پرائیویٹ سکولز سے منسلک بک شاپس


ریاست جب شہریوں کے حقوق کا خیال نہ رکھے تو مختلف مافیاز سر اُٹھا لیتے ہیں ، شہریوں کا آئے روز ان مافیاز کے ہاتھوں استحصال ہوتا ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ موجودہ دور میں اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولز میں پڑھانا والدین کی مجبوری بن چکا ہے، کیونکہ سرکاری سکولوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ سووالدین مشکل میں پڑ کر بھی پرائیویٹ سکولوں کی بھاری فیس اُٹھاتے ہیں ، جو دو ہزار سے شروع ہوتی ہیں اور زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں حتیٰ کہ ایسے سکول بھی ہیں جو ماہانہ لاکھوں میں فیس لیتے ہیں۔

پرائیویٹ سکولوں کی بھاری اور ہر سال بڑھتی فیسوں کے ساتھ ساتھ ایک کاروبار اور بھی چل نکلا ہے جس کے سرخیل بھی پرائیویٹ سکولز کے مالکان ہی ہیں۔ گروپ آف کالجز نے اپنے ٹائٹل کے تحت اب سکول بھی کھول لیے ہیں ۔ چونکہ ملک بھر کے مختلف شہروں میں ان سکولز کی سینکڑوں شاخیں ہوتی ہیں اور سینکڑوں شاخوں میں ہزاروں ،لاکھوں بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں اور ایک بچے کو کم از کم سال بھر کی کتابیں‘ کاپیاں اور سٹیشنری ہر صورت لینی پڑتی ہے۔ اس لیے نجی سکولوں کے مالکان نے اب یہ کام بھی اپنے پاس ہی رکھ لیا ہے۔ یوں بچوں کی بھاری فیسوں کے ساتھ ساتھ کتابوں‘ کاپیوں اور سٹیشنری کی مد میں بھی لاکھوں کروڑوں کمائے جا رہے ہیں۔ بات صرف کمانے کی حد تک ہوتی تو شاید قابل برداشت تھی لیکن اب بات من مانے ریٹس تک جا پہنچی ہے کیونکہ ان مالکان کو معلوم ہے کہ ان کے سکول کی کتابیں انہوں نے خود پرنٹ کروائی ہیں،یہ کتابیں عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتیں ‘ اس لیے والدین مجبوراً انہی کے پاس آئیں گے،ان کے سکولوں سے کتابیں لیں گے یا ان کی متعین کردہ بک شاپس سے لیں گے۔

میرا بیٹا اس سال نرسری میں گیا ہے۔ اس کے سالانہ دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ مجھے کتابیں ‘ کاپیاں اور سٹیشنری بھی لینی تھی ، سو میں نجی سکول کی بتائی ہوئی بک شاپ پر گیا اور نرسری کی کتابوں کا ریٹ دریافت کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ صرف بکس 3300 روپے کی ہیں۔ بائنڈنگ 500 روپے‘ سٹیشنری 2000 روپے، سکول بیگ ، یونیفارم اور دیگر ضروریات اس کے علاوہ تھیں۔ میں نے جب نرسری کے بچے کی کتابوں کا ساڑھے پانچ ہزار روپے سنا تو ہکا بکا رہ گیا،میں نے فہرست میں کتابیں شمار کیں تو سولہ سے زائد کتابیں تھیں،آپ اندازہ لگائیں پانچ سال کا بچہ ان سولہ کتابو ں میں پڑھے گا کیا اور یاد کیا کرے گا، میرے بچے کا سکول بیگ اس قدر بھاری اور وزنی ہوتا ہے کہ اس بے چارے سے اٹھایا نہیں جاتا ، اس دوران مجھے اپنا یونیورسٹی کا دور یاد آیا کہ جب ہم اسلامک یونیورسٹی سے ماسٹر کر رہے تھے توایم اے کی دو چار کتابیں ہی تھیںجن کا کل چھ سات سو روپے خرچ آیا تھا اور اب نرسری کے بچے کی سولہ کتابیں اور وہ بھی ساڑھے پانچ ہزار روپے میں۔ ان سولہ کتابوں میں اکثر کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں پورے سال میں کبھی کھولا ہی نہیں جاتا ،جب میں نے سکول میں اس مسئلے کی نشاندہی کی تو پرنسپل نے بتایاکہ وہ ہم سکول میں پڑھا لیتے ہیں ۔

قارئین! مجھے لگا شاید دکاندار زیادہ بتا رہا ہے مجھے اوپن مارکیٹ سے معلوم کرنا چاہیے‘ راولپنڈی کے اردو بازار گیا جہاں کتابیں ہول سیل ریٹ پر دستیاب ہوتی ہیں‘ بڑی اور مشہور بک شاپس سے معلوم کیا لیکن نجی سکول کی کتابیں مجھے وہاں سے نہیں ملیں، پوچھا کہ کہاں سے ملیں گی ‘ بتایا گیا کہ سکول کے اندر سے۔ وہاں سے تو ہم پہلے ہی معلوم کر چکے تھے ۔مختلف لوگوں سے پوچھنے اور بڑی کھوج کے بعد پتہ چلا کہ پورے راولپنڈی میں اس نجی سکول کی صرف تین شاپس ہیں‘ ان کے علاوہ کہیں سے بھی بکس دستیاب نہیں ہوتیں۔سوچا ہو سکتا ہے کہ سکول والے بک شاپ والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہوں، ہیڈ آفس سے رابطہ کرنا چاہیے۔ انٹرنیٹ سے رابطہ نمبر تلاش کرنے کے بعد لاہور ہیڈآفس بات کی اور یہ سوچ کر اپنا مسئلہ بتایا کہ ہیڈ آفس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ نرسری کلاس کی کتابوں کا ریٹ بتا دیں ، کہنے لگے آپ اپنے سکول سے معلوم کریں، ہم نہیں بتا سکتے۔ میں نے بتایا کہ سکول گیا تھا لیکن وہ پانچ ہزار روپے کے قریب بتا رہے ہیں، مجھے لگا شاید یہ زیادہ بتا رہے ہیں اس لئے تھک ہار کر تصدیق کے لئے آپ سے بات کر رہا ہوں ۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے مجھے سکول سے رابطہ کرنے کا کہہ کر رابطہ منقطع کر دیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ دو طرح کی خرابیاں سامنے آ رہی ہیں ، ایک تو حد سے زیادہ ریٹس ، دوسرا کتابیں عام مارکیٹ میں دستیاب کیوں نہیں ہوتیں۔ آکسفورڈ سلیبس جب عام مارکیٹ میں دستیاب ہو سکتا ہے تو نجی سطح پر ترتیب دیا ہوا سلیبس عام مارکیٹ میں کیوں دستیاب نہیں ہوتا، میں سمجھتا ہوں نجی سکولز کی بھاری فیسوں کے ساتھ ساتھ مہنگی کتابیں ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے ۔ اس اہم مسئلے سے کم و بیش ہر گھر ہی دوچار ہے ، کوئی آواز نہیں اُٹھاتا ، اس ڈر سے کہ کہیں شنوائی نہیں ہوگی ، ہم یہاں یہ نہیں کہیں گے کہ ایک جامع نصاب ترتیب دیا جائے کیونکہ یہ بات پہلے بھی بہت دفعہ کہی جا چکی ہے اس بات کودہرانے کاکوئی فائدہ نہیں البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ پاکستان کے شہریوں کو ان مافیاز کے ہاتھوں لٹنے سے بچانا ریاست کی ذمہ داری ہے‘ ریاست کہاں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).