حسین حقانی کے انکشافات …


میمو گیٹ سکینڈل سے ’شہرت‘ کی بلندیوں کو چھونے والے حسین حقانی نے ایک بار پھر بہت بڑا خبری دھماکہ کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اس وقت کی سیاسی قیادت صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اجازت سے بڑی تعداد میں سی آئی اے اہلکاروں کو پاکستان بھجوانے کی راہ ہموار کی۔ گو ان کے مذکورہ کالم میں امریکی خفیہ ایجنٹوں کو اندھا دھند ویزے جاری کرنے والی بات بہت سے لوگوں کے لئے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے لیکن اس خبر سے ملکی سیاست میں ایک بھونچال ضرور برپا ہوا۔ ایک طرف پیپلزپارٹی کے رہنما اورقومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے حسین حقانی کو غدار قرار دے کر اپنی خفت مٹا ئی تو دوسری طرف آصف علی زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے فرمایا کہ حسین حقانی کے کالم میں بیان کئے گئے واقعات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ چشم تصور سے میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ وزیراعظم میاں نواز شریف آرام دہ صوفے پر تشریف فرما حسین حقانی کا کا لم پڑھنے کے بعد گنگنا رہے ہیں کہ

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری قدرے فکر مند دکھائی دیئے اور بار بار ان کے ذہن میں یہ شعر گونج رہا ہے کہ

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

خورشید شاہ صاحب نے فرمایا کہ حسین حقانی اس ”قابل “ہی نہیں کہ اس کی شخصیت پر بات کی جائے لیکن شاہ جی شاید اس سوال کا جواب نہ دے سکیں کہ جس شخص سے متعلق آج وہ اتنی بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں وہ ان کی سیاسی قیادت کے لئے اتنا ”قابل “ کیسے ہوگیا کہ اس کودنیا کی واحد سپر پاور امریکہ میں عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کے سفیر کا منصب جلیلہ سونپ دیا گیا۔ حسین حقانی کی اصلیت اس وقت پیپلزپارٹی کی سیاسی قیادت اور حکومت پر کیوں نہ آشکار ہوئی ؟نہ صرف ان کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا بلکہ ان کی اہلیہ کو پاکستان کی قومی اسمبلی کا رکن بھی بنایاگیا۔ حسین حقانی اگر غدار ہے تو یہ وضاحت بھی ہونی چاہئے کہ وہ پیپلزپارٹی کا غدار ہے یا پاکستان کا۔ اپنے دور سفارت میں اس کی حقیقی وفاداریاں پاکستان کے ساتھ تھیں، پیپلزپارٹی کے ساتھ یا پھر وہ ان دونوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر امریکی مفادات کی حفاظت میں مصروف تھا؟ حسین حقانی اگر غدار ہے تو اسے سفارتی سطح پر اتنا بڑا عہد ہ دینے والوں کی ”قابلیت “ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جس میں رضا ربانی ، اعتزاز احسن ،تاج حیدراور خورشید شاہ جیسے سردو گرم چشیدہ اور جہاندیدہ افراد موجودہیں انہوں نے حسین حقانی کو امریکہ میں سفیر بناتے وقت اپنی قیادت کو کیوں نہ ٹوکا؟ کیا وہ بھی اس وقت شخصی آمریت کے ہاتھوں مجبور ہو گئے؟ کیوں نہ انہوں نے جمہور کے سچے اصولوں کے مطابق اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرے؟

پیپلزپارٹی پر اس سے برا وقت اور کیا ہوگا کہ اس کی صف اول کی قیادت ایک غیر معتبر شخص کے لکھے چند الفاظ کی وضاحت پر مجبور ہے جبکہ اعلیٰ ترین قیادت اس معاملے پر خاموش بیٹھی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں جمہوریت کا صرف نام ہی لیتی ہیں لیکن جب جمہور کے اصولوں کو خود پر نافذ کرنے کا وقت آتاہے تو اس بھاری پتھر کوچوم کر دو قدم پیچھے ہوجاتی ہیں۔ بات صر ف یہ ہے کہ صاحبان اختیار کی اکثریت کو کسی بھی عہدے کے لئے مطلوبہ قابلیت یا لیا قت کی تلاش نہیں ہوتی بلکہ انہیں صرف ہاں میں ہاں ملانے والے تلاش کرنا ہوتے ہیں جو ہر حال میں ان سے وفاداری نبھائیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خوشامد کرنے والے افرادجہاں عقل سے عاری ہوتے ہیں وہیں وفا جیسی نایاب جنس سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔

ایبٹ آباد کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بھی فرمایا ہے کہ کمیشن کے ارکان کے لئے حسین حقانی کے اس انکشاف میں کوئی نئی بات نہیں۔ کمیشن کے ارکان ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کے غیر معمولی آپریشن کے دوران اسامہ بن لادن کی مبینہ ہلاکت میںحسین حقانی کے کردار سے بخوبی آگاہ ہیں۔کاش، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جاری کر دی جاتی اور میمو گیٹ سکینڈل کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تو آج پاکستان کے عوام کو معاملہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا جبر بڑوں بڑوں کو حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے لیکن تاریخ ہمیں بار بار یہ بات بھی باور کراتی ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور مستقبل میں ان غلطیوں سے بچنے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے حال میں اپنے کردار پر نظر ڈالیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو سماج کے سدھار کے لئے تاریخ ہماری بہت بڑی معاون ہے۔ ہماری ساری سیاسی قیادت کو اس واقع سے سبق لیتے ہوئے یہ بات طے کر لینی چاہئے کہ سرکاری اداروں یا حکومتی عہدوں پر تقرریوں کے لئے صرف اور صرف اجلے کردار کے حامل اور قابل افراد کو تعینات کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی ممکنہ شرمندگی یا سیاسی حادثے سے بچا جا سکے اور لگے ہاتھوں اگر حمودالرحمان کمیشن سمیت آج تک اس ملک میں جتنے بھی کمیشن بنے ہیں ان کی رپورٹس بھی سرکاری سطح پر شائع کردی جائیں تو قوم کا بہت بھلا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).