اکیسوی صدی اور فاٹا کی چیک پوسٹیں


پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب مظہرعالم میاں خیل کی گاڑی کوہاٹ ٹنل پر موجود فوجی چیک پوسٹ نے 27 ستمبر2015 کو چند ساعتوں کے لئے روکی تو انہوں نے سوموٹو ایکشن لے کر خیبر پختونخواہ کے ایڈووکیٹ جنرل عبدالطیف یوسفزئی کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھا:

’’بتاؤ صوبائی حکومت نے کس قانون کے تحت فوج کو بلاکر صوبے کے مختلف علاقوں میں چیک پوسٹوں کی صورت تعینات کیا ہے، تفصیلی وضاحت پیش کی جائے؟ ‘‘

یوسفزئی صاحب نے جواب دیا کہ 12 اپریل 2008 کو صوبائی حکومت نے صوبے میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظرآئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول اداروں کی مدد کی خاطر فوج کو بلانے کے لئے مرکز کو درخواست دی تھی، جس پر عملدرآمد کرکے فوج کو تعینات کیا گیا، نیز صوبائی حکومت پہلے بھی تحریری وضاحت پیش کرچکی ہے اور مذکورہ واقعے میں ملوث حکام کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔

جج صاحب کا لہجہ بدستور کرخت تھا اورعدالتی بنچ نے اس بابت صوبائی حکومت کے تحریری جواب کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا:

’’اگر فوج کو صوبائی حکومت نے بلایا ہے تو آئین کی 245 شق کے تحت ان کو صوبائی حکومت کے احکام کا پابند ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوج اسی ملک کی ہے، ان کی قابل قدر قربانیاں ہیں، تاہم یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوجی چیک پوسٹوں پر شہریوں کی عزت واحترام کی ہتک نہ ہونے کو یقینی بنائے‘‘۔

مذکورہ واقعے سے ذرا مزید پیچھے کی طرف جائیں تو 2014 ہے اور ضرب عضب کا صور پھونکا جاچکا ہے، باشندگان شمالی وزیرستان پاک فوج کی پہلی سیٹی پر بھرے گھروں، ہرے کھیتوں چلتے کاروباروں اور بچوں کے تعلیمیں ادھوری چھوڑ کر کیمپوں کی طرف رواں دواں ہیں، قیامت خیز نقل مکانی کی حدت اوسطا 20 بچوں کو نگل رہی ہے اورمیرعلی سے بنوں تک 25 کلومیٹر کا قلیل فاصلہ تین دنوں میں طے ہورہا ہے، ان تین دنوں میں کیا گزر رہا ہے؟ یہ وہ المیہ ہے جو کئی پہلو سے محفوظ کرنے کے قابل ہے۔

سیدگئی کے مقام پر فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ہر فرد کو فوج کی نگرانی میں شناختی کارڈ کی بنیاد پر رجسٹر کرکے ’’ہلکے سبز رنگ‘‘ کا پرچہ تھما رہی ہے، کچھ عرصہ بعد مذکورہ پرچیوں کو واپس جمع کرنے کا حکم صادر ہوتا ہے اور بطور متبادل، سوالات سے بھرے ’’سفید رنگ‘‘ کے پروفارمے متاثرین کو تھما دیے جاتے ہیں، مذکورہ پروفارمے دوبارہ واپس جمع کرلئے جاتے ہیں اور مکمل چانچ پڑتال کے بعد زونگ کمپنی کو مستحق خاندانوں کے اعداد وشمار بھیجے جاتے ہیں، زونگ سم عالمی امداد سے فی مہینہ ہرخاندان کو 12000 روپے بذریعہ میسج ارسال کرنا شروع کردیتی ہے، میسج کی وصولی میں تاخیراور ہزاروں رجسٹرڈ خاندانوں کو رقم کی عدم وصولی جیسے مسائل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ راشن ملتا رہتا ہے، رجسٹریشنوں اور ویریفیکشنوں کا سلسلہ ڈھائی سال سے اوپر کا وقت گزار لیتا ہے۔ اس دوراں متاثرین ضرب عضب کو واپسی کا مژدہ سنایا جاتا ہے، اور تین دن میں نکالے گئے لوگوں کی واپسی کا شیڈیول گیارہ ماہ کی سست رو واپسی کے اعلان پر منتج ہوتا ہے، وجہ سیکیورٹی کلئیرنس بتائی جاتی ہے۔

واپسی کے لئے ہر گاؤں اور خیل کے ملکان کو دوبارہ پروفارمے تھما دیے جاتے ہیں، ملکان ویریفیکشن اور درست کوائف دینے کے قانونی مجاز ہوتے ہیں، پروفارمے باشندگان میں تقسیم ہوکر دوبارہ متعلقہ اداروں کو جمع کرا دیے جاتے ہیں، تب جاکرجاری کردہ شیڈیول کے مطابق واپسی ٹوکن ملتے ہیں۔ سٹیڈیم نما واپسی کیمپ میں متاثرین صبح سویرے حاضر ہونے کے پابند ہیں جہاں مختلف مراحل اور سوالات سے گذر کر شام کے سایوں میں وطن کارڈ کی صورت سند تخلیص عطا کردی جاتی ہے۔ اوسطا 300 تا 500 خاندان واپس بھجوائے جاتے ہیں۔ ڈھائی سال بےگھری کی صعوبتوں میں گزارنے، میرعلی اور میرانشاہ جیسی فاٹا کی معاشی اکائیوں کی مسماری، لٹے پھٹے اور کھنڈر گھروں کو واپس لوٹنے کے لئے باشندگان وزیرستان وطن کی خاطر چپ چاپ وہ سب برداشت کرچکے ہیں جو وطن عزیز میں آباد کوئی دوسری قومیت شاید ہی برداشت کرسکے۔

یہ تو تھا ماضی، جیسے تیسے گذر گیا مگر زمانہ حال میں فاٹا کس المیے سے گذر رہا ہے اس کی کسوٹی شمالی وزیرستان میں داخلہ کے لئے سیدگئی چیک پوسٹ ہے۔ یہ امرخوش آئند ہے کہ ضرب عضب کے بعد غیرمقامی افراد کا وزیرستان جانا ممکن نہیں۔ مقامی باشندے وزیرستان جا سکتے ہیں پر وہ بھی تب جب ان کو وطن کارڈ وصول ہوچکا ہو اور وطن کارڈ کا حامل فرد کتنی دفعہ رجسٹریشنوں اور کلرئنس کی چھننی سے گذر چکا ہوتا ہے یہ سب سرسری طور پر اوپر بیان ہوچکا۔ تاہم، دکھ کی بات یہ ہے کہ ضرب عضب کے بعد بھی وطن کارڈ کاحامل یہ فرد شناختی کارڈ حتی کہ سرکاری سروس کارڈ تھامے بچے اٹھائے لائینوں میں کھڑا ہے، خواتین بھی لائینوں میں کھڑی ہیں پر ان کی تلاشی خواتین اہلکار کررہی ہیں، بوڑھوں اور معذورں کے لئے کوئی معافی نہیں۔ ذاتی گاڑیوں، مال گاڑیوں حتی کہ روزمرہ کی بنیاد پر آتی جاتی پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی انٹری الگ سے کروانی پڑتی ہے۔ سامان کی چیکنگ کے لئے فوجی جوان گاڑی پر نہیں چڑھے گا بلکہ سواری کو خود چڑھنا، سامان کھولنا، بند کرنا اور دوبارہ گاڑی پر چڑھانا ہوگا۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ بندوبستی علاقوں حتی کہ اسلام آباد، کراچی اور پشاور سے آنے والے باشندگان وزیرستان کا سامان بھی چیک ہوگا۔ اور یہ سارا مرحلہ کم ازکم دو اور زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے کھڑے رہنے اور بھاگ دوڑ میں گزر جاتا ہے۔

اب اگرقانون کی بات کی جائے توThe Actions (in Aid of Civil Power) Regulation، 2011 کے باب چہارم کے سیکشن ’’مسلح افواج کو اضافی اجازت‘‘ کی شق e اور f میں لکھا ہے:

(e) Establish security posts in the defined area; and
(f) Posses and occupy any property with the approval of the provincial government۔

چونکہ وطن عزیز کا آئین فاٹا کوعدالت کے دائرہ کار سے باہر رکھتا ہے، لہذا سیدگئی چیک پوسٹ کی زمین کس فرد یا قوم کی ملکیت ہے؟ صوبائی حکومت کی دائرہ کار میں ہے یا نہیں؟ یہ قانونی تقاضے کچھ معنی نہیں رکھتے نہ ہی کسی معزز جج کا سیدگئی چیک پوسٹ سے گذر ہے کہ وہ دیکھ سکے کہ اس کے ہم وطن کس عذاب سے گذر رہے ہیں۔

قانون کے بعد اخلاقیات کی باری آتی ہے یعنی جہاں قانون راہنمائی نہیں کرپاتا یا موجود نہ ہو تو سول، عسکری، این جی اووز یا دیگر اداروں کے Code of Conduct & Ethics کام شروع کردیتے ہیں۔ جو بدقسمتی سے سیدگئی چیک پوسٹ پر یا تو ممنوع ہیں یا مفقود، ایسی صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب ریاست اور حکومت کا فرق مٹتا ہے چنانچہ بالا دست طبقے زمینی حقیقت کا ادراک نہیں کرپاتے، مصنوعی رائے عامہ وجود میں آتی ہے جو کہ زمینی حقائق، ریاستی موقف، آئینی اصول اور عوامی رائے کے درمیان پل باندھنے سے قاصر ہوکر غلط تزویراتی فیصلے کر بیٹھتی ہے۔

درست تزویراتی فیصلے کیا ہوتے ہیں اس کی مثال افغانستان میں موجود امریکی اور NATO افواج ہیں جنہوں نے افغانستان پر قبضہ جماتے ہی مقامی باشندوں کو بطورCultural Advisor بھرتی کرلیا۔ مذکورہ ایڈوائزر فوجی کانوائے کی نقل و حرکت سے قبل غیر ملکی افواج کو تفصیلی طور پر علاقے میں آباد قوم کی رسم ورواج، غصے اور خوشی کے مواقع و مقامات کی مناسبت سے ممنوع و غیر ممنوع سماجی نقطوں کی نشاندہی کراتے ہیں۔ تکلیف کو کم سے کم کرنے کے لئے امریکی افواج کی چیک پوسٹوں پر جدید کیمرے، سینسرز اور ڈیٹیکٹرز لگے ہیں اورمقامی افراد کی ہلکی چیکنگ یا گفت وشنید کے لئے مقامی افغان فوجیوں کو رکھا گیا ہے۔ جن کو دوران چیکنگ مقامی رواج کے نرم اخلاقی جملوں اور رویوں کی سختی سے تاکید کی جاتی ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی باریکیوں مثلا چیکنگ کے بعد جب مقامی فوجی ’’بخښنھ غواړم‘‘ یا ’’ببخشید‘‘ (معاف کردیجئے گا) کے الفاظ ادا کرکے شہریوں کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچاتا ہے تو غیر ملکی افواج نفسیاتی طور پر اپنے قیام کے لئے رائے عامہ ہموار کررہی ہوتی ہیں۔

دوسری جانب وطن عزیز کا خطہ فاٹا نہ صرف انتظامی، آئینی اور امن و امان کے مسئلے سے دوچار ہے بلکہ اپنی ہی فوج کے ساتھ Communication Gap کی ایک ایسی انتہا پر کھڑا ہے جس کا ہنگامی بنیادوں پرنفسیاتی حل ناگزیر ہے۔ فاٹا کی نئی نسل کی دور اور قریب کی نظر یہاں کی جعلی قیادت کے ’’ملکان‘‘ کی طرح کمزور نہیں۔ ان کی رائے کو اگر وقعت دی جائے تو وہ خطے کے مسائل کا حل ہاتھ کی لکیروں کی طرح پہچانتے ہیں اور ایسا حل پیش کرتے ہیں جو وطن عزیز اور باشندگان فاٹا کے مستقبل کا ضامن ہے۔

باشندگان فاٹا کو چیکنگ پرنہیں بلکہ طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ آپ چیک پوسٹوں پر جدید آلات نصب کیجئے، کیمرے اور ایسے سینسرز لگائیں کہ کوئی سوئی بھی نہ گزار سکے کیونکہ چیکنگ قیام امن کے لئے ناگزیر ہیں۔ باشندگان فاٹا، قیام امن کی خاطر پاک فوج کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، امن چاہتے ہیں مگر پاک فوج کی جانوں کے نذرانوں کی قیمت پر نہیں، لہذا چیک پوسٹوں پر ٹیکنالوجی کے استعمال میں ملک و قوم دونوں کا فائدہ ہے، تاہم فاٹا کی عوام کو ہم وطنی اور قربت کا احساس دلانا پاک فوج کی وہ اخلاقی ذمہ داری ہے جوچیک پوسٹ کی رکاوٹ کے باوجود بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ دور بدل چکا ہے اور چیکنگ کے پرانے روایتی طریقے بیسویں اور اکیسویں صدی کے باشندگان فاٹا اور بلخصوص نئی نسل کو ہرگز گوارا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).