یہ جو کراچی سے محبت ہے


کراچی میرا شہر ہے, وہ شہر جہاں میں نے جنم لیا۔ جس شہر میں آپ نے پہلی سانس لی ہو۔ جس مٹی پہ آپ نے پہلا قدم اٹھایا پہلا لفظ بولنا۔ پہلا لفظ پڑھنا اور لکھنا سیکھا ہو اس سے آپ کی محبت اپنی ماں جتنی نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہوتی۔ برسوں گذرے پردیس میں بسے لیکن یہ دل ہے کہ اب بھی اپنے ملک اور اپنے شہر کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔ اس کے غم پہ افسردہ ہوتا ہے۔ اور اس کی خوشی میں جھوم اُٹھتا ہے۔ اب جس شہر سے آپ نے محبت کی ہو ماں جیسی گرم جوشی اور محبت پائی ہو اس میں آپ برائی کیسے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کبھی کوئی شہر بُرا بھی ہوتا ہے۔ بالکل نہیں شہر برا نہیں ہوتا۔ مٹی اپنی تاثیر نہیں بدلتی۔ ہاں لیکن اس شہر کے باسیوں میں برائی ضرور ہو سکتی ہے اور کمزوریاں بھی۔ لیکن کچھ نام نہاد دانشور ایسے بھی ہیں کہ انہیں اس شہر کی برائیوں کا چرچا ہی بھاتا ہے۔ کیا خوب کہ یک قلم زد فیصلے صادر کردئیے جائیں کہ شہر میں صرف غنڈوں کا لٹیروں کا راج ہے۔شہر پہ جہالت نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ شہر کے عالموں کی ڈگریاں ہی جعلی ہیں۔ شہر کے سارے بچے نقل سے پاس ہوتے ہیں۔ لوگوں کے قصور شہر کے سر منڈھنا بھلا کون سی عقل و دانش ہے۔

مجھ سے پوچھئے کہ میرا شہر کیا ہے۔ میرا شہر قائد اعظم کا شہر ہے۔ آئیے آپ صرف قائد اعظم کے احسانوں میں سے ذرہ برابر کا حق ادا کردیجئے۔ میرے شہر کا چہرہ دیکھنا ہے تو ایدھی کے گھر کا دیدار کیجئے گا۔ سڑکوں پہ چلتی ایدھی اور چھیپا ویلفیر کی ایمبولینس کے فلییٹ کو دیکھئے۔ اور بتائیے کہ دنیا میں کہیں کسی چئیریٹیبل ادارے  کے پاس اتنی ایمبولینسز ہیں۔ ایدھی سینٹر میں کام کرنے والوں کے چہروں کو پڑھئیے کہ جب ان کی عزیز ترین ہستی کی تدفین کی جارہی تھی تو وہ تب بھی دوسروں کی خدمت میں مصروف تھے کہ یہی ان کو ایدھی صاحب نے وراثت میں دیا تھا۔ اکیسیویں صدی کے نام نہاد دانشور حضرات مہربانی کیجئے اور بتائیے کہ پاکستان کے کتنے شہروں میں ایدھی جیسی مثال ڈھونڈ سکتے ہیں۔ کراچی کو دیکھنا ہے تو ادیب رضوی کو دیکھئے۔ گنتی کے چند بستروں سے شروع کیا جانے والا یورولوجی وارڈ آج ایس آئ یو ٹی کہلاتا ہے جہاں سالانہ تیس لاکھ لوگوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ ہفتے کے روز ڈاکٹر ادیب رضوی کی او پی ڈی میں تشریف لائیے اور صرف ایک دن میں دیکھے جانے والے مریضوں کی تعداد دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ آج ایس آئ یو ٹی کی تین کثیرالمنزلہ عمارات میں گردوں کی معمولی بیماری سے ڈائیالیسس اور ٹرانسپلانٹ تک مفت کیا جاتا ہے۔یہ پورا انسٹیٹیوٹ مخیر حضرات یعنی عوام کے ڈونیشنز سے بنا ہے اور اس میں پاکستان بھر سے لوگ فری علاج کے لئے آتے ہیں۔  اور یہ فری علاج بغیر کسی امیر و غریب کے امتیاز کے کیا جاتا ہے، آپ کی عزتِ نفس کی حفاظت کے ساتھ۔  یہ میرا کراچی ہے۔ یہ ہسپتال اور اس میں چوبیس گھنٹے کام کرنے والے ہزاروں لوگ کراچی کا چہرہ ہیں۔  یہاں  جونئیر ڈاکٹر، نرسز اور ٹیکنیشنز تک انٹرنیشنل لیول کی تربیت یافتہ ہیں، جعلی ڈگری ہولڈرز نہیں۔

کراچی کا چہرہ دیکھنا ہے تو صارم برنی کو دیکھیے کہ ان کا فلاحی ادارہ کتنی  ہی بے سہارا خواتین اور بچیوں کا سہارا ہے۔ آئیے بڑی بڑی غیر ملکی کمپنیوں اور بینکوں  میں کام کرتے اُن نوجوانوں سے ملئے جو ان عہدوں پہ میرٹ پہ منتخب کئے جاتے ہیں۔ بقول لوگوں کے “اگر نقل کرکے” پاس ہونے والے اس قابل ہوتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ تو کیا ہی بات ہے ان کی۔

چلیں مان  لیاجائے کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانوں میں نقل ہوتی ہے تو ایسے سارے نااہل طالب علم اگلے مرحلے پہ تعلیم کی دوڑ سے باہر ہو جاتے ہیں۔ جب میڈیکل، ڈینٹل، انجینئرنگ اور دوسرے پروفیشنل کورسز کے انٹری ٹیسٹ سے گزرتے ہیں۔ اور آگے صرف وہی لوگ بڑھتے ہیں جو کراچی کے مستقبل کا روشن چہرہ بنتے ہیں اس شہر کی پہچان۔

 کروڑوں  کی آبادی والے شہر میں اگر چند سو لوگ بھی غنڈہ گردی کے حوالے سے مشہور ہیں تو وہ کراچی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ رہی بات اسٹریٹ کرائم کی تو پاکستان کا کون سا ایسا شہر ہے جہاں ایسا نہیں ہوتا۔ خاکسار لاہور میں اپنے ہی گھر کے سامنے اسٹریٹ کرائم کا شکار ہو چکی ہے۔ تو بدنام صرف کراچی کیوں۔

کراچی کو دیکھنا ہے تو اس کے اچھے تعلیمی اداروں کو دیکھئے۔کراچی  کے دو چار اساتذہ کی وجہ سے ہمارے استادوں سے استہزاء  نہ کیجئے۔ کبھی کراچی یونیورسٹی کے ایچ ای جے میں تشریف لے جائئے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کے قائم کردہ انسٹیٹیوٹ کے کارناموں کو جانیں تو اپنی علم کی محدودیت کا اندازہ ہوجائے گا۔ ڈاکٹر اقبال چودھری آج ایچ ای جے کے سربراہ ہیں دیکھئے ان کے اسٹوڈنٹ کس طرح اپنے شعبے میں دنیا بھر میں نام  پیدا کر رہے ہیں۔ اور یہ تو صرف ایک ڈپارٹمنٹ ہے۔  یہاں ہر ڈپارٹمنٹ میں لعل وجواہر ہیں ۔ لیکن کیا کہیے کہ ہیرے کی قدر جاننے کے لئے جوہری ہونا بہت ضروری ہے۔

کراچی کو جاننا ہے تو جانیے کہ جب بم دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں تو کیسے لوگ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ خون کے عطیہ کرنے والوں اور مدد کرنے والوں کی قطار ایک پکار پہ کس طرح حاضر ہوجاتی ہے۔ کراچی کو جاننا ہے تو سول ہسپتال میں سالوں سے قائم پی ڈبلیو ڈی کے بلڈ بنک کا وزٹ کیجئے اور دیکھئے کہ کیسے ڈاؤ میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹ رضاکارانہ طور پہ یہ بلڈ بنک چلاتے ہیں۔

کراچی سے لوگوں کی محبت دیکھنی ہے اور سمجھنا ہے تو پاکستانی مدر ٹریسا روتھ فاؤ سے ملئے کہ وہ چالیس سال سے جرمنی چھوڑ کر کراچی میں کیوں رہتی ہیں اور کس خوبی سے جذام سے بچاؤ کا ادارہ فلاحی بنیادوں پہ چلا رہی ہیں۔ کراچی سے ملنا ہے تو ایل آر بی ٹی والوں سے ملئے جو صرف کراچی میں ہی نہیں ملک بھر میں آنکھوں کے فری علاج کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔

فہرست تو ہے بے حد طویل لیکن کراچی کا زکر ہو اور مبشر زیدی کا نام نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔  کیا جادو ہے ان کے قلم میں۔ آپ کے ہزار الفاظ کے کالم  کا جواب وہ گن کر پورے سو لفظوں میں دے سکتے ہیں۔  فلیش فکشن کے امام اور ہمارے شہر کا روشن چہرا۔

تو جناب یہ تو محض چند نام تھے۔ کراچی میں ایسے ناموں کی لمبی فہرست ہے۔

رہیں علمی و ادبی سرگرمیوں کی بات تو جنگ اخبار تو آج بھی کراچی سے نکلتا ہے کراچی کے باسی آج بھی مڈویک اور سنڈے میگزین پڑھتے ہیں۔ کراچی کے کتب میلے اور لٹریچر فیسٹیول کی رونقیں آج بھی سلامت ہیں۔ ہاں لوگوں کو نظر نہیں آتی کہ ان کے ظرف کی تنگی آڑے آہی جاتی ہے

جی ہمیں علم ہے کراچی کے مقدر میں اپنے پرایوں کے بہت سے زخم ہیں۔ کراچی نے جنہیں سب کچھ دیا وہ بھی کراچی کو لوٹنے اور لعن طعن کرنے والوں کی صف میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔ کراچی تو ہمیشہ سے غریب پرور شہر رہا ہے۔ ٹوٹے جوتے اور خاک آلود لباسوں میں آنے والے دوسرے صوبوں کے باسی یہاں آکے خوشحال اور با علم ہوجاتے ہیں کہ اس شہر کا دل بہت بڑا ہے۔ یہاں روٹی پہ پیاز رکھ کے کھانے والا آیا یا لکھنئو کے محلات چھوڑ کر آنے والا۔ اس شہر کی بانہیں ہمیشہ سب کے لئے کشادہ ہی رہیں بنا کسی امتیاز کے۔

اللہ میرے شھر کی رونق کو سلامت رکھے۔ لیکن کچھ محبت کے دعویداروں کی محبت کا عالم تو ھے کہ انہیں اس کی برائیاں تو نظر آتی ہیں لیکن اس کے اچھے پہلو وہ سرے سے نظر انداز کرجاتے ہیں۔محبت کے آداب  سیکھئے جناب۔ جس سے محبت کرتے ہیں اس کا مذاق نہیں اُڑایا جاتا۔ دور سے بیٹھ کر انگلی اٹھانے کے بجائے ہاتھ بڑھا کر اس کو مشکل سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  جب آپ کا شہر زخم زخم ہوتا ہے تو اس پہ مرہم لگا کہ حق ادا کیا جاتا ہے ان پہ نمک نہیں چھڑکا جاتا۔ لیکن کراچی کے نمک کا حق ادا کرنا آسان نہیں۔ آسان ہے تو بس طعنے دینا اور دشنام طرازی کرنا-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).