پٹھان باریش بزرگ کی کائنات شکن …  چار  لمحاتی مسکراہٹ!


ہمارے ہاں تقریبا تما م اداروں کے تعلقات عامہ کے شعبے کے لوگ ایسے چن چن کر رکھے جاتے ہیں  جیسے مقصد صرف ڈیسک کی دوسری جانب کھڑے عوام کی عزت نفس پر جو تیاں رسید کرنا ہو۔ یوں لگتا ہے جیسے ان لوگوں کو معاوضہ اس عظیم “خدمت” کے سرانجام دینے کا ہی ملتا ہے۔

مثال کے طور پر آپ ریلوے اسٹیشن ٹکٹ بوتھ کے آگے کھڑے ہو جائیں۔لمبی قطار میں آپ کا نمبر 50 واں ہے۔ آپ حیران ہیں کہ قطار ایسی جامد ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ تھوڑا آگے سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ٹکٹ کاٹنے والے صاحب چائے پی رہے ہیں اور دوسرے ملازموں سے گپ شپ ہو رہی ہے۔

مجھے جب جب ایسا منظر دیکھنے کا اتفاق ہوتا تو غصہ اس ٹکٹ کاٹنے والے سے زیادہ لمبی قطار لگائے عوام پر آتا  کہ کیسے خاموش کھڑے اندر ہی اندر کڑھ رہے ہیں۔ کوئی صاحب اپنا سارا غصہ قلی پر نکال رہے ہیں اور کہیں کسی ماں کے اپنے بچے کو بغیر کسی غلطی کے مارنے کی آواز آنے لگتی ہے۔ کہیں جمہوریت کو سنائی جا رہی ہیں تو کہیں “یہ ملک کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا” کی گردان دہرائی جا رہی ہے۔

مجھ پر ایک پوا دور ایسا گزرا ہے کہ جب ایسے مواقع پر آگے جا  کر “چائے پینے والے ٹکٹ  دینے والے” کو سنائیں۔ کہیں ایک دو پڑ بھی گئیں ۔ لیکن دوسرا قضیہ میرے لیے آسان ہوتا جبکہ قطار میں بغیر کسی وجہ کے کسی اہلکار کی غفلت سے کھڑے رہنا کہیں بار ہوتا۔

یہی صورتحال ہسپتالوں کی ہے ۔ ایسے کسی موقع پر آپ لڑنے آگے جائیں تو ایک ہی دلیل سننے کو ملتی ہے (اگر کوئی اہلکار دلیل دینے پر راضی ہو تو) کہ ہمارا یہ معمول ہے روزانہ کا کام ہے وغیر ہ وغیرہ۔

کبھی کبھی حسین اتفاق بھی ہو جاتا ہے ۔ یہ حسین اتفاق کسی ادارے کے تعلقات عامہ کے شعبے سے ہو تو بھولتا نہیں کہ ہمیں اس شعبے سے وابستہ کسی اہلکار سے اخلاق کی توقع کم ہی ہوتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر تو پھر بہتر ہے سرکاری اداروں کے اس شعبے میں بیٹھے افراد کی تو بنیادی شناخت ہی ماتھے پر گہری سلوٹیں اور رویے میں بے اعتنائی ہے۔

گذشتہ ماہ گیس کا بل گھر نہیں آیا ۔ مجھے گیس کا بل لینے ایس این جی پی ایل اسلام آباد کے دفتر آئی نائن میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بل کی درستگی اور نئے بل جاری کرنے کے ڈیسک پر ایک باریش پٹھان بزرگ بیٹھے تھے۔ میں مشین سے انتظار کا رسید نمبر لیے کرسی پر بیٹھ گیا۔ پانچ منٹ کے اند ر ہی نمبر آ گیا۔ میرے اور ڈیسک کے مابین دس قدم کا فاصلہ تھا۔ دوسرے قدم پر مجھے احساس ہوا کہ ڈیسک پر بیٹھے باریش پٹھان بزرگ پوری شدت سے مسکرا رہے ہیں ۔اگلے آٹھ قدم میں ان کی جانب چلتا رہا اور وہ مسکراتے رہے۔ پاس گیا تو انہوں نے حال چال پوچھا۔ مسکراہٹ پوری شدت سے ان کے چہرے پر تھی ۔ یوں جیسے کوئی دیرینہ دوست ملتا ہے۔ مسکراہٹ میں کوئی خاص بات تھی جو مجھے الجھا رہی تھی۔ وہ خاص بات یہ تھی (جو بعد میں میں نے نوٹ کی ) کہ ان بزرگ کے چہرے پر مسکراہٹ میں کسی طرح کا کمرشل ازم نہیں تھا۔ بس ایسے ہی جیسے آپ کسی گاؤں میں اجنبی خوش اخلاق بابے سے ملتے ہیں۔

میں نے کہا ، سر بل گھر آیا نہیں ۔ تو نیا بل عنایت فرما دیں

پٹھان باریش بزرگ نے میری بات تو سن لی لیکن ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ایسے ہی مسکراتے رہے۔ چار سیکنڈ میرے لیے کافی پریشان کن ثابت ہوئے ۔ مجھے عجیب بے چینی سی ہوئی کہ کیا بزرگ نے میری  بات نہیں سنی ؟ یا میں نے کچھ احمقانہ کہہ دیا ہے۔

لیکن چار سیکنڈ کی اس کائنات شکن مسکراہٹ کے بعد انتہائی محبت سے کہنے لگے۔۔’ہو جاتا ہے۔ کوئی بات نہیں ۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ بالکل پرسکون رہیں۔ ہماری غلطی ہے ، ہم تصحیح کریں۔ ہم درست کر دیں گے معاملہ۔۔’

میری حالت یہ کہ جیسے صحرا میں جاں بلب مرتے شخص کے آخری لمحوں میں اسکی نظر ریت پر پڑی ٹھنڈی ٹھار بوتل پر پڑے اور بوتل کے مشروب میں برفانی ٹکڑے تیر رہے ہوں ۔۔

یا کسی اغوا شدہ لڑکی جسے دنیا کے عذاب جھیلتے مدت گزر جائے ، وہ انس محبت رواداری جیسے الفاظ سے ناآشنا ہو جائے  ۔ دکھ درد اور عذاب اس کے ریشوں کا حصہ بن جائیں۔ آنکھوں کا نمک رگوں میں دوڑتے خون کے ساتھ تحلیل ہو کر اسے مستقل نمکین کر دے ۔ اور اچانک اسے ماں مل جائے۔

بل کا بلیک اینڈ وائٹ پرنٹ میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے مسکراتے رہے۔ میں نے جاتے ہوئے پوچھا، ‘ سر آخری تاریخ گزر چکی ہے تو کیا ابھی بھی کسی بینک میں ہی جمع کرانا ہو گا یا۔۔ آپ کے اس دفتر۔

میرے اس سوال کے بعد پھر وہی کائنات شکن مسکراہٹ کے چار سیکنڈ ۔۔

‘ بینک میں جمع کرا دیں ناں، کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ بینک جمع کرے گا ناں جی ۔ بینک ضرور جمع کرے گا ۔ کوئی مسئلہ ہوا تو آ پ آ جائیے ۔۔ ہم یہاں ہیں ناں۔۔آپ نے پریشان نہیں ہونا۔۔خوش رہنا ہے بس’

میری یہ حالت کہ چیخ کر بزرگ سے کہوں ۔۔مجھے جوتے مار لیں گالیاں دیں ، سخت سست کہیں ۔۔ یہ ملک کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا جیسی باتیں کریں ۔۔ لیکن یہ رویہ ۔۔یہ محبت بھرا رویہ نہ اپنائیں۔ مجھے گالیاں اور جوتیاں اس ملک میں زندگی دیتی ہیں ۔ لیکن یہ محبت والےرویے کی ناقابل برداشت  حیرت مجھے مار ڈالے گی۔

ایس این جی پی ایل کے دفتر سے نکلتے ہوئے میں دروازے پر رک گیا اور اس ڈیسک کی جانب چور نگاہوں سے دیکھنے لگا کہ یہ رویہ کہیں میرے ساتھ حادثاتی تو نہیں تھا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ بعد میں آنے والے  شخص کو بھی کائنات شکن چار سیکنڈ کی مسکراہٹ کا سامنا تھا۔ وہ مفلوج تھا اور میں اس مفلوج لمحے میں تیزی سے باہر نکل آیا۔

اس بات کو ایک ماہ گزر گیا۔

آج صبح اٹھا تو عائشہ نے بتایا کہ پچھلے بل کی رقم پھر اس بل میں آ گئی ہے ۔ بل کی تصیح کروا کر جمع کروانا ہو گا۔ایسے موقع پر عموما محکمہ گیس کے لیے گالیاں دل ہی دل میں نکلتی چلی جاتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا میرے دل میں ایک خوشی کی پھلجڑی پھوٹتی چلی گئی۔

ایس این جی پی ایل کے دفتر آئی نائن اسلام آباد پہنچا اور جلدی سے گاڑی پارک کر کے  اند ر داخل ہوا۔ تجسس تھا کہ وہ بزرگ بیٹھے ہوں گے یا نہیں  اور اندیشہ تھا کہ کہیں چھٹی پر نہ ہوں۔

اندر داخل ہوتے ہی مطلوبہ ڈیسک پر نگاہ کی۔ بزرگ مسکراہٹ کے سازو سامان سمیت ڈیسک سجائے بیٹھے تھے۔ میرا نمبر آیا۔ وہی آٹھ قدم۔۔ وہی چار لمحوں کی کائنات شکن مسکراہٹ ۔۔ فرق یہ تھا کہ اس بار میں سٹپٹایا نہیں۔۔ بزرگ کی اس کائنات شکن مسکراہٹ کا سامنا شان و شوکت سے کیا ۔

کہا پچھلا بل لگ کر آ گیا ہے۔۔

دیکھتے رہے۔۔ فرمانے لگے۔۔ ہو جاتا ہے ۔۔کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ہماری غلطی ہے۔۔تصیح بھی ہم کریں گے۔ مشقت ہوئی ۔۔معافی چاہتا ہوں۔ اب آپ دیکھئے گا ۔۔۔آپ کے دیکھتے دیکھتے مسئلہ حل ہو جائے ۔۔ یہ دیکھیں ۔۔یہ پرنٹ نکلا ۔۔یہ لیجئے ۔۔پھر ایک مشفق قہقہہ

میں نے دیکھا کہ مجھ سے پہلے جو دو تین افراد کھڑے تھے اور جن کا کام ہو گیا تھا وہ بدستور کھڑے ہوئے ہیں اور میرے نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اصل میں وہ کام ہونے کے بعد ان بزرگ سے ہاتھ ملانا چاہتے تھے لیکن میں آ گیا۔ اب وہ انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی میں ایک طرف ہوا ایک صاحب آگے بڑھے اور شیشے میں سوراخ سے ہاتھ اندر داخل کیا جو باریش پٹھان بزرگ نے پکڑ کیا ۔۔ایسا پکڑا کہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتے تھے۔

ان صاحب سے پو چھا ۔۔ آپ کا تعلق کس علاقے سے ہیں۔ صاحب نے جواب دیا ۔۔۔مری سے

ہاتھ بدستور پکڑا ہوا ہے اور بزرگ کہہ رہے ہیں (مسکراہٹ شدت سے نمایاں ہے)  آپ مری سے ہیں۔۔ کیا خوبصورت جگہ ہے ۔۔ آپ خوش تو رہتے ہیں ناں (آنکھ مارتے ہوئے)  خوش رہا کریں۔۔

میں ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔ دونوں صاحبان نکلے تو میں جلدی سے چہرہ شیشے کے سوراخ کے پاس لایا اور کہا ۔۔

 سر میں آپ کے اخلاق سے شدید متاثر ہوا ہوں!

انہوں نے مسکراتے شرماتے ہوئے دعائیہ کلمات کہے اور میں سلام کہہ کر باہر نکل آیا۔۔

میں بہت خوش تھا۔ پچھلے دو ونوں سے ایک دفتری معاملے کی وجہ سے افسردگی کے دورے کا شکار تھا۔

لیکن اب خوش تھا۔۔ افسردگی ختم ہو چکی تھی۔ دفتری معاملہ بچوں کی غوں غاں موافق محسوس ہو رہا تھا۔

سوچ رہا تھا۔۔ ہوا کیا۔۔ نہ میں نے ان بزرگ کو کوئی رقم دی نہ انہوں نے مجھے کوئی مالی تحفہ دیا۔۔فقط ایک سرکاری قضیہ ہم نے خوش اسلوبی سے نمٹایا۔

اپنے دفتر پہنچ کر یہ کالم لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں  کہ گیس کا محکمہ اگلی غلطی کب کرے گا اور کب ان باریش پٹھان بزرگ سے ملاقات ہو گی!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik