منٹو کوبس اب بخش دو


(عدنان حسین

منٹو کا افسانوی مجموعہ’دھواں‘جب میں نے پہلی بار پڑھا تب میں زندگی کی کوئی پندرہ بہاریں دیکھ چکا تھا۔نوبلوغت، خواب، امنگیں اور خوف ،سبھی زاویوں سے میں ایک نارمل قسم کا نو عمر لڑکا تھا۔

کتابوں سے تعارف بس سلیبس تک ہی محدود تھا۔ گاﺅں کا سکول تھا تو کوئی ایسا ادبی ماحول بھی میسر نہیں تھا۔ مگر یہ ضرور تھا کہ عمروعیار اور ٹارزن کی کہانیاں کافی پڑھ رکھی تھیں۔ یہ کہانیاں عمیر بھائی اور الفت باجی سے اس ہدایت کے ساتھ ملتی کہ کسی بھی طور ابا جان کی پکڑ سے دور رہیں۔ اباجان چونکہ خود استاد تھے تو ان کی نظر میں درسی کتابوں کے علاود تمام کتابیں بچوں کے لیے شجر ممنوعہ تھیں۔

یادداشت جہاں تک ساتھ دیتی ہے تو ہوا یوں کہ ایک دفعہ ایک چھوٹا سا شعری مجموعہ خرید لیا جو کہ عامیانہ سے عشقیہ اشعار پر مشتمل تھا تو مار الگ پڑی ، صلواتیں علیحدہ اور وہ مجموعہ بھی چولہے کی نذر ہو گیا۔ تو ماحول تو ادبی سرگرمیوں کے لیے موزوں نہیں تھا تو پھر ایسے میں منٹو کو پڑھنا کیوں کر اور کیسے ممکن ہوا۔

سجاد اور میں بچپن سے دوست اور ہم جماعت تھے،چھٹی کا دن ہمارا سجاد کے گھر پر ٹیبل ٹینس اور کرکٹ کھیلتے،سجاد کے بڑے بھائی کو کیمسٹری کے فارمولے سناتے، گھر کے ٓنگن میں موجود بیری سے بیر توڑ کر کھاتے اور سٹور روم میں کاٹھ کباڑ کا معائنہ کرتے ہوئے گزرتا۔تو ایک دن ہوا یوں کہ اس شغل کے دوران ایک ڈبے میں سے کچھ پرانی کرم خوردہ کتابیں برآمد ہوئیں جو یقینا سجاد کے تایااور میری نانی اماں کی چچیری بہن کے بیٹے، پروفیسر سلیمی صاحب کی ملکیت ہوں گی۔ ملتان کے طالب علم ، پروفیسر صاحب سے یقینا واقفیت رکھتے ہونگے۔سلیمی صاحب، ریاضی کے نامور استاد تھے( اللہ ان کی مغفرت فرمائے ، ان کی رحلت کو ابھی چند ہی ماہ ہوئے ہیں۔) تو میں ذکر کر رہا تھا کچھ کتابوں کا۔ ان میں سے ایک کتاب تو غالبا ہندوستان کا سفرنامہ تھی جو کہ بزرگان دین اور اولیا ئے کرام کے مزارات سے متعلق تھی۔دوسری کتاب ، نسیم حجازی کی ’کلیسا اور آگ‘ تھی، اور تیسری کتاب منٹو صاحب کاافسانوی مجموعہ ’دھواں‘ تھی۔

ایک گرم چلچلاتی جون کی دوپہر ، سب کے سونے کا یقین کر لینے کے بعد میں نے دھواں کو پڑھنے کا کشت اٹھایا۔ زبان کافی گاڑھی اور اجنبی معلوم ہوئی۔ ایک طالب علم اور سکول کے ذکر نے کچھ حد تک دھیان بنائے رکھا۔ والد صاحب چونکہ استاد تھے تو اردو پڑھنے کے معاملے میں خاصا عبور حاصل تھا۔

مسعود تو جیسے اپنا دوست اور ہم جماعت محسوس ہوا اور ایک لگاوٹ کا عنصر ابھرتے دیر نہ لگی۔ وہ میٹھی کسک اور شش و پنج تو اپنے اندر بھی پھن پھیلائے بیٹھے تھے۔ یہ دھواں تو ادھر بھی کسی چنگاری کا پتا دیتا ہے، جب اٹھتا ہے تو پورے منظر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ مگر بادل نہیں بنتا،برستا نہیں ہے۔ تشنگی ہے کہ بے حساب اور دائم و قائم ہے۔

دھواں چونکہ ایک ضخیم کتاب نہیں تھی تو ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی، پڑھ کیا خاک ڈالی،صفحے پلٹ پلٹ کر جو حصے زیادہ سوادی تھے انہیں انڈر لائن کر لیا تاکہ بوقت ضرورت حظ اٹھایا جا سکے۔ ادبی تناظر کیا ہے، منٹو کون ہے ، اس نے یہ کیا لکھاہے اور کیوں لکھا ہے، اس کی سمجھ نہ آنی تھی نہ آئی۔ سوال نہیں اٹھے، سوال نہیں کیے، مگر گلا کیوں خشک ہوا اس کی بھی سمجھ نہیں آئی۔

کالج میں تھے جب منٹو کو پھرسے پڑھا، دوستوں، یاروں ، بیٹھکوں اور گول باغ کے چائے خانوں پر کھٹے میٹھے مباحثوں سے یہ اندازہ ہو گیا کہ منٹو الگ، بے باک اور گہرا مکالمہ لکھتا تھا۔ معاشرے کو ننگا کرتا تھا تبھی کونٹروورشل تھا، جیل بھی گیا، مقدمہ بھگتا۔ کیوں لکھتا تھا۔ یہ ادراک پھر بھی نہیں ہوا، فہم کوئی ہما کا پرندہ نہیں ہے جو اڑ کر سر پہ بیٹھ جائے اور بس۔بغاوت ابھری پر فہم….نہیں۔

یونیورسٹی جانا ہوا تو وہاں اساتذہ کی بدولت کتب بینی میں اضافہ ہوا۔ادب پسند دوست ملے۔ مصنفین سے روابط ہوئے۔ تحریکوں سے تعارف ہوا۔ کتاب شناسی میں مدد ملی۔ پھر بھی یہی سمجھ آئی کہ فہم اور ادراک کبھی کامل نہیں ہوتا۔ عمر خضر چاہیے، بھکشو جیسی تپس گیری چاہیے۔

پھر سرمد کھوسٹ کے چرچے ہوئے کہ منٹو کو سکرین کے پردے پر اتارا ہے، یہ کج فہمی تھی کی منٹو کے ساتھ انصاف ہو گا۔

سکرپٹ میں جھول تھا یا کردار کشی میں ناکامی، منٹو کے شرابی اور مجنوں ہونے پر فوکس رہا یا مکالمہ کہیں مسخ ہو گیا۔ مگر ایک فائدہ یہ ہوا کہ منٹو کا نام لوگوں تک پہنچا، جو بھول گئے تھے ان کو بھی یاد آیا۔ منٹو کی بات پہنچی یا نہیں پہنچی، منٹو کی فکر کا کیا ہوا۔

بندر کے ہاتھ ماچس اور نادان کی رسائی معلومات تک ہو تو حال ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر منٹو سکالرز کا وہ جم غفیر ہے کہ منٹو کی بے باکی اور جرات محض مذاق بن کر رہ گئی۔ ہیجان انگیزی کی غرض میں لپٹے نا ادراکیوں کو اس حقیقت سے کیا لینا کہ تہذیب کی چولی کے نیچے کتنے داغ ہیں۔
غرضِ حکاپت یہ ہے کہ دھواں بے حد زہریلا ہو چلا ہے….منٹو کو بس اب بخش دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).