روحانیت بیچنے والے
دنیا کے ہر دور‘ ہر قوم اور ہر ملک میں جہاں کچھ ایسے سنت‘ سادھو‘ درویش اور صوفی ہوتے ہیں جو لوگوں کو پرامن زندگی گزارنے اور بہتر انسان بننے کی ترغیب دیتے ہیں وہیں کچھ ایسے جعلی پیر اور روحانی پیشوا بھی ہوتے ہیں جو روحانیت بیچتے ہیں۔ ایسے جعلی پیر سادہ لوح مردوں اور عورتوں کو ورغلاتے ہیں اور ان کی عقیدت کا ناجائز فائدہ اٹھااتے ہیں۔ جب ہم ایسے جعلی پیروں کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کلٹش شخصیت CULTISH PERSONALITY کے مالک ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر میں مندرجہ ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
ایسے لوگوں کی شخصیت میں ایک خاص سحر ہوتا ہے جو عوام و خواص کو مسحور کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ وہ اپنی باتوں سے لوگوں کا‘ خاص طور پر سادہ لوح عورتوں کا‘ دل جیت سکتے ہیں۔
ایسے لوگ بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں۔ انہیں کامیاب ہونے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ انہین دولت‘ شہرت اور عورت کا نشہ سا ہو جاتا ہے اور وہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے لگتے ہیں۔
ایسے لوگ آہستہ آہستہ اپنے مریدوں‘ چیلوں اور پیروکاروں کی زندگیوں کے فیصلے اور ان کو تابعداری کی تلقین کرنے لگتے ہیں۔
جوں جوں ایسے لوگ زیادہ طاقتور ہوتے ہیں وہ اس طاقت کا ناجائز استعمال کرنے لگتے ہیں۔
آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ مذہب اور روحانیت کو بیچنے لگتے ہیں۔ وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ انہیں الہام ہوا ہے اور خدا یا کسی بزرگ نے انہیں خواب میں ایک مشورہ یا ایک حکم دیا ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو وہ خواب یا حکم بتائیں۔چونکہ وہ مرید اور پیروکار ان پر اندھا ایمان لے آتے ہیں اس لیے ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش اور خواب کو پورا کرنے لگتے ہیں۔
آخر ایک دن ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے اور وہ قانونی‘ معاشرتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن ان کی قلعی کھلنے تک ہزاروں لاکھوں لوگ گمراہ ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنی دولت ‘ عزت اور ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھ کھلنے تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور پھر انہیں اس بحران سے نکلنے میں بہت دیر لگتی ہے۔
جب میں بیسویں صدی کی کلٹش شخصیات کے بارے میں سوچتا ہوں تو سب سے پہلے جس شخصیت کا خاکہ میرے ذہن میں ابھرتا ہے وہ گریگری راسپوتین GREGORY RASPUTIN ہے۔ وہ سائیبیریا کے صحرا میں پیدا ہوا تھا اور روس کا مشہور اور بدنامِ زمانہ شخص بن کر مرا۔ اس نے اپنئ زندگی کا آغاز پادری کے طور پر کیا تھا لیکن اس کی شخصیت میں ایسی کشش اور روحانی طاقت تھی کہ وہ مشہور ہوتا چلا گیا۔ وہ کئی حوالوں سے ایک غیر معمولی انسان تھا۔ لوگ اس سے جتنی محبت کرتے تھے اتنی ہی اس سے نفرت بھی کرتے تھے کیونکہ وہ کسی بھی قانونی یا اخلاقی قدر کو توڑنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کرتا تھا۔ عوام کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ ہپناٹزم کا ماہر تھا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس کی شخصیت میں روحانی طاقت ہے جو مریضوں کو شفایاب کر سکتی ہے۔
جب روس کے بادشاہ نکولس NICHOLASاور ملکہ ایلگزنڈراALEXANDRA کو پتہ چلا کہ ان کا بیٹا ہیموفیلیاHEMOPHILIA کے مرض میں گرفتار ہے تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ ایک دفعہ بیماری کی وجہ سے بچے کا خون بہنا شروع ہوا اور وہ بند ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ ماں باپ کو خطرہ لاحق ہوا کہ بچہ مر ہی نہ جائے۔ انہوں نے دربار کے سب نامی گرامی ڈاکٹر‘ طبیب اور حکیم بلائے لیکن وہ سب مل کر بھی بچے کا علاج نہ کر سکے۔ آخر ملکہ کی ملازمہ نے مشورہ دیا کہ راسپوتین سے مشورہ کیا جائے۔ جب راسپوتین آیا تو اس نے پہلے سب ڈاکٹروں‘ حکیموں اور طبیبوں کو کمرے سے نکال دیا۔ اور پھر وہ بچے کے ساتھ اکیلے میں باتیں کرنے لگا۔
آدھ گھنٹے کے بعد جب والدین اور ڈاکٹر کمرے میں آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ نہ صرف بچے کا خون بہنا بند ہو گیا تھا بلکہ وہ راسپوتین کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ راسپوتین نے جب بچے کی جان بچائی تو ملکہ اتنی متاثر ہوئی کہ وہ راسپوتین کی مرید بن گئی۔
اس واقعہ کے بعد راسپوتین کا ملکہ کے محل میں آنا جانا بڑھ گیا۔ وہ نہ صرف بچے کا علاج کرتا بلکہ حکومت کے معاملات میں بھی دخل اندازی کرتا جس سے بادشاہ ناراض ہو جاتا لیکن ملکہ اور شہزادے کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکتا۔ آہستہ آہستہ راسپوتین کے دشمن بڑھتے گئے۔اس پر کئی قاتلانہ حملے بھی ہوئے جن سے وہ پراسرار طریقے سے بچ جاتا۔ لیکن آخر کار اس کے دشمنوں نے اسے قتل کر دیا۔
بعض مورخین کا خیال ہے کہ راسپوتین نے زارِ روس کی تباہی اور لینن کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ راسپوتین اتنا مشہور اور بدنام ہوا کہ مرنے کے بعد وہ روس کے دیو مالائی ادب کا حصہ بن گیا۔ آج بھی بونی ایم BONEY M گروپ کا گانا ساری دنیا میں گایا جاتا ہے جس کا ایک شعر ہے
RA RA RASPUTIN, RUSSIA’S GREATEST LOVE MACHINE
RA RA RASPUTIN, LOVER OF THE RUSSIAN QUEEN
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے راسپوتین کے روس کی بیسیوں عورتوں سے رومانوی اور جنسی تعلقات تو تھے لیکن روس کی ملکہ کے ساتھ نہیں تھے۔ کلٹش شخصیت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی سوانح میں حقیقت اور افسانہ‘سچ اور جھوٹ آپس میں ایسے خلط ملط ہو جاتے ہیں کہ ان کو جدا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
بیسویں صدی میں امریکہ میں بھی کئی کلٹش شخصیات مشہور اور بدنام ہوئیں جن میں سے بعض کے چند سو اور چند ہزار اور بعض کے چند لاکھ مرید اور پیروکار تھے۔ ان میں سے ایک سنگ منگ مون SUNG MYUNG MOON ہے۔ جس کے پیروکار ’مونی‘ کہلاتے ہیں۔ وہ مون کو اپنا پیغمبر سمجھتے ہیں۔ مونی مون پر اتنا ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ایک مجمع میں لاکھوں پیروکاروں کی ایک ہی وقت شادی کر دیتا ہے۔ بعض دفعہ تو میاں بیوی ایک دوسرے کی زبان سے بھی واقف نہیں ہوتے۔
شمالی امریکہ کی ایک اور کلٹش شخصیت ڈیود برگ DAVID BERG تھی۔ اس نے اپنے فلسفہِ حیات میں مذہب اور موسیقی‘ منشیات اور روحانیات کو یکجا کر دیا تھا۔ وہ اپنی پیروکار عورتوں کو طوائف بننے کا مشورہ دیتا تھا۔ اس گروہ کا زوال اس وقت شروع ہوا جب برگ نے بچوں سے بھی جنسی تعلقات کو جائز قرار دے دیا۔ دھیرے دھیرے برگ کے پیروکاروں کو جنسی بیماریوں نے آ لیا اور سارا گروہ تتر بتر ہو گیا۔
امریکہ میں ایک اور کلٹش شخصیت نے شہرت پائی جا کا نام ڈیوڈ کریش تھا DAVID KORESH تھا۔ کریش سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ SEVENTH DAY ADVENTIST کے روحانی گروہ سے تعلق رکھتا تھا۔ کریش کا دعوہ تھا کہ وہ آخری مسیحا ہے۔ اس نے اپنے پیروکاروں کو بہت سی شادیاں کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ کریش کو اس وقت قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے پیروکاروں نے اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا۔ آخر کریش کے پیروکاروں کا پولیس سے مقابلہ ہوا اور 19 اپریل 1993 کو کریش کے کمیونCOMMUNE کو آگ لگا کر جلا دیا گیا۔
ہندوستان اور امریکہ کی ایک اور مشہور کلٹش شخصیت گرو راجنیشGURU RAJNEESH تھی۔ راجنیش ایک زمانے میں ہندوستان میں فلسفے کا پروفیسر تھا۔ اس کی ساحرانہ شخصیت نے ہزاروں لوگوں کو اپنا مرید بنا لیا تھا۔ اس نے جب آزادانہ جنسی رویوں کی شمع جلائی تو ساری دنیا سے پروانے آنے لگے۔ جب اس نے ہندوستان کی مدر ٹریساMOTHER TERESA اور موہن داس گاندھی MOHAN DAS GANDHIجیسی محترم شخصیات پر تنقید کرنے شروع کی تو ہندوستان نے اسے ملک بدر کر دیا۔
ہندوستان سے نکل کر گرو راجنیش نے امریکہ میں ڈیرے ڈالے۔ شروع میں تو ہزاروں سرمایہ داروں اور آزادانہ طرذِ زندگی گزارنے والوں نے اس کا ساتھ دیا اور اس نے 99 رولز رائسز99 ROLLS ROYCES کا ایک کارواں تیار کیا لیکن پھر اس پر برا وقت پڑا۔ اس پر کئی مقدمات چلے اور ایک عدالت کے جج نے اسے غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکتوں کی وجہ سے ملک چھوڑنے کو کہا۔ المیہ یہ تھا کہ راجنیش کو امریکہ ہی نہیں ہندوستان بھی اپنا شہری قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ زندگی کی آخری دنوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھتا رہا اور آخر 1990 میں فوت ہو گیا۔ بعض محققین کی رائے ہے کہ راجنیش کی موت ایڈزAIDS کی وجہ سے ہوئی تھی۔ مرنے کے بعد راجنیش کا آشرم ہندوستان میں بنایا گیا جس کا رہنما ایک کینیڈین مرد ہے جو سوامی مائک SWAMI MIKE کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ ایک مشہور کنیڈین جج کا بیٹا ہے۔ وہ آشرم اتنا مقبول ہے کہ راجنیش کے مرنے کے کئی سال بعد بھی اس کی سالانہ آمدنی کروڑوں روپے ہے۔
یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جب ہم کلٹش شخصیات کی سوانح عمریاں پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں سائنس اور نفسیات‘ معاشیات اور عمرانیات کی ترقی اور انسانی شعور کے ارتقا کے باوجود ساری دنیا میں لاکھوں انسان اتنے سادہ لوح ہیں کہ وہ ان شخصیات کے سحر میں آ کر اپنی جان اور مال حتیٰ کہ اپنا ایمان تک قربان کر دیتے ہیں۔
- چھ سالوں میں چھ سو کالم لکھنے کے چھ راز - 13/02/2024
- ڈاکٹر بلند اقبال: ایک ادبی محقق، مورخ اور دانشور - 07/02/2024
- کیا آپ خوشی کے رازوں سے واقف ہیں؟ - 04/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).