بول ٹی وی کو نجی زندگی میں مداخلت کی اجازت نہیں دی تھی
چند دن قبل مجھے کورٹ رپورٹر نے ایک خبر بھیجی جس میں لکھا تھا کہ بول ٹی وی کے وکیل نے عدالت میں درخواست جمع کروائی ہے جس میں پیمرا کی بول کے پروگرام” ایسا نہیں چلے گا” کی بندش کو آزادی اظہار کے منافی قرار دیا گیا اور موقف اپنایا گیا کہ یہ اقدام آزادی اظہار کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اب ذرا خبر پر رُک کر میں اِن سوالات کی طرف آتا ہوں جو میرے صحافی دوست مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ بول ٹی وی کیوں چھوڑا؟ جواب یہ کہ بول میں بیٹھے چند ایگزیکٹ ملازمین کا کہنا تھا کہ میں نے وٹس ایپ سے دوستوں کو ایک میسج کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ”مجھے بھی سن کر خوشی ہوئی، اچھی خبر ہے ”کے الفاظ میں نے عامر لیاقت کے پروگرام کی بندش پر کہے۔
صرف یہی سوال کیا جاتا تو شاید کوئی زیادہ اہم بات نہ ہوتی لیکن اس کے ساتھ مجھ سے میرا فیس بک ، ٹویٹر اور انسٹا گرام پاس ورڈ مانگا گیا جسے میں نے بتانے سے انکارکر دیا،یقینااِن اکاونٹس کا تعلق میری نجی زندگی سے ہے،جس کے بعد میں نے ایک سوال کیا کہ میرے وٹس ایپ تک کیوںرسائی حاصل کی گئی؟جس پر مجھے بتایا گیا کہ میرے یہ الفاظ ”مجھے بھی سن کر خوشی ہوئی اچھی خبر ہے” سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں اور اب تک لاکھوں لوگ سن چکے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ بول کے لوگ ہی بول کا ساتھ نہیں دے رہے۔ یہ سن کر مجھے عجیب محسوس ہو اکہ کیا مذاق ہے ،ایک تو میرا پرسنل ڈیٹا جو میں نے اپنے ایک وٹس ایپ گروپ میں بھیجا تھا ،اور دوسرا یہ کہ میرے سوشل میڈیا اکاونٹ پاسورڈ کے ساتھ مانگے جا رہے ہیں کیوں اور کس حیثیت سے؟ تیسرا یہ کہا جا رہا ہے کہ عامر لیاقت کے غداری غداری کھیل میں اُس کے ساتھ کیوں کھڑے نہیں؟
یہ سب سن کر مجھے حیرت ہوئی۔یہی باتیں جاری تھیں کہ پروگرامنگ کے ایک دوست جن کانام شاہ زیب ہے اور عامر لیاقت اُس کی لائیو پروگرام میں کئی بار تعریف کر چکے ہیں۔ وہ میرے پاس آئے اور ایک ایسا سوال کیا جسے سن کر میں حیران ہوا، محترم پوچھنے لگے حیدر آپ صحافی ہو۔؟ میں نے کہاجی صحافت کا طالب علم ہو ں ،دوسرا سوال یہ کیا کہ بتائیں آپ مسلمان صحافی ہیں یا کافر صحافی؟ میں نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا ایسے لوگ جن کا صحافت کی بجائے سافٹ وئیر کمپنی کا پس منظر ہو اُن سے ایسے ہی سوالات کی توقع کی جا سکتی تھی۔ سنیکھ کہاوت ہے ”بوڑھی ٹیڑھی ناک والی سے ٹیڑھے منہ سے بات کرنی چاہیے ”لیکن ایسا نہیں کیا۔ خیر میں نے اپنا سامان باندھا جن میںدرجن بھر کتابیں ہی تھی۔اور ادارہ چھوڑ کر چلا آیا۔
میرے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا اور اِن اُلجھے سوالوں میں ایک وہ بھی تھا جو میں نے صحافی عامر ضیا کو مسیج کیا کہ” کیا بول میں رہتے ہوئے عامر لیاقت سے نظریاتی اختلاف کیا جا سکتا ہے….؟ ابھی تک عامر ضیا کے جواب کا منتظر ہوں اور ہاں میں وہی سوال جو مجھ سے کئے گئے نذیر لغاری صاحب سے بھی کرنا چاہوں گا کہ آپ مسلمان صحافی ہو یا کافر صحافی؟ اور اگر کوئی آپ سے یہ پوچھے کہ اپنے تمام لنکس بتاﺅ؟ یہ سوال کرے کہ آپ بھارتی صحافی ہو یا پاکستانی؟ اور کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہو؟ تو کیا خیال ہے جواب دینا پسند کریں گے؟ میں نے ایسے سوالوں کا جواب دینے سے بول کو چھوڑنا زیادہ مناسب سمجھا۔اس کے بعد مجھے اُس وقت افسوس ہوا جب بول کے بارے میں ایک ویڈیو میسج پر میرے خلاف کالم لکھوائے گئے، نہ جانے لکھوانے والا کون تھا؟ خیر خوش رہیں ایسے بھائی جو حقیقت جانے بغیر، میرا موقف لئے بغیر، میرے بارے میں لکھتے رہے اور صحافی بھی کہلاتے ہیں۔ ۔ صحافتی اداروں کے بارے میں میری رائے یہ ہے جتنے چراغ جلیں گے اتنی روشنی ہو گی۔ لیکن ایک مثبت سوچ اور مقابلے کے ساتھ چلنا ہو گا ورنہ ہوا کے جھونکے بڑے ظالم ہیں۔ ہاں شروع میں جو لکھا ہے کہ ٓآزادی اظہار ،جی وہی جس کے نام پر وہ غداری غداری کھیلیں توسب ٹھیک اورا گر اِن منفی رویوں سے مجھے اختلاف ہو تو میں غلط۔ کیا یہ اختلا ف تقریر و تحریر کی آزادی میں شامل نہیں؟
- بول ٹی وی کو نجی زندگی میں مداخلت کی اجازت نہیں دی تھی - 27/03/2017
- طیارہ حادثہ، اصل وجہ یہ ہے؟ - 08/12/2016
- شہر کراچی بھٹو کا اور مردم شماری - 04/12/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).