مہمان نہ کوئی آوے ۔۔۔


 پتہ نہیں ہم کس کلاس میں تھے جب پہلی بار سکول سے چھٹی ہوئی۔ باز ہمارے ساتھ ہی بستہ اٹھائے ہمارے گھر آ گیا۔ یہ بھی پتہ نہ لگا کہ کب اس نے ہمارے والدین کو امی ابو کہنا شروع کر دیا۔ دوپہر کا کھانا ہم اکٹھے ہی کھاتے تھے۔ شام سے تھوڑا پہلے وہ جمرود اپنے گھر چلا جاتا۔

فاٹا کے لوگوں سے سیٹل ایریا کے لوگوں کو ایک ڈر نہیں تو جھجک ضرور محسوس ہوتی ہے ۔ آفریدیوں سے یہ جھجک تھوڑی زیادہ ہی ہوتی ہے پشاور کے لوگوں کو۔ باز آفریدی تھا لیکن ہم لوگ ابھی اس عمرکو پہنچے ہی نہ تھے کہ کسی خدشے کا شکار ہوتے۔ بچے سیدھے تعلق بناتے ہیں وہ بھی دل سے۔ جب ہم تھوڑا بڑی کلاس میں پہنچے تو باز کے ساتھ جمرود کے دورے روٹین بن گئے۔

ایک وقت وہ بھی آیا کہ دن رات کا بھی حساب جاتا رہا ۔ جب دل کرتا چلے جاتے۔ جمرود ٹیڈی بازار میں آدھی رات کو بھی پھرتے رہتے۔

ان دوروں سے پتہ لگا کہ باز کے اپنے والد سے نظریاتی اختلافات ہیں۔ دا جی کوئ کام سیدھے طریقے سے کرنے کو غیر شرعی سمجھتے تھے۔ پنگے جھگڑے تنازعے ہمارے آفریدی بھائییوں کا ٹریڈ مارک ہیں۔ وہ شائد اتنے پھڈے باز ہیں نہیں جتنے مشہور ہیں۔ پھر بھی اپنی کوشش کے باوجود ہم انہیں سادہ بھی نہیں بتا سکتے۔

ایک لطیفہ نما ڈائلاگ بھی سنا رکھا ہے۔ ایک آفریدی بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ حاجی صاحب کار دے سنگا دے کہ حاجی صاحب آپ کا کاروبار کیسا ہے۔ حاجی صاحب نے جواب دیا اللہ کا شکر ہے یو میں بھٹئی دے دوا میں لبڑی دی یعنی اللہ کا شکر ہے ایک میرا گودام ہے دو میرے پھڈے ہیں۔

دا جی بھی ایسے ہی حاجی صاحب تھے۔ پھڈا کرنا اسے ختم کرنے سے پہلے چھ نئے پھڈے تلاش کر کے رکھنا ان کا شوق تھا۔ انکی بدقسمتی یہ ہوئ کہ باز کو ایک ملٹی کلچر سکول میں داخل کرا بیٹھے۔ میڈم لودھی کا ممی ڈیڈی سکول جو ذہنی طور پر پسماندہ اور نارمل بچوں کو اکٹھے پڑھانے کے لئے ایک تجربے کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔

میڈم لودھی کا اپنا اثر تھا ایک فرق یہ بھی پڑا کہ باز دا جی پہنچ سے دور ہمارے گھر زیادہ وقت گزارتا تھا۔ وہ ہمارے ساتھ پنڈ بھی چلا جاتا تھا ۔ باز دا جی کے ہتھے نہ چڑھا الٹا ان کے پھڈوں کا مخالف ہو گیا۔

باز کی ننھی منی مخالفت اتنی بھرپور تھی کہ دا جی نے اپنے گینگ کو (یہ کپڑا اندروں پاکستان پہنچانے والا گینگ تھا )خیر باد ہی کہہ دیا ۔کپڑے کی سپلائی چھوڑ کر انہوں نے کپڑے کا ہی ایک گودام بنا لیا۔ باڑہ مارکیٹ کے لئے آنے والا کپڑا انکے گودام میں سٹاک ہوتا تھا۔ اس کو بھٹی کہا جاتا ہے۔ گودام سے اچھی آمدن ہونے لگی۔ دا جی پھر بھی صرف گودام کی آمدن پر اکتفا نہیں کرتے تھے دن میں دو رپھڑ ڈالنے کو بھی کاروبار ہی سمجھتے تھے۔

باز نے البتہ بالکل الٹ کام کیا اس نے بہت سی رشتہ دار خواتین کو ادھار کپڑا دینا شروع کر دیا۔ یہ خواتین گودام سے سستا کپڑا اپنے گھر لے جاتی تھیں۔ اپنے محلے میں بیچ کر اپنے لیے فالتو آمدن حاصل کر لیتی تھیں۔ باز کی فراہم کر دہ اس چھوٹی سی فیور کے نتائج بڑے تھے۔ خواتین کے پاس فالتو پیسے آئے تو ان کی اکثریت نے اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے پشاور کے سکولوں میں بھجوا دیا۔

باز نے ایک دن بتایا کہ سنگا پور سے ایک ہندو آیا ہے ہمارے پاس ٹھہرا ہے۔ اس کے پیسے یہاں کہ ایک تاجر نے دینے ہیں اور ہمارا مہمان بنا ہے۔ باز نے دا جی کی رپھڑی طبعیت کو سمجھا دیا تھا کہ اس مہمان کی مدد اب ہم پر فرض ہے جو چل کر ادھر آ گیا ہے۔

دا جی نے بھی اعلان کر دیا کہ ہندو پسے اس بہ زہ زان وجنم (ہندو کے لئے اب جان دونگا اور لونگا بھی)۔ یہ اعلان ہی کافی ثابت ہوا اور ہندو اپنے دو ڈھائ لاکھ ڈالر لیکر خوش و خرم واپس چلا گیا۔ دا جی کو کہہ گیا کہ جب چاہو جتنا چاہو کپڑا مجھ سے ادھار لے آنا سنگاپور سے۔ دا جی نے کہا زہ مڑا رک شا یعنی جا اپنا کم کر ۔

دا جی نے پھر ایک دن چپکے سے ہمیں کپڑے کا ایک سٹاک دکھایا جو وہ سنگاپور سے بہت شوق سے لائے تھے میڈ ان پاکستان بڑا بڑا اس پر لکھا ہوا تھا۔ کہنے لگے اب یہ یہیں پڑا رہے گا میری عقلمندی کی نشانی کے طور پر۔ اس سٹاک کو میں اب بیچوں گا بھی نہیں۔ ہندو تو ٹھیک ہے میں خود جو ٹھیک نہیں ہوں مجھے کیا پتہ وہاں سے کیا لے آوں۔

دا جی کو جب موقع ملتا وہ ہماری تربیت کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ پنجابی بہادری سے بالکل مطمئن نہیں تھے۔ زمین پر بیٹھنے پر اصرار کرتے۔ لوگوں کو آتے جاتے دیکھ کر سلام کرنے کا حکم دیتے۔ کچھ شر انگیز قسم کے مشورے بھی دیتے۔ باز ہمیں انکے پاس زیادہ دیر کو بالکل بیٹھنے نہ دیتا۔

دا جی وسی بابے کو سکھاتے رہتے کہ جب پھڈا نہ ہو تو کیسے ڈالا جا سکتا ہے۔ اس کو کیسے اپنی شرائط پر طے کیا جاتا ہے۔ ایک بار لمبا عرصہ ناراض بھی رہے کہ ایک پھڈے کو ہم نے بڑھانے سے گریز کیا۔

یہ دا جی کی دی ہوئی تربیت ہی تھی کہ ایک بار جرگے میں ہماری باتیں سن کر اک آفریدی ملک نے کہا کہ یہ لڑکا پشتو تو گڈ وڈ بولتا ہے لیکن یہ رہا ہم آفریدیوں میں ہی ہے۔ ملک صاحب نے ایسا عبرتناک فیصلہ کیا کہ جو ہر سائڈ سے ہمارے لیے ہی فائدہ مند ثابت ہوا۔ فیصلہ سن کر لوگ حیران ہوئے۔ ہمیں یاد آئے تو دا جی اور باز۔

اندرون سندھ اور پنڈ سے کوئ مہمان آتا وہ ہمارے ساتھ جمرود کا دورہ ضرور کرتا۔ جہاں ہم لوگ کلاشنکوف سے فائرنگ کی مشق کرتے۔ وہ لوگ کپڑا خریدتے۔ علی مسجد کے چشمے پر جا کر نہانا بھی ہمارا ایک مستقل کام تھا۔ دن ہو رات ہو جب دل کرتا ہم لوگ بہانہ کرتے اور باز کے پاس پہنچ جاتے۔

باز نے دا جی کے حکم پر وسی بابے کو کلاشنکوف سے فائرنگ کرنا سکھائی۔ یہ وہ واحد کام تھا جو اس نے دا جی کی مرضی سے کیا۔ دا جی ہماری نشانہ بازی بہت اہتمام سے دیکھنے آئے۔ انہوں نے کہا شاباش سے سامنے والے پہاڑ کا نشانہ لگاؤ۔ گولی جب اس کے ساتھ والے پہاڑ کو لگی تو دا جی خوشی سے لال ہو گئے۔ اسی خوشی میں بڑبڑاتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ سنائی بس اتنا ہی دیا کہ یہ پنجابی بھی ہے رہے گا بھی رنگ بھی کالا ہے کمبخت کا اور ہمارا منہ کالا کرے گا۔

ہم کالج میں تھے جب سندھ میں جام صادق وزیر اعلی بنے۔ ان کے ستائے ہوئے ایک پیر صاھب ایم این اے بھی باز فیملی کے پاس آ کر رہے۔ اک دو بار پیر صاھب کو دیکھنے کے لئے ہم لوگ خصوصی طور پر باز کے کزن کے گھر گئے۔ وہ بھی ہمارا سکول فیلو ہی تھا۔ واپس باز کے گودام پہنچے تو باز سے پوچھا کہ یہ ایم این اے یہاں کیوں آئے ہیں باز تو کچھ نہ بولا دا جی نے کان پکڑ لیا کہ کوئ مشکل میں گھر آ جائے تو اس کو پناہ دینے کے علاوہ کیا کریں۔ تم کب پنجابی سے آفریدی بنو گے۔

وہ غصہ کرتے رہے کچھ عین لسانی قسم کے تبصرے مزید کئے اور ہم وہاں سے بھاگ آئے۔

 پھر اک دن ہم بڑے ہو گئے۔ رابطے کم ہو گئے۔ جب کوئ مشکل کام ہوتا ہمیں باز کا خیال اجآتا۔ اپنی غیر موجودگی میں کسی مہمان کو سنبھالنا ہوتا اسی کو کہتے۔ وہی اس کو سیر کراتا وہی انہیں خریداری کرواتا۔ یہ اطلاع بھی دیتا کہ اتنے پیسے لگ گئے ہیں اور تمھارے پیچھے لکھ دیے ہیں۔

ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ سوات میں جس پیر صاھب کی میت قبر سے نکال کر لٹکائ گئ تھی انکی فیملی کو باز نے پناہ دی۔ باز کو فون کیا کہ اپنا خیال رکھو اس نے کہا کچھ اور کہتے تو تمھارا قبائلی ڈومیسائل کینسل کر دیتا۔

 باز کو ہم کیسے کیسے تنگ کرتے تھے۔ کسی دوست نے آدھی رات کو فون کیا جس کی فیملی ایمرجنسی میں پشاور آ رہی تھی۔ انکو ائیرپورٹ سے انکے گاوں پہنچانا تھا۔ خود زحمت کرنے کی بجائے باز کو جگایا جس کے لئے یہ سب کرنا فاصلے کی وجہ سے زیادہ مشکل تھا لیکن اس کو بتا کر خود سکون سے بے غم ہو کر سو گئے۔

وہ جمرود سے آتا پشاور ائر پورٹ سے مہمان کو لیتا تیسرے شہر پہنچا کر آتا۔ ہم خراٹے مارتے ، شام کو کہیں اس کا فون آتا کہ کمبخت پوچھ تو لیتے کہ مہمان کا کیا ہوا۔

 ہم باز کے ساتھ ہاتھ کرتے تھے۔ اس کا جواب اس کا عمل ہماری تربیت کرتا تھا۔ جانے یہ کیسی تربیت تھی ایک بار پوٹھوہار سے آیا ایک مہمان ہاسٹل سے نکالے جانے پر ہمارے گھر آ گیا میرے کمرے میں اسکی جگہ بنی ۔ اسے بیڈ پر سلانے کو یہ جھوٹ بولا کہ میں تو زمین پر ہی سوتا ہوں۔ وہ کئی مہینے میرا روم میٹ رہا ۔ مجھے زمین پر ہی سونا پڑا پھر عادت ہی ہو گئی۔ پندرہ سال ہو گئے ہیں اب مجھے زمین پر ہی سوتے۔ ایک دن یہ گلہ بھی پھر باز سے ہی کیا کہ تمھاری وجہ سے زمین پر سونے لگ گیا ہوں۔ تو اس نے کہا زمین پر سونے لگ گئے ہو تو کیا کمال کیا۔ مہمان کے لیے بندہ اتنا تو کرتا ہی ہے۔

 باز جب عملی زندگی میں آیا تو حالات اور وقت ایسا تھا کہ اس کی طبعیت اس کو ریلیف کا کام کرنے والے ایک ادارے میں لے گئی۔ اس کا کام پھر ایسا تھا کہ اس این جی او والوں کو اسے اپنا ڈائریکٹر بنانا پڑا۔ سوات اور فاٹا کے متاثرین کی اس نے جی جان سے خدمت کی۔

وہ مشکل کاموں میں ہاتھ ڈال لیتا تھا۔ پر اس سے کبھی کوئی ناراض نہیں ہو پاتا تھا۔

سراپا خدمت اس بندے کی جانے کیا بات بری لگی کہ اس کو دھمکیوں کے خط آنے لگے۔ اس نے پھر بھی اپنی روٹین نہ بدلی۔ اپنے لوگوں کے کام کرتا رہا، ان کے کام آتا رہا۔ آدھی رات کو گھر جاتے ہوئے اس کو تب روک کر مار دیا گیا جب وہ اپنے گھر سے دو سو گز دور تھا۔ وہ فون پر گھروالی سے بات کر رہا تھا۔ اپنا اور سب کا خیال رکھنا اس کے آخری الفاظ تھے۔

باز کو رخصت کرنے سارا علاقہ آیا ہم نہیں گئے۔ ہمارا میزبان ہی نہ رہا ۔گولی نے کتنے تعلق توڑ دیے ۔ حقیقت کو بس ایک یاد بنا کر رکھا دیا۔ ہم تو ہاتھ اٹھا کر دعا بھی نہ کر سکے کہ بخشی ہوئی روح کے لیے ہماری سفارش کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔

کتنے مہینے گزر چکے ہیں حساب نہیں رکھا۔ اب مہمان اچھے نہیں لگتے نہ ملنا اچھا لگتا ہے کسی سے۔ دل کہتا ہے کہ سب کو چیخ کر بتائیں کہ اب مہمان نہ کوئی آئے میزبان مر گیا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi