کیا واقعی نورین لغاری داعش میں شامل ہوئی ہے؟


(رحمت علی تنیو)۔

سندھ یونیورسٹی سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی ایک طالبہ کی گمشدگی کے بارے میں خبریں مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں۔ نورین لغاری جو سندھ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی بیٹی ہے، 10 فروری کو معمول کے مطابق اپنے گھر سے یونیورسٹی گئی۔ شام ہوگئی مگر وہ واپس گھر لوٹ کر نہ آئی، اس صبح یونیورسٹی کی کلاسوں کے بعد اسے نہیں دیکھا گیا۔ صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کی پولیس کا کہنا ہے کہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز جامشورو یعنی لمس کی سال دوم کی ایک طالبہ جو کچھ عرصہ پہلے لا پتہ ہوگئی تھی، اپنی مرضی سے دہشت گرد گروپ داعش میں شامل ہوگئی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ نورین کو اغوا کیا گیا ہے اور دوسری طرف ان کی دہشت گرد گروپ میں شمولیت کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو یہاں جامشورو میں واقع تین یونیورسٹیوں (لمز ، مہراں اور سندھ یونیورسٹی) میں کئی واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

اس سال کے ابتدا میں ہی سندھ یونیورسٹی کی طالبہ نائلہ رندکی مبینہ خودکشی، جہانزیب آرائیں کا پوائنٹ بس سے گر کر جاں بحق ہونا اور اس کے بعد شائستہ میمن کی بس حادثے میں موت۔ ان واقعات کے بارے میں بحث بند نہیں ہوئی تھی کہ لمس کی طالبہ نورین جبار کے لاپتہ ہونے کی خبر سے سندھ کے اندر ایک نئی قسم کی بحث چھڑ گئی ہے۔

نورین کے لاپتہ ہونے والے دن ہی ان کے والد جبار لغاری نے حیدر آباد کے تھانے حسین آباد میں گمشدگی کی ابتدائی رپورٹ درج کروائی۔ پانچ دن کے بعد اس تھانے کی پولیس نے ڈائیوو بس کی بکنگ لسٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 10 فروری کو حیدرآباد سے لاہور کے لئے ایک ٹکٹ مسمات موطن زہرا نامی خاتوں کی بک تھی۔ جس پر نورین کا موبائل نمبر لکھا ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق 10 فروری کو نورین جبار پونے دو بجے کسی جہادی گروپ سے رابطے کی وجہ سے اپنی مرضی سے لاہور روانہ ہوئی۔بس اڈے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں پردہ دار لڑکی دکھائی گئی ہے، جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ لڑکی نورین ہے۔ مگر نورین کے والد جبار نے پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نورین نہیں ہے۔

نورین کے لاپتا ہونے کے ٹھیک دس دن بعد 21 فروری کو نورین کے بھائی محمد افضل لغاری کو نامعلوم لڑکی اسوہ جتوئی نامی لڑکی کے فیس بک آئی ڈی سے میسج موصول ہوا۔ جس میں لکھا تھا کہ ’میں نورین ہوں، امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوںگے۔ میں خلافت کی سرزمین پر پہنچ گئی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ آپ لوگ بھی یہاں جلد پہنچ جاﺅ گے۔“پولیس کے مطابق نورین کی ساری سہیلیوں سے معلومات اکٹھی کی گئی ہیں۔ جس فیس بک آئی ڈی سے نورین کے بھائی کو پیغام ملا، وہ اس ملک سے آپریٹ ہو رہی ہے۔

لمز کے وی سی ڈاکٹر نوشاد نے میڈیا سے بات کرتے ہوے بتایا کہ نورین مذہبی لڑکی تھی، جو اکثر دوسری لڑکیوں سے دور رہتی تھی۔نورین کی گمشدگی کے حوالے سے کئی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ پولیس کچھ اور کہہ رہی ہے تو لڑکی کا باپ کچھ اور بتا رہا ہے۔ وہ بتا رہا ہے کہ نورین انتہا پسند نہیں تھی اور وہ سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ دوسری طرف حیدرآباد پولیس کے ایس ایس پی عرفان بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ جواں سال لڑکی داعش کے نظریات سے متاثر تھی اور وہ اپنی رضا سے اس گروپ میں شامل ہونے کے لیے چلی گئی۔

نورین کے معاملے میں بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے جو نائلہ رند کے واقعے کے بعد ہوا تھا۔ پہلے تو ایک موقف اختیار کیا گیا اور بعد میں دوسرا موقف سامنے آنے لگا۔ اس معاملے کے حوالے سے جو بھی باتیں سامنے آ رہی ہے وہ اچھا تاثر پیدا نہیں کر رہیں۔ نورین والے اس معاملے کا تعلق محض ایک گھرانے سے نہیں، بلکہ یہ پورے سندھی سماج کا مسئلہ ہے۔ اس وقت کئی لوگ اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ نورین کو اغوا کر لیا گیا ہے یا وہ خود اپنی مرضی سے جہاد کے راستے پہ چل پڑی ہے؟۔

اگر نورین کے فیس بک سے بھیجے ہوئے پیغام کی غیرجانبدارانہ تصدیق ہوتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ نورین ’خلافت کی سرزمین‘ پر پہنچ گئی ہے تو پھر یہ بات واضح ہے کہ سندھ کی درس گاہوں میں انتہا پسند نیٹ ورک موجود ہے، جو تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کے برین واش کر رہا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ کام اتنی آسانی سے ہونے والا نہیں اس کے پیچھے منظم نیٹ ورک کا ہاتھ ہے۔ اب تعلیمی اداروں میں ایسے نیٹ ورک کی موجودگی کا سبب طلبا سیاست پر پابندی لگانا ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبا سیاست پر پابندی لگانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ خلا انتہاپسند عناصر بھر رہے ہیں۔

دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق حالیہ عرصہ میں صوبے کے مختلف علاقوں کے شہرت یافتہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم لاپتہ ہونے والی لگ بھگ ایک درجن لڑکیاں، ان کے خیال کے مطابق داعش میں شامل ہو چکی ہیں۔ سندھ کے اندر شکارپور، جیکب آباد اور سیہون میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں سے انتہاپسند نیٹ ورک کے شواہد ملے ہیں۔ اب تو شکارپور اور اس کے آس پاس کے علاقے وانا وزیرستان بن گئے ہیں۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی مذہبی اور انتہا پسند عناصر کی روک تھام کے لیے ریاستی ادارے اور اس کے ساتھ تعلیمی ادارے ایکشن میں آئیں۔ نہیں تو عنقریب سنگین نتائج بھگتنے کے لیئے تیار ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).