تیسری جنگ عظیم غیر ریاستی عناصر سے ہوگی!


 دنیا کا منظر نامہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو گیا ہے۔ اب جنگ ریاستوں کے مابین نہیں بلکہ ریاستوں اور غیر ریاستی عناصر کے درمیان ہے۔ مثال کے طور پر گذشتہ 40 برسوں میں 216 امن کے معاہدے ہوئے ۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ 216 میں سے 196 امن معاہدے ریاستوں اور غیر ریاستی عناصر کے درمیان ہوئے۔

المیہ یہ ہے کہ ریاستوں کے پاس تمام وسائل و اختیارات ہوتے ہوئے بھی ان کے شکست کھانے کے اسباب پر کم غوروفکر کیا گیا ۔ دنیا کی تقریبا تمام ریاستیں ابھی تک دنیا کی پانچ ہزار سالہ روایتی جنگ و جدل کی تاریخ فراموش کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ریاستوں کے پاس اسلحہ کے ذخائر آج بھی کسی دوسری ریاست یا ریاستوں سے خطرے کے پیش نظر اکھٹے کیے جاتے ہیں لیکن یہی اسلحہ غیر ریاستی عناصر کو کچلنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ریاستوں کے مابین روایتی جنگوں کے امکانات مستقبل میں مزید کم ہوتے چلے جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ امن عامہ کی صورت حال بدتر ہوتی چلی جائے گی جس کا سبب غیر ریاستی عناصر کا مضبوط ہونا ہے۔

غیر ریاستی عناصر سے جنگ کی جو صورت اپنائی جا رہی ہے وہ کچھ زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گی۔ اس سے ہو سکتا ہے ریاستیں کچھ لڑائیاں اور جھڑپیں جیتتی رہے لیکن مسائل جوں کے توں رہیں گے ۔

خارجہ امور کی ماہر ڈاکٹر بینی ڈییٹا برٹی نے اپنے تحقیقی مقالوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ آپ کو یہ نہیں دیکھنا کہ غیر ریاستی عناصر جب لڑ رہے ہوتے ہیں تو کیا سوچ کر لڑ رہے ہوتے ہیں۔ کیوں اور کس مقصد کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں ۔ ان سوالات کا جواب آسانی سے مل جاتا ہے۔ اگر ریاستیں اس غیر ریاستی عناصر کے عفریت سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں تو انہیں یہ دیکھنا ہو گا کہ جب یہ غیر ریاستی عناصر نہیں لڑ رہے ہوتے تو کیا کر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ پائیدار اور دیر پا معاشی استحکام کے لیے کیا کر ہے ہیں؟ ایمبولینس سروس کیوں چلا رہے ہیں؟ ڈسپنسریاں اور ہسپتال کیوں بنوا رہے ہیں ؟ تحفظ اور انصاف کی ضمانت اور بندوبست کیوں کر رہے ہیں؟

یہ ریاستوں کی غفلتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلا ہے جس کو غیر ریاستی عناصر پورا کرنے کی کوشش کر نے کا ڈرامہ کر کے اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئیے اس بات کو پاکستان کی مثال سے ہی سمجھنے کی کوشش کریں۔

سوات اور ہنزہ دو ایسی ریاستیں تھیں جہاں تعلیم عام تھی۔ والی ریاست نےسکولوں کا ایک جال بچھا رکھا تھا ۔ انصاف کے حوالے سے بھی ان ریاستوں میں حالات بہت بہتر تھے جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ ریاستیں چھوٹی تھیں اور جرگے اور کونسلز وغیرہ انصاف کے تقاضے پورے کرتی تھیں یا نہیں لیکن تاخیر نہیں کرتی تھیں۔

سوات پاکستان کا حصہ بنا۔ ریاست نے تعلیم و انصاف کی فراہمی میں غفلت برتی ۔ کوئی پوری زندگی جیل میں ہی سڑ کے مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ملزم بے گناہ تھا یا زمینوں کے مقدموں کے فیصلوں کا ایک ہی نسل میں ہو جانا ایک حیر ت انگیز وقوعہ ٹھہرا تو مایوسی بڑھتی گئی۔

طالبان نے جب وہاں ریڈیوکھولا اورعوام میں سرایت کیا تو پہلا نعرہ جلد اور فوری انصاف کی فراہمی کا لگایا۔ نہ صرف نعرہ لگایا بلکہ عدالتیں لگا کر مقدمات کو نمٹانا شروع کر دیا۔ ریاست کے چھوڑے اس خلا کو وہ پر کرتے گئے اور عوام ہمنوا ہوتی گئی۔ اس کے بعد کی ساری کہانی آپ کو معلوم ہے کہ ان غیر ریاستی عناصر کا مقصد کوئی فلاح و بہبود کے نظریات نہیں تھے ۔ جب وہ اپنے اصل مقاصد پر آئے تو سوات کے عوام ٹریپ ہو چکے تھے ۔ وقت گزر چکا تھا۔ سوات کے عوام نے ریاست کی غفلت کی قیمت بھی چکائی اور غیر ریاستی عناصر کے جبر کا نشانہ بھی بنے۔

آج آپ گذشتہ پچاس برسوں کے شماریات نکالیے کہ غیر ریاستی عناصر کے ساتھ جنگوں میں کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ریاستوں کے مابین جنگ میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں ؟ ثانی الذکر سوال کا جوابی ہندسہ بچوں کی غوں غاں معلوم ہو گا۔

بھارت اور پاکستان کی مثال لے لیں۔ 1965 کی جنگ میں ہلاکتوں کا مجموعی ہندسہ 7000 سے کم ہے۔ دوسری طرف پاکستانی ریاست کی غفلت سے مشرقی پاکستان میں غیر ریاستی عناصر کو پاؤں جمانے کا موقع ملا اور ہلاکتوں کی تعداد کا ہندسہ لاکھوں میں نہیں تو (جیسا کہ 30 لاکھ افراد کی ہلاکت کا دعویٰ بنگلہ دیش کی جانب سے کیا جاتا ہے) 50000 کے قریب ضرور تھی۔

ریاستوں کے مابین جنگوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو صرف 2016 میں این بی ڈی سی کے مطابق بھارت میں 337دھماکے ہوئے ۔ پاکستان نائن الیون کے بعد 40000 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔

غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی ٗ ریاستوں کی مخالف ریاستیں بھی کرتی ہیں۔ لیکن غیر ریاستی عناصر کی کامیابی ہدف بنائی گئی ریاست کی غفلت سے مشروط ہے۔ ریاستوں کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ جن غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی وہ کر رہی ہیں یہی غیر ریاستی عناصر ایک دن انہی کی ریاست کو لوٹ آئیں گے، غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی میں تسلسل قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے ۔ دنیا میں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں پیش نظر ان غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی سے پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔ جب ریاست پیچھے ہٹتی ہے تو یہ عناصر اسی ریاست پر چڑھ دوڑتے ہیں۔

یہ کیسا سودا ہے؟ غیر ریاستی عناصر سے جنگ میں اٹھنے والے اخراجات اور دوسری مخالف ریاستوں میں غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی پر ہونے والے ہوشربا خرچوں سے کہیں کم خرچہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے میں آتا ہے۔ عقل میں یہ بات آ تو جائے گی لیکن اس وقت یہ معلوم نہیں کہ دنیا رہنے کے قابل ہوگی بھی یا نہیں۔

ریاستوں کی اپنے عوام کو بنیادی حقوق مہیا نہ کرنے کی غفلت اور دوسری مخالف ریاستوں میں غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی ٗ دنیا کو ایک تیسری جنگ کی جانب دھکیل رہی ہے جہاں بظاہرا ریاستیں بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی بھی نہیں کر رہی ہوں گی اور خلا سے دکھائی دینے والی دنیا کے نیلے رنگ میں سرخ رنگ کی آمیزش بھی نمایا ں ہو گی۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik