عدم برداشت، نظریاتی اختلاف اور پنجاب یونیورسٹی


اسلامی جمعیت طلبا کا قیام 23 دسمبر 1947ء کو لایا گیا جو کہ عام لوگوں کی نظر میں جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم ہے لیکن خود جمعیت والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نظریاتی طور پر جماعت سے متاثر ضرور لیکن تنظیمی طور پر بالکل الگ ہے۔ ان کا یہ دعویٰ کتنا سچ ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن آج اس واقعے کے بارے میں بات کریں گے جو گزشتہ ہفتے پنجاب یونیورسٹی میں پیش آیا تھا۔

اسلامی جمعیت طلبا کا منشور جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک ارشاد ’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاﺅ‘ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا خالق، رسول اللہ ﷺہمارے رہنما، قرآن ہمارا دستور، جہاد ہمارا راستہ، شہادت ہماری آرزو اور اسلامی انقلاب ہماری منزل ہے۔

(شہادت ہماری آرزو تک کے الفاظ مصر میں جماعت کے نظریاتی اتحادی اخوان المسلمین کے منشور سے لئے گئے ہیں)۔

نصب العین کے طور پر جمعیت یہ الفاظ پیش کرتے ہیں ’اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول‘۔

جمعیت نے اگر ایک طرف اچھے اچھے مقرر اور جماعت اسلامی کے لئے لیڈرشپ مہیا کی ہے تو دوسری طرف پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی جمعیت کے تربیت کئے ہوئے لوگ پائے جاتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تنظیم مارپیٹ، مبینہ بدمعاشی اور تعلیمی اداروں میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ عملی کام بھی کررہی ہے۔ (بدمعاشی، مارپیٹ یہ سارے الزام میرے نہیں بلکہ مخالفین لگاتے ہیں)

پنجاب یونیورسٹی میں سامنے آنے والے واقعہ کی دوسری طرف پشتون طلبا تھے لیکن یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ کیا ان کا تعلق پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) سے تھا یا نہیں۔ یہاں پر میں مختصراً پی ایس ایف کا تعارف بھی کرادیتا ہوں۔

عوامی نیشنل پارٹی کی طلبا تنظیم پی ایس ایف جو کہ ابتدا میں ایک آزاد طلبا تنظیم تھی، کی بنیاد 8 اپریل 1968ء کو رکھی گئی اور جمعہ خان صوفی کی کتاب ’فریب ناتمام‘ کے مطابق وہ بھی اس محفل کا حصہ تھے جس میں پی ایس ایف کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ واضح طور پر پی ایس ایف کا نظریاتی تعلق بائیں بازو کی جماعتوں سے ہر وقت ہی رہا ہے اسی وجہ سے اس تنظیم میں مختلف نظریوں والے لوگ شامل رہے ہیں اور ابھی وہی لوگ عوامی نیشنل پارٹی میں بھی بڑا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔

پی ایس ایف کا نظریہ جیسا کہ اس کے نام سے بھی واضح ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں پشتون طلبا کے حق کے لئے آواز بلند کرنا، ان کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا اور مستقبل کے لئے پشتون رہنما تیار کرنا اور ساتھ ساتھ باچا خان کے عدم تشدد کی پالیسی پر عمل کرنا ہے۔ باچاخان کی تعلیمات ہی اس تنظیم کی بنیاد اور کارکنان کے لئے مشعل راہ ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ رہنما یا لیڈر بنانے کا کوئی میکینزم اس تنظیم میں موجود نہیں (یا شاید اب ختم ہوچکا ہوگا کیونکہ ماضی میں اس تنظیم نے اچھے اچھے رہنما پیدا کئے ہیں)۔

شاید یہ بات کسی کو ناگوار گزرے لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور ایک پشتون طالبعلم ہونے کے ناتے پشاور یونیورسٹی میں خود دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا کہ پی ایس ایف کی قیادت ہو یا کارکن، ان میں سے زیادہ تر پڑھائی میں پیچھے ہی رہے ہیں۔ فائرنگ کی آوازیں ہر اس طالبعلم نے سنی ہوں گی جو پشاور یونیورسٹی کے نیو ہاسٹل بلاک اے، بی اور سی میں رہ چکے ہو۔ یہ کون کرتا تھا اس بارے میں انتظامیہ والے ہی بہتر جانتے ہوں گے لیکن اس کا مداوا کبھی نہ ہوسکا۔ (تین سال پہلے یہی حالت تھی امید ہی کی جاسکتی ہے کہ اب ٹھیک ہوگئی ہوگی)۔

اس کے مقابلے میں اسلامی جمعیت طلبا کے کارکنان پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی آگے آگے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں کہ پی ایس ایف میں کوئی کام کا بندہ نہیں۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو پی ایس ایف کی مرکزی قیادت کے ساتھ ساتھ اپنی کلاس کے ٹاپر بھی رہے ہیں۔

اتنی بڑی تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ نظریے کی بنیاد پر تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے کیا حقیقی طور پر اس نظریے کی ترویج آج بھی کررہے ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب پنجاب یونیورسٹی کے واقعے کے تناظر میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ صاحب نے اس واقعے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ جامعات میں رقص و سرود ہوگا تو کشیدگی تو ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس جمعیت والے کہتے ہیں کہ یوم پاکستان کے موقع پر اسلامی جمعیت طالبات (ان کے خواتین ونگ) نے سمعیہ راحیل قاضی صاحبہ کے ساتھ ساتھ دوسری خواتین کو مدعو کیا تھا اور خواتین کے اس پروگرام پر پشتون طلبا نے حملہ کیا جس کے جواب میں انہوں نے بھی پشتونوں کے کیمپوں پر حملہ کیا۔

اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو کم ازکم ایک پشتون ہونے کے ناتے ہرگز یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کے لئے بنائے گئے پروگرام میں کوئی ان پر ہاتھ اٹھائے۔ پشتونولی میں اس کا تصور کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ (اور پشتون طلبا بھی اس کی تردید کررہے ہیں)

پشتون طلبا کا کہنا ہے کہ انہوں نے جشن نوروز کی مناسبت سے ایک ثقافتی پروگرام اور اتنڑ (اپنا روایتی رقص )کا انعقاد یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بعد کیا تھا (اس کی تصدیق خود یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی میڈیا پر آکر کی) جس کے سامنے جمعیت والوں نے سٹیج سجایا اور جب ا نہوں نے اتنڑ شروع کیا تو اسلامی جمعیت طلبا کے کارکنان نے ان پر حملہ کیا، کیمپ اکھاڑے اور بعد میں کیمپوں کو آگ بھی لگائی جس کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے۔

اتنڑ پشتونوں کا روایتی رقص ہے جو صدیوں سے کیا جاتا آرہا ہے۔ پاکستان میں مختلف اقوام اپنی ثقافتی تاریخ کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں اور کسی فرد کو یہ اختیار کبھی بھی حاصل نہیں کہ وہ ثقافتی ورثہ پر انگلی اٹھاسکے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو۔

پنجاب یونیورسٹی میں ہونیوالے واقعے میں تقریباً 19 طلبا زخمی ہوئے لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا تعلق کس فریق سے تھا، ہاں پشتون طلبا کی کچھ ویڈیوز ضرور سامنے آئی ہیں جس میں ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ الزام لگارہے تھے کہ پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا جس سے وہ زخمی ہوئے۔

اب آتے ہیں اپنی اصل موضوع کی طرف۔ اسلامی جمعیت طلبا ایک مذہبی تنظیم ہے جو ہمیشہ سے مذہبی اجتماعات منعقد کرتی ہے، اپنے کارکنان کے لئے شب بیداری، تربیتی اور دیگر اجتماعات کا انعقاد کرتی ہے۔ (شب بیداری میں رات کے پچھلے پہر طلبا کو قبرستان کی طرف بھی لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ موت کو نہ بھولیں)۔ جمعیت کو ہمیشہ متشدد تنظیم کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ یونیورسٹی ہو یا کالج، وہ سب کچھ اپنی قوت سے کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہی واقعہ پنجاب یونیورسٹی کا بھی ہے جہاں پر پشتون طلبا کے مطابق ان کو اپنے ثقافتی رقص ’اتنڑ‘ سے روکنے کی کوشش لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ذریعے کی گئی۔

