دیواریں مسائل حل نہیں کرتیں
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر دیوار اورباڑ تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ کام سب سے پہلے باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں مکمل کیا جائے گا۔ پاکستان کا خیال ہے کہ افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر دیوار بنانے سے دہشت گردوں کو ایک سے دوسرے ملک میں سفر کرنے میں مشکل ہوگی، اس طرح دہشت گردی پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔ اس دوران بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے نئی دہلی میں بارڈر سکیورٹی فورسز کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بھارت، پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کو 2018کے آخر تک مکمل طور پر سیل کر دے گا۔ اس مقصد کےلئے دیوار تعمیر کرنے کے علاوہ لیزر کنٹرول میکنزم سے بھی کام لیا جائے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2900 کلومیٹر طویل سرحد ہے جو کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے علاوہ ہے۔ بھارت اس سے قبل لائن آف کنٹرول پر دیوار تعمیر کر چکا ہے۔ اس طرح کشمیر میں ساڑھے سات کلومیٹر طویل دیوار کے ذریعے حد بندی کی گئی ہے۔ یہ دیوار تعمیر کرتے ہوئے بھی بھارت کا یہی موقف تھا کہ انتہا پسندوں کا داخلہ بند کرنے کےلئے یہ دیوار تعمیر کرنا ضروری ہے۔ پاکستان نے اس دیوار کی مخالفت کی تھی کیونکہ کشمیر بدستور متنازعہ علاقہ ہے اور دونوں ملکوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسے حل کرنا ہے۔ اب پاکستان اسی مقصد سے افغانستان کی سرحد کے ساتھ دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہے۔
اس وقت دنیا کے 65 ملکوں میں دیواریں تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے یا ان پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ عام طور سے دہشت گردی اور امیگریشن کو روکنے کےلئے دیواریں تعمیر کی جاتی ہیں۔ لیکن گزشتہ 25 برس میں اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دیواریں تعمیر کرنے سے سکیورٹی فراہم کرنا خام خیالی ہے۔ لیکن اس طرح تحفظ کا احساس ضرور پیدا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ملکوں اور مختلف علاقوں کے درمیان دیواریں تعمیر کرنے سے نفرتوں اور بدگمانیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ہمسایہ ملکوں کے درمیان زیادہ تشویش کا سبب ہونی چاہئے۔ اس کے باوجود مختلف ممالک دیواریں تعمیر کرنے کو ہی مسئلہ کا حل قرار دے کر اس پر وسائل صرف کرنے پر مصر ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ بحث صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے میکسیکو کی سرحد پر 2 ہزار میل لمبی دیوار تعمیر کرنے کے فیصلہ پر ہوئی ہے۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ اس طرح میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے لوگوں کی آمد کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔ میکسیکو نے اس دیوار کی مخالفت کی ہے۔ خاص طور سے جب صدر ٹرمپ نے یہ کہا کہ اس دیوار پر اٹھنے والے اخراجات بھی میکسیکو سے وصول کئے جائیں گے تو دونوں ملکوں کے درمیان تلخی میں اضافہ ہوا۔ میکسیکو کی حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی صورت یہ مصارف برداشت نہیں کرے گی۔ تاہم صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر خود کو اور اپنے حامیوں کو تسلی دی ہے کہ یہ اخراجات میکسیکو سے امریکہ آنے والی اشیا پر محاصل عائد کرکے وصول کئے جائیں گے۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ بالآخر یہ بوجھ امریکی شہریوں کو ہی ادا کرنا پڑے گا۔ دیوار پر اٹھنے والے اخراجات کے بارے میں بھی صدر ٹرمپ کا تخمینہ درست ثابت نہیں ہو رہا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اس پر 8 سے 10 ارب ڈالر صرف ہوں گے لیکن اب ماہرین کہتے ہیں کہ یہ مصارف 30 ارب ڈالر تک ہو سکتے ہیں۔
لوگوں کو تقسیم کرنے والی دیواروں میں سب سے زیادہ تنقید اسرائیل کی طرف سے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر 700 کلومیٹر طویل دیوار پر کی گئی ہے۔ اس دیوار کی تعمیر کو اسرائیل کی نسل پرستی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس طرح وہ فلسطینی عوام کو اپنی ہی سرزمین پر نقل و حرکت سے محروم کر رہا ہے۔ اسرائیل نے بھی سکیورٹی اور مسلح حملوں سے بچاؤ کا بہانہ بنا کر اس دیوار کو تعمیر کیا تھا لیکن اس نے فلسطینیوں کے ساتھ بداعتمادی کا جو رشتہ استوار کیا ہے ، اس کی وجہ سے اسے بدستور فلسطینی حملوں کا سامنا رہتا ہے۔ یوں بھی دیواریں اور رکاوٹیں عام لوگوں کا راستہ روک سکتی ہیں۔ جو لوگ جرائم میں ملوث ہوں یا دہشت گردی کا ارادہ رکھتے ہوں، وہ دیوار کے باوجود حملہ کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ اسی لئے ماہرین مسلسل یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دیواروں کے ذریعے نفرت اور کدورتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور حفاظت کے جس مقصد سے یہ دیوار تعمیر کی جاتی ہے، وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور بھارتی قبضہ میں کشمیر میں دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر بھارت نے دہشت گردی اور پاکستان کی طرف سے مداخلت کی روک تھام کےلئے دیوار تعمیر کی ہے۔ اس کے باوجود وہ مسلسل یہ شکایت کرتا ہے کہ پاکستان سے انتہا پسند مقبوضہ کشمیر میں جا کر فوجی ٹھکانوں پر حملے کرتے ہیں۔ یہ دیوار کشمیری عوام کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی افسوسناک کوشش ہے۔ اسے کشمیریوں کے علاوہ پاکستان نے بھی مسترد کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس بھارتی الزام سے انکار کیا ہے کہ اس کے ملک سے انتہا پسند مقبوضہ کشمیر یا بھارتی علاقوں میں جا کر دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت دیواریں تعمیر کرنے اور پاکستان پر الزام لگانے سے باز نہیں آتا۔ اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے متنازعہ امور کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خاص طور سے بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد صورتحال خراب ہوئی ہے۔ نئی دہلی نے کسی نہ کسی بہانے اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے اور پاکستان پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ برس جولائی میں نوجوان حریت پسند برہان وانی کی شہادت کے بعد احتجاج کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ آج بھی بھارتی فوج نے دو حریت پسند کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا ہے۔ کشمیری قیادت کو مسلسل نظر بند یا قید رکھا جا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج تعینات کرنے اور دیوار تعمیر کرنے کے باوجود بھارت امن و امان بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اب دیواریں تعمیر کرنے کا سلسلہ پاکستان کے ساتھ 1900 میل طویل بین الاقوامی بارڈر کے علاوہ بنگلہ دیش کے ساتھ 3 ہزار میل طویل سرحد تک لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح بھارت کو دہشت گردی اور انسانی اسمگلنگ جیسے جرائم سے نجات دلائی جا سکے گی۔ درحقیقت یہ فیصلہ اور اعلان بھارت کے انتہا پسند ہندو ووٹر کو اطمینان دلانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ سرحدوں پر 50 ہزار کھمبے نصب کرکے فلڈ لائٹس نصب کی ہیں۔ جو رات کے وقت اس علاقے کے چپے چپے کو روشن کر دیتی ہیں۔ یہ لائٹس اس قدر طاقتور ہیں کہ زمین سے سینکڑوں میل دور خلا سے بھی انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود بھارت اپنے عوام کے خوف اور عدم تحفظ کو ختم کرنے میں ناکام ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بھارتی عوام کو مسلسل یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ بھارت میں رونما ہونے والے ہر واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہونی چاہئے۔ دوسرے پاکستان کے ساتھ اختلافات دور کرنے اور مفاہمت پیدا کرنے کی بجائے مسلسل سیاسی نعرے بازی سے نفرت اور فاصلوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں سرحدوں پر دیواریں تعمیر کرکے بھارتی حکومت اپنے عوام کو مسلسل بے وقوف بنانے اور اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرنے کی حکمت عملی کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ پاکستان کے عالوہ بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد بند کرنے کے فیصلہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی حکام اپنے عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ حصار بند ہو کر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ صریحاً دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان بھی افغانستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کی بجائے دیوار تعمیر کرنے کو ہی مسئلہ کا حل سمجھنے لگا ہے۔ اسی کا اعلان اب جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے بھارت کی طرح افغانستان سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان نہیں کیا اور وہ افغانستان میں امن کےلئے ہر قسم کی عالمی کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہے اور ان میں شامل بھی ہوتا ہے۔ البتہ افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھنے اور انتہا پسند عناصر تک بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی رسائی کے سبب پاکستان کو افغانستان سے اندیشے لاحق ہیں۔ فروری کے دوران لاہور اور سہون شریف سمیت پاکستان میں جو متعدد دہشت گرد حملے ہوئے تھے، وہ سب افغانستان میں موجود عناصر کی طرف سے کروائے گئے تھے۔ اسی لئے پاک فوج نے ایک ماہ سے زائد عرصہ تک پاک افغان سرحد بند کئے رکھی تھی۔ بالآخر گزشتہ ہفتے کے دوران خیر سگالی کے اظہار کے طور پر وزیراعظم نواز شریف نے سرحد کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ افغانستان سے دہشت گردی کے اندیشے درست ہونے کے باوجود پاک افغان سرحد پر دیوار تعمیر کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس طرح کابل کو اسلام آباد سے فاصلہ پیدا کرنے اور الزام تراشی کی مہم میں اضافہ کرنے کا موقع ملے گا۔
دونوں ملکوں میں حقیقی امن اور دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کےلئے افغانستان اور پاکستان کو تعلقات بہتر بنانے اور بداعتمادی کی فضا کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے 30 لاکھ باشندے پناہ گزین کے طور پر پاکستان میں رہتے ہیں جبکہ ہزاروں پاکستانی افغان علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ دیوار کی تعمیر سے وقتی تحفظ کا احساس تو پیدا کیا جا سکے گا لیکن اس سے دہشت گردی کے خاتمہ کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کےلئے دونوں ملکوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی تعاون بڑھانے پر زور دینا ہو گا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).