ویزے نہ دیتے تو کیا کرتے جناب!


 پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے دور حکومت میں امریکیوں کو مسلمہ طریقہ کار کے برعکس بڑی تعداد میں ویزے جاری کرنے کے معاملہ پر دفاعی پوزیشن اختیار کررہی ہے اور جوابی وار کے طور پر سوال کیا جا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیا کررہا تھا اور یہ کہ جن امریکی سپیشل فورسز نے اچانک حملہ کرکے 3 مئی 2011 کو القاعدہ کے لیڈر اور دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کو ہلاک کیا تھا، وہ بھی ویزے لے کر پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال ہے ۔ ایک طرف یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اپنے کسی سفارت خانے کو ویزے جاری کرنے کا خصوصی اختیار تفویض کرنے کا حق رکھتاہے اور یہ اختیار بعض پابندیوں کے ساتھ دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی نجانے یہ جواب کس سے مانگا جارہا ہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیا کررہا تھا۔ اصولی طور پراس کا جواب اسی وزیر اعظم کے پاس ہونا چاہئے جو امریکیوں کو ویزے جاری کرنے کا خصوصی اختیار رکھتا تھا۔

اس افسوسناک تنازعہ کا آغاز گزشتہ دنوں امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ایک مضمون سے ہؤا جو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہؤا تھا۔ اس مضمون میں دراصل اس امریکی بحث میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیروں نے انتخابی مہم کے دوران روسی سفیر کے ساتھ ملاقاتیں کرکے کس حد تک مروجہ سیاسی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی تھی۔ تاہم اپنا مؤقف واضح کرنے کے لئے حسین حقانی نے اپریل 2008 سے نومبر 2011 تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر کام کے دوران اپنی سرگرمیوں کا حوالہ دینا ضروری سمجھا اور بتایا کہ مختلف ملکوں کے سفیر اپنے ملکوں کے مفادات کے لئے امریکہ کی صدارتی دوڑ میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کے قریبی ساتھیوں سے ملتے رہتے ہیں۔ اور یہ تعلقات بعد میں امریکہ اور ان ملکوں کے کام بھی آسکتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے یہ دعویٰ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ پاکستان کے سفیر کے طور پر انہوں نے 2008 کی صدارتی مہم کے دوران اوباما کے ساتھیوں سے جو رابطے اور دوستیاں استوار کی تھیں ، انہیں کا نتیجہ تھا کہ بعد میں وہ امریکہ کو پاکستان کی جمہوری حکومت سے تعاون پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور پاکستان کے لئے کثیر مالی امداد منظور کروائی جا سکی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ملک کی اعلیٰ قیادت کی اجازت سے جن امریکی اہلکاروں کو ویزے جاری کئے تھے، وہی بعد میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے اور اسے ہلاک کروانے کا سبب بنے۔

یوں تو حسین حقانی کے اس مضمون میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس دور میں امریکیوں کو خصوصی ویزے جاری کرنے کے بارے میں معلومات پاکستان میں زبان زد عام ہیں۔ اس کے علاوہ حسین حقانی پر فوج کے مقابلے میں سول حکومت کے لئے امریکی تعاون حاصل کرنے کے الزامات کی تحقیقات میمو کمیشن بھی کرچکا ہے۔ اسی اسکینڈل کے نتیجے میں حسین حقانی کو سفارت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ بہت کد و کاوش کے بعد پاکستان سے امریکہ جانے کے قابل ہوئے تھے۔ اس کے باوجود واشنگٹن پوسٹ میں مضمون پر امریکہ میں تو کوئی توجہ نہیں دی گئی اور کسی نے حسین حقانی کی اس دلیل پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اگر ٹرمپ کے ساتھیوں نے روسی سفیر سے ملاقات کی تھی تو کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا تھا اور اس میں امریکہ کے فائدہ کا پہلو بھی نکل سکتا ہے۔ جیسے حقانی سے دوستیاں بڑھا کر اوباما کے ساتھیوں نے اپنے اہلکار کسی مشکل کے بغیر پاکستان بھجوا دیئے اور انہوں نے امریکہ کے سب سے بڑے دشمن کو مارنے میں کردار بھی ادا کیا تو ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کے ساتھیوں اور روسی سفیر کی ملاقاتوں میں بھی ایسا ہی ’خیر‘ کا کوئی پہلو نکل آئے۔

البتہ اس کے برعکس پاکستان میں ضرور طوفان برپا ہو چکا ہے۔ اس سوال پر مسلسل بحث ہو رہی ہے کہ حقانی کے ان ’اعترافات‘ کو کس حد تک ملک سے دشمنی قرار دے کر پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی گھیرا تنگ کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے زرداری کے سابقہ دوست اور معتمد کو غدار قرار دینے کے علاوہ ان کے اس بیان سے صاف انکار کیا تھا کہ اس وقت حکومتی عہدوں پر فائز پیپلز پارٹی کے کسی رہنما نے حسین حقانی کو ویزے جاری کرنے کا کوئی اختیار دیا تھا۔ تاہم اب وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والا ایک خط منظر عام پر آگیا ہے جس میں واشنگٹن میں سفیر کو معمول کی کارروائی یعنی پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بغیر امریکی اہلکاروں کو سفارتی ویزے دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔

اس خط سے انکار تو ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے اب الزام کی گیند حقانی کی طرف لڑھکانے اور بالواسطہ ان اداروں کو رگیدنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کی اجازت کے بغیر حسین حقانی کو ویزے جاری کرنے کا اختیار تفویض ہؤا تھا۔ اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اسامہ پاکستان کیسے اور کیوں آیا اور پوچھا جا رہا ہے کہ امریکی اسپیشل فورسز کیوں کر پاکستان میں کارروائی کرنے میں کامیاب رہیں۔ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے یہ سوال داغ تو دیئے لیکن ان کے سبب آصف زرداری کی ان کوششوں کو شدید زک پہنچ سکتی ہے جو وہ گزشتہ برس کے آخر میں پاکستان واپس آنے کے بعد سے ملک کی فوجی قیادت کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کے لئے کررہے ہیں۔ تاکہ ماضی کی تلخ کلامی کی معافی تلافی ہو سکے اور مستقبل میں سیاسی اقتدار کی بندر بانٹ میں پیپلز پارٹی کو حصہ ملنے کی صورت پیدا ہو تو فوج کا دست شفقت اس کے سر پر موجود رہے۔

ایک معمول کے پالیسی فیصلہ کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے جب سابقہ صدر اور وزیر اعظم فوج کے بعض فیصلوں پر سوال اٹھا تے ہیں، تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب اسامہ کو پاکستان میں پناہ دی جارہی تھی اور جب امریکی دستے پاکستان کی خود مختاری کو روندتے ہوئے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو قتل کرکے اس کی لاش اپنے ساتھ لے جارہے تھے تو اس وقت ملک کے صدر کا نام آصف علی زرداری اور وزیر اعظم کا نام یوسف رضا گیلانی تھا۔ اب وہی جب یہ پوچھ رہے ہیں کہ ان دو واقعات کا داغ پاکستان کے ماتھے پر کیوں آوایزاں ہؤا تو پہلے یہ جواب دیں کہ وہ یہ سوال کس سے پوچھ رہے ہیں۔ کیا اس آرمی چیف سے جن کو خود پیپلز پارٹی کی حکومت نے تین سال کی توسیع دی تھی۔ لاچاری کے اس کھیل میں آپ کب تک اپنا دامن بچائیں گے۔ اور الزام تراشی کی مہم کیسے جیت پائیں گے۔

اس سے بہتر ہوگا کہ یہ مان لیا جائے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتیں اتنی ہی بے اختیار ہوتی ہیں جتنی پیپلز پارٹی کے ان بزرجمہروں کی حکومت تھی۔ اور اقرار کرلیا جائے کہ ’حضور اپنی بے اختیاری کو اختیار کا یقین دلانے کے لئے ہم نے یہ ایڈونچر کرنے کا حوصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم صرف ویزے جاری کرنے کا حکم ہی دے سکتے تھے ۔ سو ہم ویزے بھی جاری نہ کرتے تو کیا کرتے جناب‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali