وجاہت مسعود کی زمین میں…


 بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں ۔۔۔جناب وجاہت مسعود کا قول ہے کہ اساتذہ کے مصرعے پر گرہ لگانا بذات خود جسارت کے مترادف ہے ۔۔۔ہم نے سوچا کہ یہ بات ہے تو چلو جسارت کر کے دیکھتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ان کا ’’کالم‘‘ ہمارے قلم سے ۔

’’گزشتہ شب ایک نیوز چینل پر یار لوگوں کی منڈلی جمی ۔ مکالمہ احسن عمل ہے لیکن چنڈو خانے کی گپ کا گماں نہیں ہونا چاہیے ۔ فرمایا گیا کہ ایگزیکٹ سکینڈل میں لوٹی گئی تمام رقوم واپس دلائیں گے ۔ خوب کہی ، مگر بھائی ! جب آپ اپوزیشن میں جوتیاں چٹخایا کرتے تھے اور جوتوں میں دال بٹ رہی تھی ، تب آپ نے محبوبہ کو کھانا کھلانے کے لیے اس خاکسار سے مبلغ دس ہزار روپے اُدھار لیے تھے ۔ خود اپنے کھیسے سے وہ تو اب تک واپس کرنے کی توفیق نہ ہوئی ۔ پھر دوسروں کی جیب سے ڈالروں کی یہ بھاری کھیپ کیسے نکلوائیں گے کہ ’یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں ‘ ویسے ہے یا چھوڑگئی ؟

فلسفے کی رو سے کسی کا مخالف جنس کی زندگی میں در آنا یا چھوڑ جانا معاشرتی اور تمدنی حرکیات کا شاخسانہ ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ معاشرہ جامد نہیں اور اس نے سوچ اور دل کی آزادی کسی مخصوص گروہ یا طبقے کے پاس رہن نہیں رکھی ۔ اگر بنی نوع انسان کے فطری تقاضوں پر قدغن لگائی جا سکتی تو اس کارِ خیر کے لیے ضیاء الحق کے حدود آرڈیننس سے بڑا ہتھیار چشم فلک نے نہیں دیکھا۔ گویا ہمارا خود ساختہ مرتہن طبقہ سعی لا حاصل میں اپنی توانائیاں ضائع کر رہا ہے ۔ انہیں چاہیے کہ ضیاء الحق کے بیانیے کی تھاپ پر چمٹا بجانے کی بجائے مثبت معاشرتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ مثلاً اگر وہ معاشرتی ارتقا کی حرکیات کے رستے میں بارودی سرنگیں بچھانا چھوڑ کر چوخانے والی چادریں باندھ لیں اورافکارِ پریشاں پر تین حرف بھیجتے ہوئے قریہ قریہ گھوم کر لوگوں کی چارپائیاں بُننا شروع کردیں تو معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔ اس حقیقت کو پلے سے باندھ لینا چاہیے کہ جب تک کرۂ ارض پر انسان کا وجود ہے ،ابن آدم اور بنتِ حوا کا ایک دوسرے کی زندگیوں میں آنا جانا لگا رہے گا۔ اس آوک جاوک سے مراد لی جا سکتی ہے کہ معاشرے میں حیاتیاتی سرگرمیاں جاری ہیں ۔ احتیاط یہ لازم ہے کہ حیاتیاتی سرگرمیوں سے آبادی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ہم پہلے ہی سوا تین کروڑ سے بیس کروڑ ہو چکے ہیں ۔ اوپر سے حیاتیاتی سرگرمیوں کی بہتات سے کاکے پہ کاکا آ رہا ہے ۔ ہمیں کچھ حیا کرنی چاہیے ’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟‘

کیدو کا استحصالی بیانیہ حیاتیاتی سرگرمیوں سے خوف کھاتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ معاشرتی ارتقا کی حرکیات اور حیاتیاتی سرگرمیوں کے خلاف کیدو یا ضیاء الحق کا ناقابل رشک کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے لوگوں کو جدید میڈیکل سہولیات سے روشناس کرائیں ۔ اگر خود بھی دانش کی فصیل سے اتر کر اس کی تھوڑی بہت شُد بُد حاصل کر لیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔یہ کیسی منافقت ہے صاحب کہ آپ گھر میں حیاتیاتی سرگرمیوں سے آبادی بڑھاتے جائیں اور عورتوں کے حقوق کا ذکر آنے پر ثقافت کا گھونگھٹ نکال لیں ۔ داستانِ حرم کی رنگینی اپنی جگہ مگر کبھی رک کر سوئے نشیمن بھی دیکھ لینا چاہیے کہ ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکے ہیں ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے معاشرت کی سمت طے نہیں کی ، مل جل کر رہنے کے لیے خطوط بھی نہیں کھینچے ، البتہ چھ عشروں میں نظریہ تکفیر کے ارتقاء اور حیاتیاتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافے کی خاطر کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہم نے اجتماعیت فقط اسی بیانے میں دکھائی ہے ۔مابین زوجین ذہنی ہم آہنگی ہو یا نہ ہو مگر کثرت اولاد کا جلوہ ضرور دکھایا جا تا ہے ۔ بدقسمتی سے یہاں علمی و فکری جستجو کی تحریک تو شروع نہ ہو سکی لیکن غول بیابانی کا طوفان ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔

تو صاحب ! آپ سے یہ کتھا کہنے کی غرض یہ ہے کہ اس آوک جاوک سے کسی کو دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے ۔ حکماء نے کیا بھلا سا نام رکھ چھوڑا ہے اس کا ۔۔۔’محبت‘ ۔ محبت سے انحراف آئین سے انحراف کے مترادف ہے ،لیکن ہم ہر خوبصورت جذبے کو مسخ کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں دو اقسام کی محبت کا چلن عام ہے ۔ ایک طبقہ مخالف جنس کی محبت میں گرفتار ہے تو دوسرا لا علمی کے عشق میں گریباں چاک کیے ہوئے ہے ۔ عارضہ عشق کی دوا نہیں اور زعم تقویٰ کا علاج نہیں ، لیکن محبت کی رسوائیاں اور پارسائی کی نمائش برابر قرار نہیں دی جا سکتیں ۔ فرق یہ ہے کہ زلف گرہ گیر کے اسیر نہتے ہیں اور لا علمی کی الفت کا پرچار کرنے والے مصلحین مصلح ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ رگ گل کو بلبل کے پروں سے باندھنے والے خالی ہاتھ ہیں اور غیر جمہوری بیانیے کے پشتی بان بندوق بردار۔ یہ عدم مساوات ہماری تمدنی زندگی کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے ۔ اگر جمہوری بندوبست کے پشتی بان یہ نیکی کر جائیں کہ اول الذکر محبت سے انحراف اور آخر الذکر محبت کی اسیری پر آئین کے آرٹیکل چھ کا اطلاق کردیں تو آنے والی نسلوں پر یہ ان کا احسان ہوگا۔

جہاں تک اول الذکر یعنی جینوئن محبت کا تعلق ہے تو یہ مرد اور عورت کے درمیان عمرانی معاہدہ ہے ، جس کے بعد زندگی نثر سے نظم میں ڈھل جاتی ہے ۔ تاہم جدید آوک جاوک مذکور کے تناظر میں تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ سولہویں نہیں ، اکیسویں صدی ہے ۔ محبت کے قواعدوضوابط تبدیل ہو گئے ہیں ۔ فی زمانہ غالبؔ کا بیانیہ نہیں چلتا کہ ’بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے ‘ یہ ابرار الحق عہد ہے ’ آ جاؤ کڑیو ہانڑدیو ، کر لَو سانوں جوائن‘ ۔ یہ نامہ ہائے شوق کا نہیں ، آئی پیڈ کا زمانہ ہے ۔ ڈیجیٹل محبت میں ہر لمحہ ہر کسی کو رابطہ میسر ہے ۔ نامہ بر کی محتاجی نہ منتِ درباں کی احتیاج۔ اب محبت میں افلاطونی چک پھیریا ں اور اساطیری حکایات نہیں چلتیں ، اب تو یہاں بھی قوموں اور گروہوں کی طرح اصول کی بجائے مفاد کا سکہ چلتا ہے ۔ کبھی دراز پلکوں کی چلمنوں میں حیا کھڑی مسکراتی تھی ، اب ان چلمنوں سے بے باکی کے ساتھ بینک بیلنس کو تاکا جاتا ہے ۔ آج کی جدیدیت میں الفت تمام عمر ایک ہی کھونٹے سے بندھے رہنے کا نام نہیں ۔ ادھر آپ کے اقتصادی حالات خراب ہوئے ، اُدھر محبوب دل کا شٹر گرا کر ’تو نہیں اور سہی ‘ کے بیانیے کی تھاپ پر رقصاں ہوا۔ کہنا چاہیے کہ کم از کم اس شعبے میں جدت سے برگشتگی نے ہمیں بالشتیا نہیں بنایا۔ تو صاحب ! جیسے محبوب بدلتے ہیں، ایسے وقت بھی بدلتا ہے ۔ کبھی کوئی کسی کو کھانا کھلانے کے لیے ادھار لیتا ہے اور کبھی اسے قیمتی پلاٹ یوں الاٹ کرتا ہے ، جیسے دکان سے چاکلیٹ لے کر دی ہو ۔ سمجھ لینا چاہیے کہ اب اعتماد نہیں ، دولت محبت کی فصیل ہے ۔ اس فصیل میں رخنہ پڑ جائے تو غنیم کو در اندازی کا موقع ملتا ہے ۔ اسے جدیدیت ، تمدنی ارتقا کی حرکیات اور حیاتیاتی سرگرمیوں کا نتیجہ سمجھ کردل بڑا کرنا چاہیے اور آہیں بھرنے کی بجائے خود اپنے دل کی بھی ہجرت کا ساماں کرنا چاہیے ۔

ہجرت سے یاد آیا ۔ بھائی منور حسن ! افغانستان کی گل پوش وادیاں کب سے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر آپ کی راہ تک رہی ہیں ۔ آخر اس ہجرت خود اختیاری میں اب کون سا امر مانع ہے ۔ اگر کرایہ وغیرہ کا کوئی مسئلہ ہے تو یہ خادم کس دن کام آئے گا؟ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).