رقص میں ہے سارا جہاں


رقص کی بات کیجیے۔ ابھی زیادہ دور نہیں جاتے، ادھر پتھروں کے زمانے میں جو انسان ہوا کرتا تھا، وہ بڑا من موجی تھا۔ وہ اصل میں اندر خانے ایک جپسی ہوا کرتا تھا، خانہ بردوش ہوتا تھا۔ جہاں دل کیا لیٹ گیا، جہاں آنکھ کھولی صبح کر لی، جب بھوک لگی کچھ شکار وغیرہ کے لیے بھاگ دوڑ کر لی یا درختوں سے لٹکے اس زمانے کے پھل اتار کے کھا گیا۔ چوں کہ تہذیب وغیرہ نہیں ہوتی تھی تو منہ پھاڑ کے ڈکار لیتا تھا اور سکون سے بیٹھ جاتا۔ انہوں نے آفتوں کے مقابلے کیلئے سوچ رکھا تھا کہ اکٹھے رہیں گے، تو وہ بس قبیلوں کی صورت رہتے تھے۔ زبان وغیرہ کیا بولتے تھے یہ آج تک ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ سائنس دان سر مار مار کے تھک گئے تو انہوں نے دس بارہ مختلف نظرئیے دے دئیے اور پوچھنے والوں سے کہہ دیا کہ بھئی جو بات دماغ کو لگ جائے، وہ مان لو۔ سر مہر نیاز کہتے تھے، حسنین جمال کیمسٹری کے پرچے میں جو دل چاہتا ہے، لکھ دیتا ہے، کہتا ہے کہ جو تمہارے کام کا ہے رکھ لو، باقی رہنے دو۔ تو سائنس دان کبھی کبھی ایسا بھی کرتے ہیں۔

لیکن ڈانس کے معاملے میں وہ لوگ متفق ہیں کہ پتھر کے زمانوں میں بھی یہ خوشی کا اظہاریہ تھا۔ سٹون ایج کی جو تصویریں پرانے غاروں میں دریافت ہوئی ہیں، ان میں بھی رقص ایک اہم معاشرتی جزو پایا گیا ہے، اور اس نے پایا جانا ہی تھا اور وہ پایا جاتا رہا بھی ہے۔

اہم تقریبیں ہوتیں، کسی مریض کو صحت یابی دلوانی ہوتی اور کبھی کچھ نہ بھی ہوتا، صرف اپنی ذات کا اظہار کرنا ہوتاتو وہ جو پتھر کے زمانے والا انسان تھا وہ کچھ لہک جاتا، کچھ بہک جاتا، کچھ بے ہنگم اور کچھ باہنگم سا ہو جاتا اور وہ لوگ مل جل کر جو بھی کرتے اسے ہم آج رقص کہتے ہیں، کہ ان کی تصویروں میں یہی ہے، وہ کیا کہتے ہوں گے، سائنس دان خاموش ہیں۔ اور یہ ہمارے چین والے بھائی جو آج شیر اور ڈریگن بن کر ناچتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، تب کیا کرتے ہوں گے ؟

ہمارا جو برصغیر تھا یہ اتنے ناچوں بھرا تھا کہ لگتا ہے لوگ ادھر غمگین ہوتے ہی نہیں تھے، یا ہوتے ہوں گے تو بھی کوئی کتھا کلی وغیرہ میں غمگین کہانیوں پیش کر لیتے ہوں گے۔ ادھر تو مجسمے بھی ڈانسنگ گرل کے نکلتے تھے، اندازہ کیجیے ! تو علاقائی ناچ گانے الگ ہوتے تھے، جسے ہم فوک ڈانس کہتے ہیں۔ ہر دس کلومیٹر بعد جو رہتل بدلتی ہے، جو لہجہ بدلتا ہے، جو زبان میں فرق آتا ہے تو کیا وہ گانوں میں نہیں آتا ہو گا، اور اگر آتا ہو گا تو رقص میں بھی آتا ہی ہو گا، اور پھر نظر آیا کہ آتا تھا۔ وہ جو فرق تھا وہ کلاسیک اور فوک دونوں میں ہوتا تھا۔ سمی، لڈی، جھومر، بھنگڑا، چھاپ، لیوا، اتن، کمبر، خٹک ڈانس، چترالی ڈانس، دھمال، جھمرو، راس لیلا، مکرانی ڈانس، ککلی، ڈانڈیا، گربا، پدیانی، مٹکی ڈانس، پھول پتی ڈانس، باگھ ناچ، کرما ناچ، مور ناچ، ناگن ناچ اور بہت سے ایسے تھے جن کو یاد کرنے سے فائدہ ہی نہیں ہو گا کہ جو یاد کر لیے ان میں سے بھی کیئوں کے نام اجنبی ہیں۔ اسی طرح کلاسیکل رقص کی اپنی سات آٹھ قسمیں تھیں جن میں سے کتھک ہمیں ایسے یاد رہ گیا کہ ایک مہاراج کتھک ہوا کرتے تھے، لمبے سفید بالوں والے بابا جی، وہ جب تک رہے کتھک بھی کچھ نہ کچھ “اِن” رہا، باقی سب کو ہم نے بھارت ناٹیم کہہ کر سائیڈ پر لگا دیا۔ تو اتنے چھوٹے سے برصغیر میں اتنی ساری قسمیں ہوا کرتی تھیں۔ بنگالی بھائیوں کے اپنے رقص ہوا کرتے تھے، ان کا ہمارا کلچرل گیپ کم بخت اتنا زیادہ تھا کہ آج بھی ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود ان کے کسی ڈانس کا نام یاد نہیں آتا، نہ آج آتا ہے نہ کل آتا تھا، اور ہم فونجوبی تھا، بینگولی نہیں تھا، اسی لیے ہمیں اپنے بھنگڑے اور لڈی سے غرض تھا۔ اور صحیح تھا۔

رقص موجودہ شکل میں باقاعدہ علم ریاضی ہے، جیسے موسیقی ہے۔ کسی بھی مخصوص ردم پر، کسی بھی لے پر، پورے حساب کتاب سے جسم کو ہلانا، یا اچھل کود کرنا، یا چٹکیاں بجانا، یا خالی ٹانگیں ہی ہلا دینا یہ سب رقص ہے۔ مائیکل جیکسن کے گانوں پر جو ٹانگیں بیٹھے بیٹھے کبھی نہ ہلی ہوں، بھنگڑے کی دھمک پر خود بہ خود جو کندھا کبھی بے ساختہ نہ ہوا ہو یا چلتی لڈی کے ساتھ اگر چٹکی تک آپی آپ نہ بجے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ بھئی ہلنے والی ٹانگ تو چلتے پنکھے کی آواز کے ساتھ بھی ہلتی رہتی ہے، اب اس کا کیا کیا جائے۔ یہ ہلنا جلنا، یہ رقص، یہ ناچ، یہ ڈانس، یہ سب اندر کہیں دور دفن ہوتا ہے، اور جب یہ نکلنا ہوتا ہے تو ڈھول کی ایک تھاپ بھی کافی ہو جاتی ہے۔

ترک درویشوں نے سفید اور خاکستری سے رنگوں کے چوغے پہن رکھے تھے، کچھ کی لمبی ٹوپیاں سرخ تھیں، چند سیاہ ٹوپیوں میں تھے۔ ان میں سے جنہوں نے کلام پڑھنا تھا وہ کھڑے ہوئے، پہلے ترنم سے چند مقدس کلمات پڑھے اس کے بعد مولانا رومی کی زبان میں بول پڑھنے شروع کر دئیے۔ بول ابھی آہستہ تھے۔ رباب، ستار، بانسری اور لمبوترے سے ڈھول ان کا ساتھ دیتے تھے۔ باقی سب ٹوپیوں والے قطار بنائے ایک دوسرے کے پیچھے چلتے جاتے تھے، سر جھکائے، آہستہ آہستہ چلتے وہ ایک دائرے کی سی شکل میں آ چکے تھے۔ کچھ ہی دیر میں بول ذرا نسبتاً اونچی آواز میں پڑھے جانے لگے، دائرے میں کھڑی ٹوپیاں اپنے ہی گرد گھومنا شروع ہو گئیں۔ ان کے فراک نما چوغے پھولنے لگے، لے اب غیر محسوس طریقے سے بڑھی تو ان کے ہاتھ جو پہلے پیٹ کے اوپر بندھے رکھے تھے وہ بڑھتی رفتار میں سینے تک پہنچ گئے۔ رومی پڑھے جا رہے تھے، عثمان ہارونی کہے جا رہے تھے، پیش یار می رقصم، وہیں کہیں میرا بائی بھی کھڑی دیکھتی تھیں، قرۃ العین طاہرہ بھی ہولے ہولے سر ہلاتی تھیں، ٹوپیوں کے ہاتھ اب کندھوں پر تھے اور وہ پہلے سے تیز گھوم رہے تھے۔ بانسری پر دوسرے ساز غالب آ چکے تھے اور ہاتھ جسم سے ہٹ کر آزاد ہو چکے تھے، لے مزید تیز ہوئی، ٹوپیاں اور تیزی سے گھومنے لگیں، زمین گھومتی تھی، سورج کے گرد چکر لگاتی تھی، سورج اپنے ہی گرد لٹو ہوا جاتا تھا، چاند زمین کے چکر لگاتا تھا اور یہ سب ایک نظام میں گھومتے جاتے تھے، وہ نظام بھی سورج کے گرد گھومتا تھا یہ نظام بھی شمس کے گرد محو رقص تھا، تو اسی نظام میں دیکھنے والے بھی گھوم رہے تھے، ٹوپیاں، بازو، بانسری، چوغے، چاند، ہارونی، دیکھنے والے، دکھانے والے، زمین، میرا بائی، سورج، طاہرہ، رومی، شمس سب رقص میں تھے اور سارا جہاں گھومتا تھا اور وہاں کوئی آواز نہیں آتی تھی کہ جہاں رقص ہو گا تو وہاں کشیدگی ہو گی کہ وہاں ہر کوئی اپنی سچائی کے ساتھ گھومتا تھا اور دوسرے کی سچائی اس کے لیے ایک مقدس امانت سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔

تو بس، ابھی زیادہ دور نہیں جاتے، ادھر پتھروں کے زمانے میں جو انسان ہوا کرتا تھا، وہ بڑا من موجی تھا۔ وہ اصل میں اندرخانے ایک جپسی ہوا کرتا تھا، خانہ بردوش ہوتا تھا۔۔۔۔

(بشکریہ روز نامہ دنیا)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain