مو سیقی کے ذریعے خواتین کی صحیح عمر معلوم کی جاسکتی ہے


موسیقی درحقیقت منہ کی سسکی ہے اور ریاض میرا چھوٹا بھائی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھر سے اکثر ریاض کی آوازیں آتی ہیں۔ کہا جاتا ہے اسلام میں موسیقی حرام ہے مگر اس کے باوجود ہر تیسرے مسلم گھر میں ریاض ہوتا ہے۔ صد شکر لڑکیوں کا نام ریاضی نہیں رکھا جاتا ورنہ یہ کہنے میں آسانی ہوتی کہ ارے ریاضی مجھے بہت محبوب ہے۔

موسیقی اسی دن پیدا ہوگئی تھی جس دن فطرت نے جنم لیا تھا۔ یہ مہدی حسن اور لتا منگیشکر کے جنم سے بہت پہلے کی بات ہے۔ ہر انسان کو یہ پیدائشی زعم ہوتا ہے کہ وہ بہت اچھا گاتا ہے اور یہ زعم اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک وہ ابٌا، پڑوسی اور ٹی وی چینل والوں کی مار نہ کھالے۔ اچھی آواز اللہ کی دین ہوتی ہے اور دنیا میں سنگرز اور میوزکل پروگراموں کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ فیاض ہے۔ جس فیاضی سے اللہ میاں نے دنیا میں سنگرز اتارے ہیں، اگر اسی فیاضی کا مظاہرہ وہ نیک بندوں کے سلسلے میں کردیتا تو آج ڈونلڈ ٹرمپ اتنے پریشان نظر نہ آتے۔

موسیقی دو طرح کی ہوتی ہے اچھی یا بری ویسے ہی جیسے محبوبہ اور بیوی۔ اکثر موسیقی کی محفلوں میں سنگرز کے روپ میں بیویاں ہی ملتی ہیں۔ کبھی کبھار اچھا گلا مل جائے تو سارا گلہ جاتا رہتا ہے۔ آج کے آئی پوڈز نے ثابت کردیا ہے کہ موسیقی کو کتنی جگہ دینی چاہیے، ہزار گانوں کے لئے ایک گیگا بائٹ۔ ائیر فون ثابت کرتے ہیں کہ موسیقی بہرحال بیوی کی آواز سے بہتر ہوتی ہے۔ اب تو ون پاؤنڈ فش بھی گا کر بیچی جاتی ہے یعنی میوزک ٹائیں ٹائیں فش۔ اب مچھلیاں بھی اعتراف کررہی ہیں کہ موسیقی نے ان کی زندگی حرام کردی ہے۔

بہت کم لوگوں نے اس بات پر دھیان دیا ہوگا کہ ہم گیتوں کے ذریعے خواتین کی صحیح عمر معلوم کرسکتے ہیں۔ اگر کسی کو علی ظفر اور عاطف اسلم پسند ہو تو اس کی عمر بیس سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ کوئی سونو نگم کو پسند کرتا ہے تو وہ تیس کے ہندسے میں ہوگا۔ مہدی حسن اور لتا جی کو پسند کرنے والے چالیس سے لے کر ساٹھ سال تک کے ہوسکتے ہیں اور جو کندن لال سہگل کو پسند کرتا ہو، ان کی ہم عیادت کرنا پسند کرتے ہیں۔

غزل موسیقی کی وہ صنف ہے جو محبوبہ کے بھاگ جانے کے بعد سمجھ میں آتی ہے۔ عشق کی چوٹ ہلکی ہو تو جگجیت کی غزلوں کی خوراک کافی ہوتی ہے۔ زخم تھوڑا گہرا ہو تو جگیجیت کے سیرپ کے ساتھ پنکچ کے ٹیبلیٹس بھی لینے پڑتے ہیں۔ بیگم ماہانہ رخصتی پر ہوں اور محبوبہ کا سیل فون بھی ڈسکنکٹ ہو تو مہدی حسن کی غزلیں بہت مزا دیتی ہیں۔ بچے بھی ہوگئے ہوں، بیوی کے طعنوں سے دل چھلنی ہو پھر بھی آوارہ پن نہ جارہا ہو تو منی بیگم کی غزلیں کان چیر کر سینے کے پار ہوجاتی ہیں۔ جیب اور گلاس دونوں خالی ہوں، انٹرنیٹ کام نہ کررہا ہو تو غلام علی بےحد بھلے لگنے لگتے ہیں۔

عورت امید سے اور سنگر شوق سے ہو تو انھیں ڈلیوری سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ بدمعاشوں اور بے سروں کو کبھی عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہ سیاست دان اور موسیقار نہ بن جائیں۔ کسی کو موٹا ہونے یا گانا گانے سے روکنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ موسیقی کی دنیا میں نصرت فتح علی، بپی لہری، عابدہ پروین اور عدنان سمیع بھاری بھرکم نام ہیں۔ ان میں سے عدنان سمیع نے کئی شادیاں کرکے اپنا اور اپنی جیب کا وزن ہلکا کر لیا۔ گلوکارائیں شکل کی اچھی ہوں تو گلے کی خرابی بھی قابل برداشت ہوتی ہے۔ مگر ایسی گلوکارائوں کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ان کے گانے کم، شوہر زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔ کچھ گلوکارائیں تو ایسی ہیں جن کے شوہر، گانوں اور بچوں کی تعداد یکساں رہی۔ وہ جتنا وقت موسیقار کو دیتی ہیں اتنا ہی شوہر کو بھی۔ انسان موسیقی کا اتنا دلدادہ ہے کہ بیت الخلا اور خلا جہاں موقعہ مل جائے گانا شروع کردیتا ہے۔ کوئی گلے سے گاتا ہے، کوئی ناک سے یعنی آوازوں کو صرف راستہ چاہئیے ہوتا ہے۔ ماضی کی موسیقی سات تانوں پر چلتی تھی اب سات سو چینلوں کے ذریعے چلتی ہے۔ پہلے گلے میں بھگوان بولتا تھا، اب پیسہ بولتا ہے۔ پہلے سنگر مشہور ہوتا تھا تو اسے تین نسلیں سنتی تھیں۔ اب سنگر مشہور ہوتا ہے تو لوگ اسے صرف تین دن سنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).