اگر جمعیت کے اس موقف کو مانا جائے کہ انہوں نے اس لئے پشتون طلبا کے کلچرل پروگرام کے لئے بنائے گئے کیمپوں کو اکھاڑا اور آگ لگائی کیونکہ انہوں (پشتون طلبا) نے اسلامی جمعیت طالبات کی طرف سے منعقد کئے گئے پروگرام پر حملہ کیا تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہی نکلتا ہے کہ جمعیت کو روایتی رقص اور ڈھول سے کوئی تکلیف نہیں اور وہ جامعات میں یہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو تمام لوگوں کو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کیونکہ ماضی میں وہ اس پر کبھی بھی قائل نہیں تھے اور شاید نہ کبھی ہوں گے لیکن ایسا ہے نہیں۔

دوسری طرف اگر پشتون طلبا کے موقف کو صحیح مانا جائے کہ پہلے ان پر حملہ کیا گیا اور انہوں نے جوابی وار کیا تو بھی ایک سوال ضرور کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ جس کے افکار و نظریات کی وہ پرچار کرنا چاہتے ہیں اس نے تو صاف الفاظ میں یہی کہا تھا کہ ’اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا آگے کرو‘۔

مقصد صرف یہ ہے کہ ہم سیاسی طور پر تو نیچے جاہی رہے ہیں لیکن جہاں سے لیڈرشپ آگے آنے اور بنانے کے دعوے ہورہے ہیں وہاں پر ہم کیا کچھ کررہے ہیں؟ کیا وہاں پر بھی نظریے بھلائے جارہے ہیں؟ یا صرف پوائنٹ سکورنگ کے لئے طلبا تنظیمیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ ہر کوئی اپنا موقف درست مان کر دوسروں کی سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ایسے میں وہ خاک مستقبل کے رہنما یا لیڈرشپ بناسکیں گے۔

جماعت اسلامی ہو یا اسلامی جمعیت طلبا، دونوں ظاہری طور پر موسیقی کے خلاف ہے۔ خصوصاً جمعیت جامعات کے اندر (جہاں ان کا بس چلے) موسیقی کی محفل کو برداشت نہیں کرسکتے اور بزور بازو اس کوروکنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں جس کا شکار پشاور یونیورسٹی میں، میں خود رہ چکا ہوں۔لیکن حال ہی میں جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق صاحب کی وہ ویڈیو سب نے ضرور دیکھی ہوگی جس میں وہ اقلیتی برادری کے پروگرام میں شرکت کے لئے پہنچتے ہیں تو ان کا استقبال ڈھول کی تاپ اور رقص سے کیا جاتا ہے۔مقصد صاف اور سیدھا ہے، اس ملک میں ایک آئین اور دستور موجود ہے جو ہر کسی کو اختیار و آزادی دے چکا ہے۔ اگر اس کے باوجود بھی کوئی اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کررہا ہے تو یہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، ہاں اگر آئین پاکستان میں ایسی گنجائش ہے تو پھر یہ ان کا حق ہے۔

اس تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ دایاں بازو ہو یا بایاں بازوں، دونوں طرف برداشت کی کمی ہے کیونکہ ایک طرف اگر دائیں والے ایک انتہا پر کھڑے ہیں تو بائیں والے بھی کسی سے کم نہیں۔ آخر میں جمعیت کی عدم برداشت کے بارے میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اس تنظیم میں کوئی اگر مرکزی سطح تک کی نمائندگی کرنے کا اہل ہے تو اسے ’رکن‘ کہا جاتا ہے لیکن میری معلومات کے مطابق شیعہ کمیونٹی کو ابھی تک یہ اجازت نہیں کہ وہ جمعیت کی رکن بن سکے۔

اب تھوڑا سا مثبت پیغام دینے کا وقت ہے۔ کوئی اگر سیاست کررہا ہے تو کرے لیکن اپنے اردگرد رہنے والوں پر اپنا سیاسی نظریہ مسلط کرنے کی کوشش ہرگز نہ کریں اور جو اپنا نظریہ ہے ان کی اگر ترویج کرنی ہے تو قوت دکھا کر نہیں بلکہ عملی نمونہ بن کر ان کو اپنا گرویدہ بنانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہ ملک، یہ سرزمین ہم سب کا ہے اور ہر کسی کو اپنے نظریے کے ساتھ رہنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).