ہولی کیوں منائی؟ وزیر اعظم اور بلاول بھٹو حلفیہ معافی نامہ جمع کروائیں


 سندھ کا یہ چہرہ کم از کم میں نے پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ اور وہ بھی سندھ یونیورسٹی کا۔

سندھ یونیورسٹی جامشورو کی انتطامیہ ان ہندو طلباء سے حلفیہ معافی نامہ لے رہی ہے جنہوں نے ہولی کے دنوں میں سندھ یونیورسٹی میں یہ تہوار منایا تھا وہ بھی کسی فئکلٹی، کلاس یا ہاسٹل میں نہیں بلکہ یونیورسٹی کے پارک میں۔

روپے کے ایفیڈیوٹ کا ٹائیٹل ہی یہ ہے ـ معافی نامہ 50ـ

 سندھ کی صوفی تاریخ کے اس سیاہ ترین معافی نامے کی تصویر منسلک ہے۔ جو سندھی میں لکھا ہوا ہے۔

 معافی نامہ کچھ اس طرح ہے۔

میں راجا دیپک ولد چندی رام ، ہندو، رہائش پذیر ، ستار نگر کالونی میرپور خاص ، طالبِ علم ماس کمیونیکیشن ، بی ایس ون سندھ یونیورسٹی جامشورو اس معافی نامے میں اقرار کرتا ہوں اور لکھ کر دیتا ہوں کہ ۵ مارچ ۲۰۱۷ کو میں کلاس اٹینڈ کرکے دوستوں کے ساتھ یونیورسٹی کے پارک میں بیٹھا تھا۔ یہ ہولی کے دن تھے اور ہم دوستوں نے ہندوئوں کے رسم رواج کے مطابق آپس میں ایک دوسرے پر رنگ پھینکے۔ جو یونیورسٹی کے قانون کے مطابق غلط عمل تھا ۔ اس کی بنیاد پر میرا یونیورسٹی ڈپارٹمنٹ آئی ڈی کارڈ ضبط کرلیا گیا ہے۔ ( جس کے بغیر کلاس میں جانے کی اجازت نہیں )

میں اس معافی نامے میں اقرار کرتا ہوں اور لکھ کر دیتا ہوں کہ مجھے اس کوتاہی اور غلطی کا تمام زیادہ احساس ہے اور میں شرمندہ ہوں ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ آئیندہ یونیورسٹی میں پڑہائی کے دوران ایسی کوئی غلطی نہیں کروں گا۔

اس لیئے میرا معافی نامہ قبول کرتے ہوئے مجھے میرے ڈپارٹمنٹ کا کارڈ واپس کیا جائے ، جس کی بنیاد پر میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔

راجا دیپک ولد چندی رام ، ہندو۔

کلاس رول نمبر 78 ، شعبہ ماس کمیونیکیشن

سندھ یونیورسٹی جامشورو۔

 2017 مارچ 22 ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ یونیورسٹی شعبہ ماس کمیونیکیشن کے چئیرمین ڈاکٹر بدر سومرو، ھیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے سرگرم رہنماء ہیں اور اس وقت بھی ایچ آر سی پی کی مرکزی کائونسل کے میمبر ہیں۔ وہ سندھ میں بطور صوفی لاکوفی مشھور ہیں۔

 میں نے ان سے رابطہ کرکے پوچھا کہ آخر معاملہ کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ، میں نے صرف تین ماہ پہلے سندھ یونیورسٹی شعبہ ماس کمیونیکیشن کے چیئرمین کی چارج لی ہے، کلاسز میں حاضری کم ہوتی تھی ، اس لئے میں نے طلبا پر سختی کی کہ وہ کلاس اٹینڈ کریں یہ ہی وجہ ہے کہ میرے خلاف محاذ بنایا گیا ہے۔ بہر حال انہوں نے طلباء سے معافی نامے جمع کروانے والے عمل سے انکار نہیں کیا ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ، مجھ اکیلے کو سوشل میڈیا میں ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے ، حالانکہ یونیورسٹی آف سندھ کے ستاون سے زیادہ ڈپارٹمنٹس ہیں اور کسی نے بھی ہندو طالب علموں کے مانگنے کے باوجود ان کو ہولی منانے کی اجازت نہیں دی۔

ان کی یہ بات میرے لیئے مزید حیران کن تھی کہ ہندو طلباء نے ہولی منانے کی اجازت مانگی تھی مگر سندھ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کو یہ اجازت نہیں دی ۔ میں نے ان سے کہا کہ ـ فنکشنز کی تو اجازت لی جاتی ہے، کیا اب ہندوئوں کو ہولی اور مسلمانوں کو عید منانے کی بھی اجازت لینا ہوگی؟

سندھ یونیورسٹی میں اس عمل کے خلاف سوشل میڈیا پر پورے سندھ سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ میں مذہبی رواداری اور صوفی مزاج اداروں کی سطح پر بھلے پسند، نا پسند کا شکار ہو رہا ہے مگر عوامی سطح پر، خاص کر نوجوانوں میں ابھی تک شد و مد کے ساتھ موجود ہے۔

 اور پھر کچھ دن پہلے ہی کی تو بات ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں ہولی کے تہوار میں کہا تھا کہ،

ہولی رُت بدلنے کا تہوار ہے۔ دل میں محبت نہ ہو تو وہ اس پھول کی طرح ہے جس میں نہ رنگ ہے اور نہ خوشبو۔ اسلام دنیا میں سب لوگوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور تمام انسانوں کے جان و مال کو ایک جیسی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو ایک جیسے حقوق دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کسی کی عبادت گاہ پر حملہ ہو تو میں کھڑا ہوں گا۔ ہمیں مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کی حفاظت کرنی ہے۔

اگر ہولی منانا جرم ہے، پھر تو ایک حلفیہ معافی نامہ وزیر اعظم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی جمع کرانا ہو گا کہ انہوں نے حال ہی میں بڑی کشادہ دلی سے ہولی منائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).