جامعہ پنجاب : تصویر کا دوسرا رخ


ذہن کے دریچوں میں خیال پنپتا ہے اور پختہ ہوکر انسانی رویہ بن جاتا ہے۔ من الحیث القوم ہمیں اسی رویے کی انتہا کا عارضہ لا حق ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہیں کہ جو ہمارا پیچھا کرکٹ کے میدانوں سے لے کر سیاست کی ڈھلوانوں تک نہیں چھوڑتا۔ جیتنے پہ آجائے تو سامنے ورلڈ چیمپپئن نہیں ٹکتا دوسری صورت میں اگلے ہی روز بھاؤ کا تاؤ نکل جاتا ہیں۔ گزشتہ تین دنوں سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر جامعہ پنجاب کے حوالے سے دما دم مست قلندر مچایا گیا ہے۔ دونوں اطراف سے بے تکے الزامات اور واقعات کی اپنے اپنے انداز میں تشریح کی جارہی ہیں۔ ایک ہی ویڈیو کو الگ الگ کیپشن کے ساتھ لگا کر خود کو مظلوم ثابت کرنے کی ناکام کوشش سمجھ سے بالاتر ہیں۔ جمیعت کے بعض سنجیدہ حضرات بھی توازن اور انصاف کا دامن چھوٹتے نظر آئے اور مخالف طرف سے بھی شدت کی ساری حدود پامال ہوتی رہیں۔ ایک عام آدمی کے لئے کوشش کے باوجود صحیح صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اینکرز سے لے کر لکھاریوں تک سارے تصویر کا ایک رخ پیش کر رہے ہیں۔ جو جس کیمپ کا ہمدرد اسی کو مظلوم ثابت کرنے میں مگن۔

پشتو کا ایک محاورہ ہے ”اوبہ خڑی دی او مھیان ڑاندہ“ یعنی کہ پانی گندا ہے اور مچھلیاں اندھی۔ میں نے اپنی طور سے کوشش کی ہے کہ واقعات کا مجموعی خاکہ پیش کروں۔ چونکہ مجھے تین سال پہلے جامعہ پنجاب میں وقت گزارنے کا موقعہ ملا ہے ایسے میں کچھ ذاتی تجربات کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔

حال کا جو واقعہ جامعہ پنجاب میں جمیعت اور پشتون طلباء کے بیچ آیا ہے جس میں دونوں اطراف سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، کی بنیادی وجوہات کوئی اور ہیں۔ کلچر ڈے اور خواتین کے پروگرام پر حملہ محض پہلے سے بوئے گئے بیج کے اثرات ہیں۔ جامعہ پنجاب کے سابقہ وی سی مجاہد کامران کے دور کو جامعہ کا بدترین دور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اب چونکہ جامعہ پنجاب میں جمیعت مضبوط تھی اسی لئے وی سی کو کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ تھا اسی وجہ سے تقریباً شروعات ہی سے جمیعت اور وی سی کی نہیں بن رہی تھی۔ اب جب وی سی صاحب کے ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آیا تو ایک ہاٹ ایشو کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکے۔ اسی ضمن میں نظر انتخاب جمیعت ٹہر گئی۔ پہلے پہل تو جامعہ کی سیکورٹی فورس کے ذریعے جمیعت کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کیے جا سکے۔ ان حالات میں ایک شاطرانہ چال مہارت کے ساتھ چلائی گئی۔ پٹھان مزاج کے تیز اور فطرت کے سخت واقع ہوتے ہیں۔ وی سی نے بلوچستان کے لئے ہر ڈیپارٹمنٹ میں سپیشل کوٹہ رکھ لیا۔ اسی طرح دھڑا دھڑ بلوچ اور پشتونوں کو داخل کیا گیا اور ان کی باقاعدہ سر پرستی کی گئی۔ ان سٹوڈنٹس کو مختلف قسم کے مراعات بھی دی جانے لگیں۔ ان کو باقاعدہ منظم کردیا گیا۔

دوسری طرف اسلامی جمیعت طلبہ تھی جس کا جامعہ پر عشروں سے راج تھا۔ طاقت کے سرور میں بھلا کون خطرات کا ادراک کرسکتا ہے۔ اور یہی جمیعت کا کمزور پوائنٹ تھا کہ جس کے بنیاد جمیعت پر سمارٹ پنچ لگایا گیا اور انہیں خبر بھی نہیں ہوئی۔

پشتونوں اور جمیعت کو آپس میں لڑا کر گویا آگ کو آگ سے کھیلنے کا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا۔ بیچ میں کبھی کبھی مہرے بدل دیے جاتے ہیں۔ پہلے پٹھانوں کر استعمال کیا گیا پھر بلوچوں کو آزمایا گیا۔ اور اب شاید پھر پٹھان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی کھیل گزشتہ پانچ سال سے جاری ہے۔ اور آہستہ آہستہ خطرناک انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نقصان دونوں اطراف کا ہورہا ہے۔ میرے خیال میں طرفین کو باتحمل اور سنجیدہ انداز اختیار کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ کل کلاں دونوں ایک دوسرے کے زخموں کو سیتے ہوئے ہاتھ سے وقت کے نکل جانے کا افسوس کرتے رہیں۔

حال کا جو واقعہ پیش آیا ہے میرے خیال میں دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ پر غلطی کر بیٹھے ہے۔ پشتون کلچر ڈے پر حملہ کیا گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پشتون لڑکوں نے جمیعت طالبات کے پروگرام پر حملہ کرکے اس سے بڑی غلطی کی ہے۔ پشتون روایات اور پختون ولی کسی بھی حالت میں عورت پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔

میرے خیال میں جمیعت کو حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے اصول اور دستور کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ اپنے صفوں میں سے ڈنڈا برداری کو فارغ کرنا چاہیے۔ اپنے غلطیوں کا ادراک اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنا کرنا پختگی اور بردباری کا ثبوت ہوا کرتا ہے۔ بذات خود غلطی کو جاننا اور اس کی تصحیح کرنا ہزار ہا بہتر ہوتا ہے بہ نسبت کوئی اور انگلی اٹھا کر نشاندہی کردے۔

جمیعت انسانوں کی جماعت ہے۔ اور انسان غلطیوں سے مبرا نہیں۔ ہمیں پلس اور مائنس کو کیلکولیٹ کرنا چاہیے۔ جس انداز سے جمیعت کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے یہ نا انصافی ہے۔ جمیعت باقاعدہ ایک منظم تنظیم ہے۔ ملک کے تقریباً ہر شعبے میں نمائندگی رکھتی ہے۔ ایک پڑھا لکھا طبقہ اس سے منسلک ہے۔ میرے خیال میں اگر نیوٹرل پوزیشن سے تعلیمی اداروں میں جمیعت کا جائزہ لیا جائے تو پلس کا تناسب کافی زیادہ ہوگا۔ کئی نامور سیاستدان جمیعت ہی کے پیداوار ہیں۔ طلباء حقوق کے لئے کافی سرگرم عمل۔ بہت سارے سوشل پروگرامات۔ خاص کر جامعہ پنجاب میں سٹوڈنٹ فیسٹول اور سپورٹس گالاز۔ آگاہی سیمینارز۔ ۔ داخلہ جات میں راہنمائی۔ دروس کلاسز۔ کتاب میلے۔ اور بھی کافی ساری مثبت سرگرمیاں ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہیں کہ بس جتنی غلطی ہے اتنی ہی تنقید کی جائے۔ نوجوانوں کے لئے سدھرنے کا بندوبست کرنا چاہیے نہ کہ بگڑنے پر اکسانے کا سامان۔ اللہ ہمیں حق بتانے اور حق سننے کا شرف عطا فرمائیں۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).