چلو امریکہ اور اسرائیل کو کوسیں


آج صبح سے امریکہ اور اسرائیل کو بہت کوسنے کا دل کر رہا ہے۔ جی کر رہا ہے کہ امریکہ کو خوب بد دعائیں دوں، اتنا کوسوں کہ امریکہ اور اسرائیل ایک دم تباہ و برباد ہو جائیں۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کو کوسوں کیوں؟۔ چلئے ایک ایک کرکے امریکہ اور اسرائیل کی خطائیں شمار کریں۔

پہلی خطا: لشکر جھنگوی  کے کارکنان اسلام کے نام پر کلمہ گو افراد کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ لشکر جھنگوی کا خیال ہے کہ فلاں فلاں مسلک کا وجود اس زمین پر شر کی علامت ہے اس لئے ان کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ گزشتہ بیس برس میں اس تنظیم کے ڈیڑھ درجن سے زیادہ بڑے دہشت گردانہ حملوں میں سیکڑوں شیعہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس لئے چلو امریکہ اور اسرائیل کو کوسیں۔

دوسری خطا: بوکوحرام نے نائیجیریا، چاڈ، نائیجر اور شمالی کیمرون میں جینا حرام کر رکھا ہے۔ گزشتہ پندرہ برس میں اس تنظیم نے بیس ہزار سے زیادہ لوگوں کو حملوں میں ہلاک کیا اور تیئس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ تنظیم کو سب سے زیادہ جانیں لینے والی تنظیم کا اعزاز حاصل ہے۔ اس لئے چلو امریکہ اور اسرائیل کو کوسیں۔

تیسری خطا: الشباب کے مذہبی اور اسلاف پسند نوجوانوں نے گذشتہ دو برس میں تیرہ سو سے زیادہ افراد کی جان لی۔ صومالیہ کے اس گروپ میں نو ہزار مومن نوجوان شامل ہیں جو اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب کوئی ہاتھ ٓئے جسے ہلاک کیا جا سکے۔ اس لئے چلو امریکہ اور اسرائیل کو کوسیں۔

چوتھی خطا: دو برس سے یمن پر جاری سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی بمباری میں دس ہزار عام شہری مارے جا چکے ہیں۔ ایک لاکھ افراد کو جان بچا کر بھاگنا پڑا اور دوسرے ممالک میں پناہ لینی پڑی۔ لاکھوں بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ اس لئے چلو امریکہ اور اسرائیل کو کوسیں۔

پانچویں خطا: شام میں چھ برس سے جاری خانہ جنگی میں اب تک تقریبا پانچ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔ شامی فوج باغیوں کو کچلنے کے لئے آبادیوں کو نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کر رہی ہے، ادھر باغی شہریوں کو ڈھال بنا کر دھماکوں اور حملوں میں مشغول ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں لیکن ایران کو شامی صدر اور سعودی عرب کو باغیوں کی حمایت سے پرہیز نہیں۔ اس لئے چلو امریکہ اور اسرائیل کو کوسیں۔

میرے خیال میں مندرجہ بالا پانچ جرائم ایسے ہیں جن پر امریکہ اور اسرائیل کو جم کر کوسا جا سکتا ہے۔ اور ہاں، میں داعش اور القاعدہ یا پھر افغانستان اور عراق میں برپا خونریزی کے لئے امریکہ کو نہیں کوسنا چاہتا کیونکہ یہ تو پتہ ہی ہے کہ ان جرائم میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter