مائی کولاچی سے کراچی تک کا سفر


تاریخ دان ایچ ٹی لیمبرک اپنی کتاب سندھ کے جامع تعارف میں لکھتے ہیں کہ جب سکندر اعظم کے امیر البحر نیارکس نے موجودہ کراچی کے نزدیک ایک بندر گاہ پر قیام کیا اور اس بندرگاہ کو نیارکس نے مورنٹو بارہ کا نام دیا جس کا مطلب ہے عورت کی بندر گاہ اور یہ خیال ہے کہ یہاں پر ایک بہادر عورت کی حکمرانی تھی۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ دو صدیاں پہلے بحیرہ عرب کے کنارے آباد لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری تھا اور اس بندر گاہ پر بسنے والے مچھیروں کی بستی کو مائی کولاچی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس بہادر عورت مائی کولاچی کے حوالے سے مشہور ہے کہ اس کا شوہر اور بستی کے مچھیرے سمندر کی بے رحم موجوں اور طوفان میں پھنس گئے اور اس بہادر اور عقل مند عورت نے سمندر میں جاکے ان کی جان بچا کے اپنے آپ کو تاریخ میں معروف کردیا۔

وقت کی رفتار سے مائی کولاچی سے شہر کراچی بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر سے لوگوں کے نام اور یادیں جڑتی گئیں۔ کراچی سے کسی نہ کسی حوالے سے ہر ایک پاکستانی کی یادیں جڑی ہیں۔ کسی نے کراچی کی وہ روشن راتیں، ہرے بھرے درخت، سمندر کی لہریں، پرندے اور کلفٹن اور کیماڑی کے عروج کو زوال میں بدلتے دیکھا۔ تو کسی نے گولیوں اور خوف و ہراس والے کراچی میں آنکھ کھولی ہے اور پلک جھپکنے میں کراچی کو کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور مسائل کے گڑھ میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ آج کل کراچی کا جب بھی ذکر ہوتا ہے،اس کی شروعات کچرے ، آلودہ سمندر، بھتہ خوری،چھینا جھپٹی، دہشت گردی ،انتہاپسندی، سیاسی اور مذہبی منافرت، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، ٹریفک جام سے ہوتے ہوئے انجام موت پر ہوتا ہے۔ کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں پر غیر ملکیوں سے لے کرپاکستان کی ساری قومیتیں آباد ہیں۔ جہاں پیار محبت کے گیت گائے جاتے تھے۔ آج وہاں نفرتوں کے بیچ بوئے جا چکے ہیں۔ جہاں سیاسی اور مذہبی منافرت منع تھی آج اس کا عروج نظر آ رہا ہے۔ جہاں آزاد نظمیں پڑھی جاتیں تھیں آج گلے کاٹے جا رہے ہیں۔

چاروں طرف ہیں شعلے، ہمسائے جل رہے ہیں
میں گھر میں بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں

کراچی کے دعویدار تو بہت سارے ہیں مگر لگتا ہے کہ وفادار کوئی نہیں۔ کراچی کے مینڈیٹ کی بات کرنے والوں نے بھی کراچی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور نفرتوں کی ایسی شروعات کی کہ سب کچھ جلا کے راکھ کردیا۔ باقی رہے بغیر مینڈینٹ والے، انھوں نے بھی سندھ سمیت کراچی کو موہنجو داڑو بنانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اربوں روپے کراچی کے نام پر خرچ ہوئے مگر آج تک وہ نظر نہیں آئے۔ آج کے کراچی کو مسائلستان کہا جائے تو کوئی ہرج نہ ہوگا۔ ہر طرف مسئلے ہی مسئلے ہیں۔ آبادی بڑھتی جا رہی ہے،شہر اور گاؤں ایک جیسے ہو چکے ہیں۔ چائنا کٹنگ نے تو ایسا کمال کیا ہے کہ کراچی کو لنڈا بازار بنا دیا ہے۔ پانی تو نا پید ہو چکا ہے۔ سکول،یونیورسٹیاں،پارک اور ہسپتالوں کا تو اللہ حافظ ہے۔ تفریح کے مواقع تو ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ۔ تفریح کی واحد جگہ سمندر ہے جو آلودہ ہو چکا ہے۔ امن و امان کی کیا بات کی جائے لگتا ہے ساری عمر رینجرز ہی تعینات رہے گی۔ اس وقت کراچی ایک ایسا بم بن چکا ہے جس میں نفرتوں اور محرومیوں کا بارود بھرا جا رہا ہے اور یہ بھی بہت حیرت کی بات ہے کہ کراچی شہر کی کچرا مہم میں سندھ حکومت، ایم کیو ایم کی مقامی حکومت کچرا اٹھانے میں ناکام رہی۔ پتہ نہیں اس شہر جسے کراچی کہتے ہیں اس کے لوگ اس آلودہ ماحول میں سانس کیسے لیتے ہیں۔ اور یہ بھی بڑا سوال ہے کے اس ماحول میں پرورش پانے والے ہمارے مستقبل کے معمار آگے جاکے کس طرح کے انسان بنیں گے۔

جلا ہے شہر تو کیا کچھ نہ کچھ تو ہے
کہیں غبار کہیں روشنی سلامت ہے

کیا یہ نفرتوں اور خوف کی فضا میں سانس لینے والے، کبھی محبتوں کی بہاریں دیکھ پائیں گے؟ اس وقت کراچی کو ہم سب کی ضرورت ہے کہ ہم اس کے مسائل پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں اور ان مسائل کے حل کے لئے عملی اقدامات کریں۔ سیاسی،مذہبی منافرت اور آپسی اختلافات کو بھول اس شہر کراچی کی خوبصورتیوں کو بحال کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ان نفرتوں کے ایٹم بم کو پیار اور محبت کے پیغام سے ناکارہ بنائیں۔ اور صرف باتیں نہ کرتے رہیں بلکہ اپنے دل بھی صاف کریں اور عملی اقدامات کریں۔ کیونکہ صرف باتیں کرنے سے معاشرے تبدیل نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).