مکئی کے دانے بھوننے والا کون ہے؟ تم ہو یا میں ہوں؟


یہ قصہ ہے اس وقت کا جب آتش کے بالوں میں چاندی اترنی شروع نہیں ہوئی تھی۔ زبان زیادہ پھسلتی تھی اور وقت اور موقع کی پہچان خام تھی۔ ایک بڑے ادارے سے وابستہ تھا۔ سال میں دو چار دفعہ اجتماع خاص ہوتا تھا جس میں ادارے کے سربراہ اہم لوگوں سے خطاب کیا کرتے تھے۔ ادارے کی پالیسی کے تحت جناب کا انتخاب کسی صلاحیت کی بنیاد پر کم اور اس وجہ سے زیادہ تھا کہ وہ ایک خاصے ذی وقار ریاستی عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے اور اپنے خصوصی استحقاق کی بنا پر سربراہ بنا دیے گئے۔ حضور زیادہ اپنی کہتے تھے، کم دوسروں کی سنتے تھے۔

سال کے آخری دن تھے اور وسیع وعریض کانفرنس روم میں کوئی چالیس کا مجمع تھا۔ یہ سال کا سب سے اہم اجلاس تھا۔ اختتامی لمحات تھے اور ظل الہی کا خطاب جاری تھا۔ خطاب کرتے ہوئے نجانے کس وقت ان کا روئے سخن ان کی اپنی ذات کی جانب ہو گیا۔ اپنی کامیابیوں کی داستان سناتے سناتے کہیں ان کی حب الوطنی کی رگ پھڑک اٹھی۔ شاید ہماری نیتوں پر شک تھا اس لیے قومی بیانیے کی گردان بڑی دیر ہوتی رہی۔ بچپن سے سنے مطالعہ پاکستان کے اسباق کا خلاصہ دونوں کانوں سے سر کے بیچ کر دیا گیا۔ کانفرنس روم کی کھڑکی سے سڑک پار کا منظر نظر آرہا تھا جہاں ایک ریڑھی بان مکئی اور چنے بھون رہا تھا۔ عالی مرتبت نے اچانک کھڑکی سے باہر اشارہ کیا اور بولے۔

”آپ دیکھ رہے ہیں اس ریڑھی والے کو؟“

تمام تابع فرمان گردنیں کھڑکی کی طرف مڑ گئیں۔

”یہ آج جو میں اس کرسی پر بیٹھا ہوں۔ یہ جو عزت، حیثیت اور مقام میرے پاس ہے۔ یہ سب اس ملک کی دین ہے۔ ان آزاد ہواؤں کا صدقہ ہے۔ اگر ہمارے پرکھوں نے یہ ملک نہ بنایا ہوتا تو میں بھی آج کسی سڑک کے کنارے مکئی کے دانے بھون رہا ہوتا“

اصول یہ تھا کہ بات پر سر ایک خاص ردھم میں اوپر سے نیچے ہلایا جائے، آنکھوں میں توصیفی چمک لائی جائے اور ” یس سر، بالکل درست کہا، کیا بات ہے“ جیسے کلمات نذر کر دیے جائے تاکہ سال کے آخر کا انکریمنٹ لگنے میں کوئی دشواری نہ ہو پر جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ میرے سر کے اندر لگے جملہ پرزے ابھی صحیح طرح کسے نہیں گئے تھے اس لیے کچھ ایسی باتیں لڑھک کر اپنا راستہ بناتی زبان پر آ جاتی تھیں جن سے کبھی میرا بھلا نہ ہو سکا تھا۔ تو وہ بھی کچھ ایسا ہی دن تھا۔ حضرت نے دعوے کی تائید چاہنے کے لیے توقف کیا تو میں بول پڑا

”سر، ایک بات پوچھوں؟“

چونکہ بات پوچھنے کا رواج کم تھا اس لیے کچھ آنکھیں حیران ہوئیں، کچھ خشمگیں۔ تاہم عالی مرتبت نے کمال مہربانی سے اذن دے دیا۔ ان کا خیال شاید یہ تھا کہ میں ان کے شجرہ کمال سے جڑا کوئی سوال کرنا چاہتا تھا۔

”جی جی۔ ضرور پوچھیے“

“سر، آپ کا کیا خیال ہے“ میں نے میز کے دوسرے سرے سے ان کی آنکھوں میں جھانکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پوچھا ” یہ جو مکئی بیچنے والا ہے یہ کس حال میں ہوتا، اگر پاکستان نہ بنتا تو؟“

جس شعبے سے سربراہ ادارہ ریٹائر ہوئے تھے یقیناً وہاں ایسے سوال پوچھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے ان کا چہرہ ایک استعجابی تصویر بن گیا۔

“ میں آپ کی بات سمجھا نہیں“

“سر، آپ نے کہا کہ ہندوستان میں آپ مکئی بھون رہے ہوتے کیونکہ آپ کے خیال میں مکئی بھوننا ناکامی کی دلیل ہے اور چونکہ اس ملک نے آپ کو مواقع دیے، سازگار ماحول دیا، تعصب سے نجات دلائی تو آپ آج اس کرسی پر ایک کامیاب آدمی کی حیثیت سے بیٹھے ہیں۔ لیکن اگر یہ کامیابی اس ملک کی دین ہے تو اس منطق کی رو سے یہاں جو یہ مکئی بھوننے والا ہے یہ کیوں ابھی تک ناکام ہے۔ آزاد فضا میں یہ بھی سانس لیتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر اس سے بھی کوئی تعرض نہیں برتتا۔ اس کی معاشرتی حیثیت کوئی ہندو اس سے نہیں چھین سکا۔ “

”آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟“

“میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ اگر یہ ملک نہ ہوتا تو بھی یہ شخص جو سڑک کے اس پار نظر آ رہا ہے، یہ ایسی ہی ریڑھی پر اسی طرح مکئی بھون رہا ہوتا۔ اور آپ شاید پھر بھی ایک ادارے کے سربراہ ہوتے۔ “

”تو آپ کے خیال میں ہماری آزادی سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا“ جناب ابھی تک بات سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے

”سر، ہوا ہو گا۔ ضرور ہوا ہو گا پر اپنی کامیابی کا جواز موافق حالات میں ڈھونڈنے والے کی مثال اس بچے کی سی ہے جو ہر سال اپنے سیکشن میں سب سے کم نمبر لے اور پھر مطالبہ کرے کہ اسکول کے سارے فیل ہونے والے بچوں کا ایک الگ سیکشن بنایا جائے اور اسے بھی اس سیکشن میں ڈال دیا جائے تاکہ وہاں اس کی پہلی پوزیشن آ جائے۔ اور پھر وہ سینہ ٹھونک کر کہے کہ دیکھا اگر میں ابھی تک سیکشن اے میں ہوتا تو سب سے آخری پوزیشن پر ہوتا۔ یہ تو اس سیکشن کا کمال ہے کہ میں اب سب سے ذہین بچہ ہوں۔ سر، یہ ہم سب جانتے ہیں کہ بچہ ابھی بھی اتنا ہی نکما اور نالائق ہے اور اس سیکشن کے باہر کی دنیا کی مسابقتی دوڑ میں وہ اب بھی بہت پیچھے ہے پر اس سیکشن کی دنیا میں وہ ایک نابغہ ہے“

”یہ کیا مثال ہوئی“ صاحب کے ماتھے پر شکنیں گہری ہو رہی تھیں

”سر، میرے خیال سے تو یہ بالکل درست مثال ہے۔ جو بات آج آپ نے کی کہ ہم جو کچھ بھی ہیں، اس ملک کی وجہ سے ہیں اور اس خطے کی گر تقسیم نہ ہوتی تو ہم برباد حال ہوتے۔ سننے میں بڑی اچھی لگتی ہے پر کیا ہے مجھے یہ اپنی کم مائیگی اور نالائقی کا اعتراف زیادہ لگتی ہے۔ اگر میں یہ مان لوں کہ اس ملک کے دانشور، ڈاکٹر، انجینیئر، سائنسدان اور کاروباری ایک متحدہ ہندوستان میں موچی، نائی، پلمبر اور مزدور ہوتے تو یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک مسابقتی دنیا میں جو سرحدوں اور جغرافیہ سے ماورا ہے وہاں یہ کسی قابل نہیں ہیں۔ یہ تو ایک ایسا ماحول انہیں مل گیا جہاں گدھوں کو گھوڑوں کے ساتھ دوڑنا تھا تو یہ آگے نکل گئے۔ “

”تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ملک کا کوئی کردار نہیں ہے آپ کی زندگی میں“ اب آواز بھی اونچی ہو رہی تھی

”میں یہ نہیں کہہ رہا، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالکلام، ایم ایف حسین، گل جی، استاد بڑے غلام علی خان، نور جہاں، دلیپ کمار، عظیم جی پریمجی، اصلاح الدین، اظہر الدین، عمران خان، ادیب رضوی، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، اقبال، قرة العین حیدر، خواجہ خورشید انور، ڈاکٹر ذاکر نائیک، استاد ذاکر علی خان، بی ایس عبدالرحمان اور یوسف خواجہ حمید جیسے لوگ اپنا زمانہ خود پیدا کرتے ہیں۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ ریڈ کلف کی کھینچی گئی لکیر کے اس طرف پیدا ہوئے تھے یا اس طرف۔ انہیں رہنے کو ایک سیکولر حکومت ملی یا ایک تھیوکریسی، یہ ہوا کے موافق ہونے کے منتظر نہیں رہتے، یہ لہروں کے مخالف چپو کھینے کا حوصلہ رکھتے ہیں اس لیے یہ جہاں بھی ہوں، اپنی جگہ بنا لیتے ہیں، اپنی منزل پا لیتے ہیں۔ انسان کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب زندگی پیروں میں بچھی سڑک نہیں، سامنے اٹھی سنگلاخ دیوار ہوتی ہے۔ “

”تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ملک نہیں بنانا چاہیے تھا“ اب صاحب باقاعدہ ناراض ہو چکے تھے

”پتہ نہیں سر۔ انسانی ترقی کے اعشاریے میں شاید 190 ملکوں میں ہم کوئی 150 کے آس پاس ہیں۔ دنیا کے حقوق دانش میں ہمارا حصہ صفر ہے۔ مسلم اجتماعی قوت کو 1947 میں دو اور 1971 میں تین حصوں میں بانٹنا ” اتفاق میں برکت ہے“ رٹنے والی نسل کو کیونکر سمجھایا جائے۔ بلوچستان کے سردار، سرحد کے ملک، پنجاب کے چودھری اور سندھ کے وڈیرے آج بھی ہمارے فیصلوں کے مختار ہیں۔ ہماری نصف آبادی کو پینے کا پانی میسر نہیں، ہماری کوئی ایک پروڈکٹ بھی عالمی منڈی میں اپنی مستحکم جگہ نہیں رکھتی، ہماری معاشی رینکنگ کم ترین درجوں میں رہتی ہے۔ ہماری شرح بیروزگاری، قوت خرید، کرنسی کی قدر سب منہ کے بل گرے ہوئے ہیں۔ ہماری سب سے اہم بحث عقیدے کی ہے جو کہ ترقی یافتہ دنیا میں کب کی عنقا ہو چکی۔ تو سر پتہ نہیں۔ پر یہ سوال یا اس کا جواب دونوں بے معنی ہیں۔ ملک تو بن گیا ہے۔ اب الٹا پہیہ تو کوئی چلا نہیں سکتا۔ اب تو سوال یہ ہے کہ آگے کا سفر کیسے ہو گا۔ تو اس کے لیے ہمیں اس دعوے سے دست بردار ہونا پڑے گا جو اب بھی میرے آج کی دلیل میرے گذرے کل سے برآمد کرتا ہے۔ جو کامیابی کا جواز صلاحیت میں نہیں، سازگار ماحول میں ڈھونڈتا ہے۔ جو ایک دوسرے مذہب کو گالی دینا اپنے مذہب کی بڑائی سمجھتا ہے۔ جو ساری دنیا کو سازشی اور اپنے آپ کو معصوم گردانتا ہے۔ جو ریت میں سر گھسا کر طوفان سے بے خبر رہنے کو عقل مندی سمجھتا ہے، جو عقیدے اور قومیت کی پٹیاں آنکھوں پر باندھ کر راستہ ڈھونڈتا ہے۔ مجھے یہ یقین ہے کہ اس زمین کے خطے کا نام کچھ بھی ہوتا میں وہی ہوتا جو میں آج ہوں پر اس لیے کہ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ مجھے اپنی دنیا خود تراشنی ہے۔ اور جو دنیا میرے تیثے کی ضرب سے بنے گی وہ بدنما ہو کہ خوش نما، اس کی ذمہ داری سر تا پا میری ہے۔ اس لیے میں اس سبق سے اتفاق نہیں کر سکتا جو آپ دینا چاہ رہے ہیں کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ قوم یقین سے محروم ایک ہجوم ہے اور کچھ نہیں اور اس دنیا کی امامت کبھی اس کا نصیب نہیں ہو سکتی اور یہ میں ماننا نہیں چاہتا۔ سر“

”چلیں۔ اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے“ اب آواز میں غصہ، جھنجھلاہٹ اور بیزاری سب شامل تھے۔

اجلاس سمیٹ دیا گیا اور دو روز بعد ہیڈ کوارٹر بلا کر مجھے کہا گیا کہ بہتر ہو گا کہ میں استعفی دے دوں۔ مستعفی ہونے کے بعد سے آج تک ان صاحب سے پھر ملاقات نہیں ہوئی۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad