باسی کڑھی میں ابال!


پنجاب یو نیورسٹی میں پشتون ثقافت کا دن مناتے مناتے سر پھٹول ہو گئی۔ دس کے قریب طالب علم زخمی ہو گئے۔ پچھلے کتنے ہی دنوں سے سوشل میڈیا پہ تھو تھو کا سلسلہ جاری ہے۔ آہ!
یہ وقت بھی کتنا ظالم ہے۔ ساری دنیا جمعیت کے معصوم طلبا کے خلاف متحد ہو کر چلا رہی ہے حالانکہ ان کے ترجمان نے اپنی بڑی بڑی پلکیں جھپکا کے اور دانتوں میں انگلی دباتے ہوئے صاف صاف بتایا بھی ہے کہ یہ ہم نہیں، یہ ہماری حرکت نہیں۔ جانے کون ہمیں بدنام کرنے کو یہ سب کیا کرتا ہے۔ مگر ستم ہائے روزگار دیکھیں، ذرا جو کسی کو رحم آیا ہو۔

سب کے سب سفید دیدے نکال کے ان معصوموں کے پیچھے پڑے ہیں۔ تجھے موت آئے اے زمانے! یہ وقت بھی دیکھنا تھا ان گناہ گار آنکھوں نے؟ اُف!

‘یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا’

کیا کیا زمانے یاد آ گئے، کیا کیا تصویریں آنکھوں میں پھر گئیں۔ اس ہی نیو کیمپس میں، نہر کے پل سے مڑتے ہی نیلے، سبز اور سفید رنگوں کے امتزاج سے بنا ایک حسین بینر آنکھوں کو تراوٹ اور دل کو سکون بخشتا تھا۔ اسی بینر کے اوپر جلی حروف میں ‘اہلاً و سہلاً مرحبا’ لکھا ہوا دیکھ کر دل بلیوں اچھلنے لگتا تھا اور فرطِ جذبات سے آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔

اگر داخلوں کا موسم ہوتا تھا، تب تو کیمپس کی بہاریں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ان گنہگار آنکھوں نے ایسے ہی موسم میں جمعیت کے سٹالز پہ باآوازِ بلند ایک نہایت خوش الحان آواز میں ایسا رجز سنا کہ روح میں وہ بالیدگی اور سوچ میں وہ گہرائی پیدا ہوئی کہ جب تک یونیورسٹی میں رہی، جمعیت کے احکامات سے رو گردانی کا تصور بھی نہ کر پائی۔

جمعیت کے سادہ لوح نوجوانوں نے داخلہ فارم بھرنے سے لے کر ان کو جمع کرانے اور پھر کامیاب امیدواروں کی فہرستیں لگانے تک کی ذمہ داریاں اپنے سر لے رکھی تھیں۔ ہائے ہائے! اگر کچھ بھول رہی ہوں تو یاد کرا دیجیے گا۔

یہ جری جوان، اپنی قوم کی ماؤں بہنوں کو ایک کلرک سے دوسرے کلرک کی کھڑکی تک رلنے کے لیے کبھی تنہا نہیں چھوڑتے تھے، اور وہ ترانہ، ارے ہاں کیا بھلے سے الفاظ تھے، آئے ہائے میں بھی ایک خبطی ہوں بھول گئی!

اے سبحان اللہ! کیا پاکیزہ اور معطر کلام تھا، جانے کس نیک روح نے یہ موتی سے لفظ چنے تھے اور کیا خوش گلو تھا یہ گانے والا! اگر یاد آجاتے تو آپ کو بھی فیض یاب کرتی۔ یونیورسٹی کے دو سالوں میں جمعیت کی وہ وہ خوبیاں نظر آئیں کہ آج تک حیران ہوں، پاکستان کے پاس نوجوانوں کا ایسا بہترین جتھہ موجود تھا اور ہم خواہ مخواہ ادھر ادھر دیکھ کے رنگ برنگی سیاست میں پڑتے رہے۔
ان صالح جوانوں کی ایک خوبی تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کسی بھی دوسرے شعبے کے لڑکے کو اپنے شعبے میں نہیں آنے دیتے تھے، خاص کر اگر وہ جمعیت کا نہ ہو اور مغربی لباس وغیرہ پہننے کی بری عادت میں بھی مبتلا ہو۔

پڑھنا پڑھانا، نالائقوں اور کوڑھ مغزوں کا کام ہے، اس زمانے میں بھی وہ ہی پڑھا کرتے تھے مگر خدا کی قدرت، یہ عظیم نوجوان اس آزمائش سے بھی ہمیشہ سرخرو نکلتے تھے۔ اس دورِ زریں میں خدا کی نصرت کچھ ایسا ساتھ دیتی تھی کہ بعض اوقات کسی ضروری فرض کی ادائیگی میں مصروف ان جوانِ صالحین کے پرچے خود بخود حل ہو کر کمرہ امتحان میں پہنچ جایا کرتے تھے۔

طبعیت کے ایسے سادے اور فطرت کے ایسے بھولے، یہ سوچ کر کہ ریاست جانے کن کاموں میں مصروف ہے ملک کے جملہ افراد کے اخلاق کا ٹھیکہ بھی بلا معاوضہ انھوں نے لے رکھا تھا اور اس ضمن میں اپنے زورِ بازو کے علاوہ استریوں وغیرہ پہ بھی بھروسہ کرتے تھے۔ ( ہندی کی استریاں نہیں)۔

یونیورسٹی میں ایسا امن اور سکون تھا کہ سارے طالبِ علم درانہ نہر کے کنارے ٹہلتے تھے ، یونیورسٹی کا گیٹ کبھی بند نہ دیکھا، چار دیواری اگر تھی بھی تو گھنے درختوں میں چھپ چکی تھی۔ ہاسٹلوں میں تو سب ہی جانتے ہیں کیسا پاکیزہ ماحول تھا۔ گو بعد میں نواز حکومت نے ان معصوموں کو بہت ستایا، خیر وہ تو اپنے آگے پایا، ملک بدر ہوئے، در در کی ٹھوکریں کھائیں، اپنے انجام کو پہنچے۔

اب کیا کیا بیان کروں ؟ نسیان مجھے لوٹ رہا ہے یارو! چند روز پہلے یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا۔ اونچی دیواریں، ان پہ خار دار تاریں، گیٹ مقفل، شدید سیکیورٹی۔ بڑی دیر سوچتی رہی اس سب کا سبب کون ہے؟ خاصا مشکل سوال ہے۔ ابھی مجھے اپنے سوال کا جواب نہ ملا تھا کہ یہ نئی خبر آگئی۔ دل پر گھونسا سا لگا۔

اس سیلِ زمانہ کو کوسئیے صاحب! جسے، جمعیت کی باسی کڑھی میں ابال بھی گنوارا نہیں۔ خدا ایسا عروج دکھا کہ ایسا زوال دشمن کو بھی نہ دکھائے! آمین!

بشکریہ بی بی سی اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).