پاک فوج کا نیا بین الاقوامی کردار واضح ہونا چاہیے


وزیر دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی ہے کہ حکومت پاکستان نے سعودی حکومت کی درخواست پر پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اسلامی ملکوں کے اتحاد کی قیادت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ انہوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ دو حکومتوں کے درمیان طے پایا ہے ، اس لئے جنرل راحیل کو انفرادی حیثیت میں حکومت یا فوج سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاک فوج کے کسی سربراہ کو ریٹائرمنٹ کے چند ماہ بعد ہی ایک غیر ملک میں کسی فوج کی قیادت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اگر وزیر دفاع کا یہ بیان درست ہے کہ جنرل راحیل کو نجی حیثیت کی بجائے حکومتی سطح پر طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں اس عہدہ پر روانہ کیا جا رہا ہے تو اس فیصلہ سے پاک فوج کو ایک نیا کردار تفویض کرنے کے عمل کا آغاز ہؤا ہے۔

اس معاملہ کی اہمیت اور انوکھی نوعیت کے اعتبار سے حکومت کا فرض تھا کہ وہ بالا ہی بالا سعودی خواہش کی تکمیل کرنے کی بجائے ، یہ معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کرتی تاکہ عوام کے نمائیندے اس اہم موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے اور لوگوں کو بھی ان وجوہ کا علم ہو سکتا جن کی بنیاد پر حکومت نے ایسا عجیب فیصلہ کیا ہے جس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستانی فوجی دستے اقوام متحدہ کے امن مشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تاہم ان کی قیادت حاضر سروس افسر کرتے ہیں۔ اسی طرح حکومت اگر کسی نازک صورت میں کسی دوست ملک کی مدد کے لئے فوج روانہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو بھی ایسی کمک کسی ایسے افسر کی نگراانی میں روانہ ہوتی ہے جو پاک فوج کے ڈسپلن کا حصہ ہو تا ہے اور اپنی ہائی کمان کو جوابدہ بھی ہوتا ہے۔ تاہم اس معاملہ میں حکومت نے نومبر میں فوج سے ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کو ایک متنازعہ اور غیر واضح فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کا اختیار دیاہے۔ اس طرح جنرل راحیل شریف حکومت کے فیصلہ کے تحت سعودی عرب جائیں گے لیکن وہ پاک فوج کے ڈسپلن اور قواعد و ضوابط کے پابند نہیں ہوں گے۔ یہ صورت حال مستقبل میں ملک اور فوج کے لئے نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے دسمبر 2015 میں یک طرفہ طور پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک اسلامی فوجی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس میں شامل ملکوں کا اعلان بھی شہزادہ محمد کی طرف سے کیا گیا تھا اور پاکستان سمیت بیشتر ملکوں کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ اس اتحاد میں شامل ہیں اور اس حیثیت میں ان کا کیا کردار ہو گا۔ شہزادہ محمد نے اسلامی فوجی اتحاد قائم کرنے کا شوشہ یمن کے خلاف جنگ میں دوسرے مسلمان ملکوں کے عدم تعاون کی روشنی میں چھوڑا تھا۔ اس فوج کے بارے میں سعودی وزیر دفاع کے ذہن میں ضرور کوئی خاکہ ہو گا لیکن اس کے کوئی واضح مقاصد اور تنظیمی ڈھانچہ کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئی ہیں۔ شروع میں اس اتحاد میں 34 ملک شامل تھے لیکن اب بتایا جا رہا ہے کہ اس میں 41 ممالک شامل ہو چکے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کو اس اتحاد کا سربراہ بنانے کی بات پہلی بار جنوری میں سامنے آئی تھی ، جب وہ اچانک شاہی مہمان کی حیثیت سے سعودی عرب گئے تھے اور اعلیٰ سرکاری پروٹوکول میں ان کا استقبال کیا گیا تھا۔ یہ سوال بالکل علیحدہ ہے کہ سعودی عرب کیوں انہیں اس نام نہاد اتحاد کی کمان سونپنا چاہتا ہے لیکن یہ بات جواب طلب ہے کہ پاکستانی حکومت کیوں سعودی عرب کے ایک غیر واضح ایڈونچر کا حصہ بننا چاہتی ہے۔ ملکوں کے درمیان دوستیاں بعض اصولوں اور قواعد و ضوابط کی پابند ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر پاکستانی فوج کے ایک سابقہ سربراہ کی خدمات سعودی عرب کے حوالے کی جا رہی ہیں تو اس کی تفصیلات اور وجوہات جاننا عوام کا حق ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کا کردار اور اس کے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ وہ ایران کے سیاسی اور عسکری رسوخ کو محدود کرنا چاہتا ہے اور شام میں سعودی نواز حکومت کے قیام کا خواہشمند ہے۔ کسی حد تک یہ حکمت عملی شام کی خانہ جنگی کی وجہ بھی بنی ہے جس کے نتیجے میں اس ملک کی آدھی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو ئی ہے اور اب تک اس خطے میں امن قائم ہونے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔

پاکستان اگر سعودی قیادت میں بننے والے اسلامی اتحاد کے لئے قیادت فراہم کررہا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اتحادی فوج کیسے قائم ہوگی، اس کے لئے کون فوجی دستے اور وسائل فراہم کرے گا اور ایک مرتبہ منظم ہونے کے بعد یہ فوج کس کے خلاف جنگ کرے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غیر واضح سیاسی سلوگن سے ذیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس قسم کی جنگ پاکستان اور افغانستان میں بھی ہو رہی ہے اور مشرق وسطیٰ کے متعدد ملک بھی اس جنگ کا حصہ ہیں بلکہ اب کچھ عرصہ سے ترکی بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور وہاں بھی یہ جنگ شروع ہے۔ سب ملکوں کی فوجیں اپنے طور پر دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں، تو یہ واضح ہونا چاہئے کہ اس اسلامی اتحاد کی فوج کس کام آئے گی۔

پاکستان میں حرمین شریفین کی حفاظت کے نام پر لوگوں کے جذبات کو انگیختہ کیا جاتا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ کے موقع پر بھی اس قسم کی نعرے بازی سننے میں آئی تھی۔ یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ حرمین شریفین اگرچہ سعودی عرب میں موجود ہیں لیکن سب مسلمان ملک ان مقامات کے تقدس کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی فوجی صلاحیت پاکستان سے کئی گنا بہتر ہے۔ اس کے پاس دنیا کے بہترین ہتھیار اور جنگی ساز و سامان موجود ہے۔ اس وقت جنگیں فوجیوں کی تعداد کی بجائے ٹیکنالوجی اور عسکری آ لات کی کارکردگی پر لڑی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے سعودی عرب کافی حد تک خود مختار ہے اور وہ اپنی دولت کے بل پر امریکہ سے جدید ترین اسلحہ حاصل بھی کرسکتا ہے۔

حیران کن بات ہے کہ ملک کے وزیر دفاع اسلامی فوج کے خد و خال اور مقاصد کو جانے بغیر یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت ایک ریٹائرڈ جنرل کی خدمات سعودی عرب کے حوالے کررہی ہے۔ سعودی عرب سمیت کسی بھی دوسرے ملک سے اس قسم کا تعاون پاکستان کے لئے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی متعدد وجوہات کی بنا پر قوت پکڑنے والے عسکری گروہوں سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ کوئی بھی غلط فیصلہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جد و جہد پر منفی اثرات کا سبب بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali