ایک پولیس افسر پر چاقو سے حملہ کیا ۔۔۔۔۔۔ اس سے مسلمانوں کے بارے میں خوف اور نفرت کی کیفیت پیدا ہونا لازمی ہے۔

یہ بھی اس تکلیف دہ صورتحال کا ہی ایک پہلو ہے کہ 2001 میں امریکہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد سے امریکی اور اتحادی کارروائیوں کے علاوہ مسلمان دہشت گرد گروہوں کے حملوں میں زیادہ تر مسلمان ہی نشانہ بنے ہیں۔ لیکن جب بھی دہشت گردی سے نمٹنے اور اس کے منفی اثرات کی بات کی جاتی ہے تو ان چند سانحات کا ذکر پہلے آتا ہے جو مغربی ممالک میں رونما ہوئے۔ اس طرح مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال فطری طور پر سامنے آتا ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ بھی وہی بنتے ہیں اور انہیں پر اس حوالے سے الزام تراشی بھی ہوتی ہے۔ اسی کا اظہار آج وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلامی ملکوں کے سفیروں کے اجلاس میں بھی کیا ہے۔ مسلمان اور ان کے لیڈر یہ سوال تو ضرور کرتے ہیں لیکن وہ اس کا جواب تلاش کرنے اور صورتحال کو خراب کرنے میں اپنے کردار کے حوالے سے بات کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ مسلمان ملکوں کے حکمران اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے اس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کا مظاہرہ مغربی ممالک میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہونے کے بعد ان ملکوں کے لیڈروں کی طرف سے دیکھنے میں آتا ہے۔

اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ سے لے کر داعش کے قیام اور پھر دولت اسلامیہ کے نام سے اسلامی خلافت کا اعلان کرنے والے گروہ کو ختم کرنے کی کارروائیوں تک کا واحد مقصد دہشت گردی کا خاتمہ نہیں تھا۔ اس جنگ میں سیاسی مقاصد بھی کارفرما رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت عراق پر امریکہ کا حملہ ہے جو اگرچہ اس الزام کی آڑ میں کیا گیا تھا کہ صدام حسین القاعدہ کی سرپرستی کر رہے ہیں اور ان کے پاس تباہ کن ہتھیار ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن بعد میں یہ دونوں الزامات غلط ثابت ہوئے۔ تاہم مسلمان ملک کسی طرح بھی امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کو اس کا احساس دلانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اس صورتحال میں ذاتی اقتدار کو وسعت دینے سے لے کر اپنے علاقائی یا مسلکی مفادات کا تحفظ کرنے کےلئے اقدامات کرنا ضروری سمجھا۔ اس طرح دہشت گردی کی وجوہ پر نہ تو ذمہ داری کا تعین ہو سکا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف مسلمان ملکوں میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کےلئے کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ پاکستان میں تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو طویل عرصہ تک امریکی جنگ قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے گریز کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ نواز شریف کی حکومت نے 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور انہیں سیاسی مراعات دینے کی کوشش بھی کی تھی۔ اس پالیسی کو پاکستان کی بیشتر سیاسی پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تاہم کراچی ائر پورٹ اور پھر پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملوں کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے کا عزم کیا تھا۔ یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ دہشت گرد گروہ نہ پاکستان کے دوست ہیں اور نہ مسلمانوں کے ہمدرد و خیر خواہ، پاکستان نے افغان طالبان کے حوالے سے حکمت عملی کو پوری طرح تبدیل نہیں کیا جس کی وجہ سے دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات بدستور متاثر ہو رہے ہیں۔

اس کے برعکس مغربی ممالک میں دہشت گردوں کے حوالے سے رائے عامہ متفق ہے۔ وہ ہر قیمت پر تشدد کے ذریعے سیاسی پیغام عام کرنے کے طریقہ کا خاتمہ چاہتی ہے۔ پاکستان سمیت مسلمان ملکوں میں یہ صورتحال موجود نہیں۔ دہشت گردی کو غیر اسلامی قرار دینے کے باوجود مذہبی لیڈروں یا حکومتوں کی طرف سے ہتھیار اٹھانے والے گروہوں کو مسترد کرنے کا رویہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہاں یہ دو ٹوک اعلان سننے میں نہیں مل رہا کہ کہ جو لوگ عقیدہ ، فرقہ یا کسی دوسرے عذر پر حکومت کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں، انہیں کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ توہین مذہب اور اس کی روک تھام کے حوالے سے جب بھی سوال اٹھایا جائے گا تو دہشت گردی کے بارے میں مسلمانوں اور ان کے لیڈروں کے طرز عمل پر بھی بحث ہوگی۔ اس لئے مسلمان ممالک جب تک اس سوال پر یکسوئی پیدا نہیں کریں گے اور مسلح تصادم کو سختی سے جائز حکومتوں کا حق تسلیم کروانے کےلئے کام نہیں کریں گے، اس وقت تک اسلام اور مسلمانوں پر ان سانحات کی ذمہ داری عائد کرنے کا رجحان بھی فروغ پاتا رہے گا۔ حالانکہ اس کی تباہ کاری کا سب سے زیادہ نشانہ بھی مسلمان ہی بن رہے ہیں۔

اس حوالے سے یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ توہین مذہب یا اسلام کے خلاف بیان بازی کے رجحانات کی روک تھام کےلئے حکمت عملی تیار کرتے ہوئے مسلمان اکثریت والے ملکوں کو اپنے معاشروں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بھی غور کرنا ہو گا۔ مغربی ممالک میں اگر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو یا اسلام کے خلاف بات کی جائے تو ہر اسلامی ملک میں اس پر تشویش اور پریشانی کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن اپنے ہی ملک میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک، ظالمانہ سماجی رویہ، نفرت انگیز مہم جوئی اور انہیں مساوی حقوق دینے سے انکار کے طرز عمل کے بارے میں کوئی منظم تحریک دیکھنے میں نہیں آتی۔ پاکستان میں تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک کا وزیراعظم اگر کسی اقلیتی گروہ کی تقریب میں شریک ہو کر ان کے حقوق اور حفاظت کی بات کرتا ہے تو اس کی نیت پر شبہ کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ ملک میں مذہبی رہنما اقلیتوں کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئے احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ ملک کے توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے بارے میں عالمی اداروں کی طرف سے دستاویزی ثبوت سامنے آنے کے باوجود، ان میں ترمیم و تبدیلی کی بات کرنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔

کسی بھی مسلمان کےلئے اپنے مذہب ، رسول پاک اور دیگر اکابرین کے بارے میں نازیبا کلمات برداشت کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس صورتحال کو تبدیل کرنے اور اسلام کے خلاف منفی رجحانات کی روک تھام کےلئے پہلے اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ دوسروں سے احترام کا تقاضا کرتے ہوئے، اقلیتوں کو احترام اور تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ جذباتی نعروں کے ذریعے خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے عقل و شعور سے کام لیتے ہوئے امن اور بقائے باہمی کے مزاج کو عام کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر مذہب دشمن مواد کا جواب بھی دو طریقے سے دیا جا سکتا ہے۔ اسے مسترد کیا جائے اور الزامات کا مستک جواب دینے کی صلاحیت کو فروغ دیا جائے۔ سوشل میڈیا پر پابندی سے کسی ملک کو تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں ہونے والی ترقی سے علیحدہ کر کے مسائل میں اضافہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس طرح منفی سوچ اور رویوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تمام مسلمانوں اور ان کی حکومتوں کو عہد حاضر کے تقاضے اور ضرورتیں سمجھتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے احترام کی راہ ہموار کرنے کےلئے کام کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali