آئین پاکستان میں غیر مسلموں کے بنیادی انسانی حقوق ختم کیے جائیں


ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ 1973 کے بعد سے آج تک آئین پاکستان میں اتنی زیادہ تیزی سے ترامیم کی جا چکی ہیں کہ 44 برس میں اٹھائیسویں آئینی ترمیم کی باری آ گئی ہے۔ یعنی اوسطاً ہر ڈیڑھ برس بعد آئین میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ یہ ایک نہایت تشویشناک امر ہے کہ پاکستان جیسے آئینی طور پر نہایت فعال اور نظریاتی ملک میں بھی آئین کے پہلے باب میں ہی دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کو ابھی تک درست نہیں کیا گیا ہے اور قراردادِ مقاصد کے مطابق نہیں بنایا گیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ غلط طور پر دیے گئے نام نہاد انسانی حقوق کیا ہیں۔

آئینِ پاکستان کی شق نمبر 20 کہتی ہے کہ ’قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع، (الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہو گا‘۔

کیا ہم واقعی ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور سب سے بڑھ کر اس کی تبلیغ کرنے کا حق دے سکتے ہیں؟ کیا ہماری حمیت کو یہ گوارا ہو گا کہ ایک غیر مسلم ہمارے محلے میں کھڑا ہو کر اپنی مشرکانہ عبادت کرنے لگے یا اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے لگے؟ یاد رہے کہ پاکستان میں اقلیتی مذاہب میں محض ہندو، سکھ، مسیحی، یہودی، پارسی وغیرہ ہی شامل نہیں ہیں بلکہ دوسری آئینی ترمیم کے تحت جماعت احمدیہ کو بھی ایک غیر مسلم اقلیتی مذہب قرار دیا جا چکا ہے۔ کیا ہم واقعی ان اقلیتوں کو یہ حق دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب کی کھلے عام تبلیغ کریں اور معصوم مسلمانوں کو گمراہ کر ڈالیں؟

بلکہ آپ اپنے ارد گرد موجود افراد سے فتویٰ طلب کریں گے تو وہ آپ کو واضح طور پر بتا دیں گے کہ سرکاری طور پر بلاوجہ ہی مسلمان تسلیم کیے جانے والے کئی مسالک بھی کفار اور مشرکین میں شامل ہیں۔ اگر وہ بھی اپنے اپنے مسلک کی آزادانہ تبلیغ کرنے لگے تو کیا ہو گا؟ ابھی تو شکر ہے کہ آئین میں دیے گئے اس غلط نام نہاد انسانی حق کو باحمیت افراد بزور بازو چھین لیتے ہیں اور ایسی جسارت کرنے والے شخص سے کرہ ارض کو موقع پر ہی نجات دلا دیتے ہیں لیکن ایسی شق کا آئین میں ہونا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ ہماری رائے میں تو بہتر یہی ہے کہ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سرکاری مسلک بھی منظور کر کے بقیہ تمام مسالک و مذہب پر عمل کرنے اور ان کی تبلیغ کرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ اس سے وطنِ عزیز میں فرقہ وارانہ فسادات کا خاتمہ بھی ہو جائے گا کیونکہ غلط مسلک و مذہب والے بیشتر افراد ترک وطن کر جائیں گے اور ہمارا پیارا وطن عظیم سے عظیم تر ہو جائے گا۔ اس کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہمارے پیارے ملک کی آبادی اٹھارہ کروڑ سے گھٹ کر ڈیڑھ دو کروڑ یا اس سے بھی کم ہو جائے گی۔

شق نمبر 22 کے مطابق (1) کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت پر مجبور نہیں کیا جائے گا اگر ایسی تعلیم، تقریب یا عبادت کا تعلق اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔

کیا آپ نے اس شق کے خطرناک مضمرات پر غور کیا ہے؟ جس وقت آئین بنایا گیا تھا اور تمام امور ہمیشہ کے لئے طے کر دیے گئے تھے تو اس وقت تعلیم کے باب میں شدید گمراہ کن پالیسی اختیار کی جاتی تھی۔ یعنی سائنس کی کتاب میں صرف سائنس پڑھائی جاتی تھی، اردو کی کتاب میں اردو کی کہانیاں اور نظمیں ہی ہوا کرتی تھیں، معاشرتی علوم کی کتاب میں معاشرتی علوم ہوا کرتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت مسلمان بچوں کے لئے اسلامیات اور غیر مسلم بچوں کے لئے اخلاقیات کی کتاب بنا دی گئی اور مذہب کے اسباق صرف اسی کتاب میں ہوا کرتے تھے۔ اس طرح غیر مسلم بچے اسلامی تعلیمات کو پڑھنے سے محروم رہ جاتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے دور سے حکومت نے اس غلطی کو دور کرنا شروع کیا اور پاکستانی بچوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرنے کے لئے انہیں تمام مضامین میں ڈال دیا گیا۔ یعنی اردو، انگریزی، ریاضی، معاشرتی علوم، سائنس وغیرہ وغیرہ کی ہر کتاب میں اسلامی تعلیمات کا بجا طور پر اضافہ کر دیا گیا۔

اب اگر کسی شریر شخص نے سپریم کورٹ میں جا کر آئین کی شق نمبر 25 کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے اقلیتی بچوں کے لئے ان تمام کتابوں کو پڑھے بغیر ہی سو فیصد نمبر دے کر پاس کرنے کا مطالبہ کر دیا تو کیا ہو گا؟ یا خدانخواستہ ایسی تمام درسی کتابوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا تو ہمارے بچے تمام علوم کی درسی کتابوں پر پابندی لگنے کے سبب ان پڑھ رہ جائیں گے۔ دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے یہ حکم لے لے کہ ان مضامین کی کتابوں میں ہر مذہب سے متعلق اسباق شامل کیے جائیں اور ہر مذہب کے بچے کو اس کے مذہب کے مطابق ہی سائنس وغیرہ کا متعلقہ باب پڑھایا جائے اور دوسرے مذاہب سے متعلق سائنسی ابواب کو نظرانداز کر دیا جائے۔ لیکن بچے تو بچے ہوتے ہیں، انہوں نے غلطی سے دوسرے مذاہب کے سائنسی ابواب بھی پڑھ لئے تو ان مذاہب کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ اس آئینی شق کو ختم کر دیا جائے۔

آئین کی شق 25 (1) کہتی ہے کہ ’تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں‘۔

ہماری رائے میں آئین کی شق 25 بھی نہایت غلط ہے۔ کیا واقعی تمام شہری پاکستان میں ایک برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا اقلیتی مذاہب کے ماننے والے کسی مسلمان کی برابری کر سکتے ہیں؟ یہ شق قرارداد مقاصد کی نفی کرتی ہے۔ اگر غیر ملکی دباؤ کے باعث اسے مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے تو اس میں موزوں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً یہ الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں: کہ ’تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں مگر کچھ شہری دوسروں سے کچھ زیادہ برابر ہیں‘۔

ہم اقلیتوں کو یہ آئینی حقوق دینے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ ہماری نظریاتی اساس کے خلاف ہیں۔ بلکہ ہماری رائے میں تو تمام انسانی حقوق ہی ہماری نظریاتی اساس سے متصادم ہیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان سے جان چھڑا لی جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar