سیکولرازم کے خلاف پی ٹی آئی کا فتوی


 پاکستان تحریک انصاف کا قیام بحیثیت جماعت کسی نظرے یا فلسفے کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ یہ خالصتا ایشو بیس سیاسی جماعت ہے۔ جو اپنے وجود سے آج تک نظریاتی بے راہ روی اور تذبذب کا شکار ہے۔ اپنی وجود کو برقرار رکھنے کے لئے چند مسائل کو اٹھا کر سیاسی میدان میں متحرک ہوتے ہیں اور لمبے عرصے تک کسی ایک یا دوسرے مسئلے کو سیاسی فضاء میں متحرک رکھتے ہیں۔ ان کے جلسوں میں موسیقی کی بھرمار اور خواتین کی شمولیت سے یہ تاثر ابھرا کہ شائد پی ٹی آئی پاکستان کی واحد جماعت ہے جو جدت پسندی اور قدرے روشن خیالی کوفروع دے رہا ہیں۔ بعض لبرل طبقات پاکستان تحریک انصاف کو حقیقی لبرل جماعت تصور کرتے ہیں۔ جبکہ مڈل کلاس کی یہ نمائندہ جماعت جدیدیت کا چادر اوڑھے نظریاتی طورپر رجعتی، فاشسٹ اور شدت پسندی پر گامزن ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ہر جدید طرز عمل کو اپنانے اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے سے ذرابھی نہیں ہچکچاتی البتہ جدید سوچ اور تصورات جنہوں نے یورپ وامریکہ کو آسمانوں تک پہنچایا سے انتہائی خوفزدہ ہیں۔ لبرل ازم اور سیکولرازم جیسے جدید جمہوری طرز سیاست و معاشرت کو وہ عقیدے سے بغاوت سمجھتے ہیں۔ اسی لئے تو جب عمران خان کے لئے کسی رائٹر نے لبرل سیاست دان کی اصطلاح استعمال کی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے عمران خان کا موقف تھا کہ وہ لبرل یا سیکولر نہیں بلکہ مضبوط عقیدے کے مالک مسلمان ہے۔ اور کوئی مسلمان لبرل نہیں ہوسکتا۔ اس قسم کے فتووں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ سوشلزم سے تو پی ٹی آئی راہنماؤں کی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نظریاتی بے راہ روی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے انتہائی تعلیم یافتہ راہنما اسد عمر نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ اب پاکستان میں لفٹ رائیٹ کی سیاست نہیں ہوگی بلکہ اب رائیٹ اور رانگ کی سیاست ہوگی۔ اسی طرح یوم پاکستان کے موقع پر ایک ٹی وی ٹاک شو میں انتہائی جذباتی لب ولہجہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی علی محمد خان نے دھمکی دی کہ ”یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے جو سیکولرازم کے مدعی ہے وہ اپنا قبلہ درست کریں یا ملک چھوڑ کر کسی سیکولر ریاست میں چلاجائے”۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت سمیت مختلف مذہبی طبقات اور مقتدر ادارے اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے بائین بازو کے دانشوروں کے خلاف محاذ کھولے رکھے ہیں۔ سیاسی مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا میں موجود نفرت انگیز مفاد کو مشتہر کرنے کے الزامات لگا کرزدوکوب کیا جا رہا ہے تو پی ٹی آئی کے ایم این اے کا حالیہ بیان سیکولر طبقات کے گرد مزید گھیرا تنگ کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ کیونکہ رجعتی عناصر سیکولرازم کو لادینیت، دہریت اور عقیدہ دشمنی سے تغبیر کررہے ہیں۔

آج جبکہ ہمارا معاشرہ تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہاہے۔ انتہا پسند نئے انداز اپنائے میدان میں اتر چکے ہیں۔ دھونس دھمکیوں کے بعد تعلیمی اداروں میں ہونے والی دہشتگردی سے ملکی فضا مکدر ہے تو ان حالات میں پاکستان تحریک انصاف کے منہ پھٹ راہنماؤں کی جانب سے میڈیا میں آکر بے تکی باتیں اور دھمکیوں سے ملک میں انتہا پسندی کو مزید فروع مل رہاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جدید علمی نظریات کو ان کے روح کے مطابق سمجھنے کی عادت سرے سے موجود ہی نہیں۔ نظریہ اضافت سے لے کر جمہوریت تک کو مذہب کے خول میں پرکھنے کی ناکام کوششوں کی ایک داستان ہیں۔ ایک زمانہ تھا جبکہ جنرل ضیا الحق اسلامی سائنسدانوں کے ذریعے جنات کی قوت کو تسخیر کرتے ہوئے بجلی میں تبدیل کرکے ملک سے توانائی بحران کے خاتمے کی نوید سنارہے تھے، آج بھی جنات سے بجلی پیدا کرنے کے تصور کو بعض حلقے درست خیال کرتے ہیں۔ تو ایسے میں سیکولرازم اور سوشلزم جیسے اصطلاحات کو معیوب سمجھنا کوئی انہونی نہیں کیونکہ معاشرہ برسوں سے ٹہراؤ کا شکار ہے کوئی نیا تصور سامنے آنے کا نام نہیں لے رہا اگر کوئی نیا تصور سامنے بھی آئے تو اسے مذہب دشمنی سے تغبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرز کا سلسلہ سیکولرازم پر بھی صادق آتا ہے۔ آخر سیکولرازم کا مطلب کیا ہے اور کیا تحریک پاکستان واقعی ایک مذہبی تحریک تھی۔

سیکولرازم کیا ہے؟

ایسا سیاسی وسماجی نظام جس کی بنیادین مابعد الطبعیات یا مذہبی احکامات کی بجائے سائنسی اصولوں پر استوار ہو اور جس میں مذہبی عقائد کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے سیکولز طرز سیاست ومعاشرت کہا جاتا ہے۔ سیکولرسیاسی نظام میں ذات پات، مذہب ومسلک اور عقائد سے ہٹ کر سارے شہریوں کو برابری کے حقوق میسر ہوتے ہیں۔ محض عقائد کی بنیاد پر کسی شہری کے ساتھ امتیازی رویہ نہیں برتا جاتا۔ ریاست اپنی فطرت میں نہ دیندار ہوتا ہے اور نہ ہی لادین۔ بلکہ ریاست اپنی خواص میں سیکولر ہوتا ہے۔ البتہ ریاست کے باشندوں کے عقائد ہوتے ہیں۔ سیکولرازم کا مطلب لادینیت یا مذہب سے انکار نہیں بلکہ ریاست کا شہریوں کے مذہبی معاملات پر غیر جانب دار ی ہے۔

کیا تحریک پاکستان ایک مذہبی ریاست کی تحریک تھی؟

ایک بنیادی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ”پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الہ اللہ” حالانکہ یہ نعرہ تحریک پاکستان کے درمیان کبھی بھی نہیں لگایا گیا۔ البتہ قائد کی وفات کے بعد جب میدان مولانا مودودی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور دوسری رجعت پسندوں کے لئے صاف ہوا تو انہوں نے یہ نعرہ ایجاد کیا۔ تحریک پاکستان کے تانے بانے صرف مذہب کے ساتھ جوڑنے والے یا تو تاریخی عوامل س ناواقف ہیں یا پھر جان بوجھ کر تاریخ سے روگردانی کررہے ہیں۔ کیونکہ جس قرارداد پاکستان کا ذکر عموما کیا جاتا ہے اس میں نہ تو کہیں اسلامی ریاست کی بات کی گئی ہے اور نہ ہی پاکستان کا نام لیا گیا ہے۔ قرارداد لاہور کا متن یوں ہے” آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کا متفقہ مطالبہ ہے کہ اس ملک کے لئے کوئی بھی آئینی پلان اس وقت تک قابل عمل نہ ہوگا اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہوگا، یہاں تک کہ اس کی ساخت مندرجہ ذیل اصولوں پر استوار نہ کی گئی ہو۔ ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے جغرافیائی لحاظ سے ملحق خطوں کی دوبارہ آئینی حد بندی ہونی چاہئے۔ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصوں میں عددی لحاظ سے مسلمان اکثریتی علاقوں کو ”آزاد ریاستوں” کی حیثیت سے گروپ بندی کی جائے۔ جس میں آئینی یونٹس لازما آزاد اورخودمختار ہو”( پاکستان میں تاریخ کا قتل، کے کے عزیز،173، پاکستان، ڈاکٹر صفدر محمود ص21)۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح آخری وقت تک متحدہ ہندوستان کےلئے جدوجہد کرتے رہے ان کی ساری کوششیں اس وقت بے ثمر ہوگئی جب آل انڈیا نیشنل کانگریس کے راہنما نہرو اور سردار پٹیل نے فیڈریشن یا کنفڈریشن کے حوالے سے قائد کے مطالبات کو ماننے سے انکار کیا۔ اور ہندوستان پر وحدانی طرز حکمرانی مسلط کرنے کی جدوجہد شروع کی۔تو اس کے ساتھ ہی دونوں کی راہیں جدا ہوگئی۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ پاکستان دراصل کمیونسٹ سویت یونین کے بہاؤ کا راستہ روکنےکے لئے سرمایہ دار ممالک نے تخلیق کیا۔

جو کچھ بھی ہو جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا ابواعلی مودودی، جمعیت علمائےہند وغیرہ تحریک پاکستان کے پرزور مخالف تھے۔ قائد اعظم ان کی دشنام طرازی سے بچ نہ سکے۔ لیکن جونہی پاکستان بننے کے بعد قائد کی رحلت ہوئی تو ان چورن فروشوں کو موقع ہاتھ آگیا اور شور مچانا شروع کیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اگر اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا تو کیوں بنا؟ یہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو گزشتہ ستر برسوں سے جاری ہے۔ لیکن یا تو ہم اس کی تاریخی حیثیت کو چیلنچ کرنے سے قاصر ہے یا پھر تاریخ میں جھانک کر حقائق کی تلاش کو وقت کا ضیاغ سمجھتے ہیں۔

سن 2013 کے انتخابات سے قبل جماعت اسلامی کے سابق امیر مولوی منور حسن نے بیان دیا کہ جو لوگ خود کولبرل کہتے ہیں وہ اپنا نام اقلیتوں کی لسٹ میں درج کریں۔ البتہ انتخابات کے نتیے میں ماسوائے دیر کے باقی ملک سے جماعت اسلامی کا مکمل صفایاں ہوگیا۔ اور اب دیرسے بھی رفتہ رفتہ جماعت ہاتھ دھورہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے راہنماؤں کی اکثریت جماعت اسلامی سے راہیں جدا کرنے والوں کی ہے۔ جب پاکستان تحریک انصاف کا عروج ہوا تو جماعت سے مایوس افراد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے پی ٹی آئی میں ان کے لئے نظریاتی فضا بھی تیار تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے انہیں اپنی رجعتی نظریات کے پرچار کا موقع ملا۔ علی محمد خان کا شمار جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے انتہائی چرب زبان اور لڑاکو مزاج کے سخت گیر رجعتی سیاست دان ہے جو ٹی وی تبصروں میں مخالفین کے خلاف ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر آتے ہیں۔ اور اپنے رائے کے اظہار سے قبل لمبی تلاوت کرتے ہیں تاکہ قرآن کریم کے مقدس آیات کی چھتری تلے جو بھی کہہ لے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا۔ یہی کچھ گزشتہ دنوں ٹی وی ٹاک شو میں دیکھنے کو ملا جب لمبی تقریر کے دوران علی محمد خان نے اعلان کیا کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اگر کوئی خود کو سیکولر تصور کررہے ہیں تو وہ اپنا قبلہ درست کریں یا ملک چھوڑ کر کسی سیکولر ریاست میں چلا جائے۔ یہ تصور پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت میں بھ موجود ہیں۔

(کریم اللہ نے پشاور یونی ورسٹی سے پالیٹیکل سائنس میں ماسر کیا ہے۔ فری لانس صحافی‘ کالم نگار اور بلاگر ہیں اور معاشرے کے سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).