ناصر بٹ جو ہندو نہ ہوا
میرے ایک سیر کے دوست ہیں ڈاکٹر ناصر بٹ۔ امپیرئیل کالج لندن سے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کر کے، نہایت بلند عہدوں پر فائز ہونے کے بعد اب ریٹائرشدہ حالت میں ہر سویر ماڈل ٹاؤن پارک میں سب سے الگ سیر کرتے بھٹکتے رہتے ہیں۔
آج سے بہت برس پہلے اُن سے پہلی ملاقات یوں ہوئی کہ جھجھکتے، شرماتے میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ تارڑ صاحب آپ اس ملک کے ممتاز دانشور اور مصنف وغیرہ ہیں تو کیا میں آپ کے ساتھ ساتھ چل سکتا ہوں۔ میں نے کہا، چلے آیئے۔ سیر کے دوران وہ مسلسل مسلمانوں کی حالتِ زار اور پسماندگی پر کُڑھتے رہے، کفِ افسوس ملتے رہے اور بار بار کہتے، تارڑ صاحب، ہم مسلمانوں کا کیا ہو گا۔
میں نہایت تحمل سے اُن کا تجزیہ سنتا رہا اور باغ کا پورا سرکٹ مکمل کیا اور کچھ نہ کہا۔ اور تب وہ معصومیت سے کہنے لگے، آپ بتایئے کہ میں کیا کروں۔ تو میں نے مسکراتے ہوئے حسب عادت اُنہیں ایک صدمے سے دوچار کرنے کے لئے ازراہِ مزاح کہا ’’آپ ہندو، بُدھ یا یہودی ہو جایئے۔ پھر آپ کو کچھ پروا نہ ہو گی کہ مسلمانوں کے ساتھ کیا گذر رہی ہے‘‘۔ ڈاکٹر بٹ نے پورے پارک میں ہر کسی سے شکایت کی کہ ’’ دیکھو میں اس تارڑ کو ایک دانشور سمجھتا تھا اور وہ مجھے ہندو ہو جانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ‘‘
وہ تقریباً ایک ماہ مجھ سے روٹھے رہے اور پھر ایک روز اگرچہ روٹھی ہوئی حالت میں میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’تارڑ صاحب۔ میں نے اس معاملے میں بہت سوچ بچار کیا ہے، واقعی میں اگر کچھ اور ہو جاؤں تو مجھے اس مسلمان ہونے کی اذیت سے نجات مل جائے۔ لیکن میں کچھ اور نہیں ہو سکتا۔
آپ کہتے تو ٹھیک تھے پر مجھے پتاہے کہ آپ سنجیدگی سے نہیں کہتے تھے۔ میں نے آپ کا حج کا سفرنامہ ’’منہ ول کعبے شریف‘‘ اور ’’غار حرا میں ایک رات‘‘ پڑھ رکھا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ کیسی عقیدت ہمارے رسولؐ کے ساتھ اس قدر رکھتے ہیں کہ اُن کی جوتیوں کی گانٹھوں پر نثار ہوتے ہیں تو۔ ‘‘ ازاں بعد ناصر بٹ میرے بہت دوست ہو گئے، اس لئے بھی کہ اُن کی اہلیہ جمیلہ، میری بیٹی قرۃ العین کو کینیئرڈ کالج میں پڑھایا کرتی تھیں۔
ناصر بٹ کی ناک ایک خصوصی بٹ ناک ہے، قدرے خوفناک ہے۔ قدرے موٹی اور چہرے پر ناک ہی ناک ہے تو میں نے ایک روز کہا ’’ڈاکٹر۔ تم کتنے خوش شکل ہوتے اگر تمہارے چہرے پر یہ بٹ ناک نہ ہوتی۔ یار اِن دنوں پلاسٹک سرجری سے بدن کے ہر حصے کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ تو تم اس ناک کی سرجری کروا کے اسے ذرا ستواں اور مناسب کر لو تو تمہاری شکل بہتر ہو جائے گی‘‘۔
میں یہ مشورہ، حسب عادت محض تفننِ طبع کی خاطر اُسے تفویض کرنے کے بعد بھول بھال چکا تھا کہ ایک روز وہ میرے پاس آ کر کہنے لگا ’’مستی۔ ‘‘ اور اب ہم قدرے فرینک ہو چکے تھے اور وہ میرے نام کا مخفف کر کے مجھے ’’مستی‘‘ کہتا تھا’’ یار میں نے تمہارے مشورے کے مطابق اپنے ایک دوست پلاسٹک سرجن سے رجوع کیا کہ ذرا میری یہ موٹی ناک بدل دو‘‘ تو وہ مسکرا کر کہنے لگا ’’بٹ صاحب، اگر بدلوانا ہے تو ناک کی بجائے کچھ اور بدلواؤ۔ جو کچھ ناکارہ ہو چکا ہے اُسے بدلواؤ، ناک کے بدلنے سے کیا فائدہ۔ ‘‘
ایک روز ڈاکٹر ناصر بٹ بہت غمگین حالت میں تھا ’’مستی، میں اِن مسلمانوں کا کیا کروں۔ میرا ایک لندن سکول کا ہم جماعت ہے جو اِن دنوں دوبئی میں بہت بڑا صنعت کار ہے۔ وہ ایک فیکٹری قائم کر رہا تھا تو میں نے اُس سے کہا کہ۔
یار تم نے اپنی فیکٹری میں صرف مسلمان پاکستانیوں کو بھرتی کرنا ہے۔ تو اُس نے صرف میرے کہنے پر پاکستان سے لوگ درآمدکیے اور اُنہیں اپنی فیکٹری میں بھرتی کر لیا۔ آج اُس کا فون آیا ہے کہ ناصر میں نے تمہارے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی فیکٹری میں مسلمان پاکستانیوں کو روزگار مہیا کیا لیکن۔ یہ لوگ آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے ہیں، میں نے فیکٹری سے ملحقہ ایک مختصر مسجد تعمیر کروائی ہے اور وہ نماز کے اوقات میں چھٹی کر کے وہاں جاتے ہیں تو پہروں نہیں لوٹتے، وظیفے پڑھتے رہتے ہیں اور میری فیکٹری بند ہو جانے کو ہے کہ میں غیرملکی آرڈر بروقت سپلائی نہیں کر سکتا۔ تو میں دیگر پاکستانی صنعت کاروں کی مانند، سری لنکن، نیپالی اور بنگلہ دیشی لوگوں کو بھرتی کرنے والا ہوں۔ ‘‘
ناصر بٹ۔ اُس کے دل میں سوائے رسولؐ کی اُلفت کے اور پاکستان سے محبت کے سوا اور کچھ بھی نہیں، اُس نے کہا ’’پلیز۔ میں تمہارے لئے یہاں سے عیسائی لیبر روانہ کرتا ہوں۔ تم نے صرف پاکستانیوں کو بھرتی کرنا ہے۔ ‘‘
ناصر بٹ سے پوچھو کہ۔ تمہارا کیا حال ہے۔ صحت کیسی ہے تو وہ کہے گا، جمیلہ کے گھٹنوں کا آپریشن ہے۔ آپ پوچھئے کہ۔ ان دنوں موسم کتنا خوبصورت اور سرد ہو رہا ہے تو وہ کہے گا ’’یار جمیلہ دو دن ہسپتال میں رہی ہے، یہ موسم اُس کے لئے بہت دردناک ہے۔ ‘‘
وہ جمیلہ کے عشق میں بُری طرح مبتلا ہے حالانکہ وہ اُس کی بیوی ہے۔ اُس کے ساتھ بھی میری عمر کے لوگوں کی مانند دل کا معاملہ ہو گیا۔ بائی پاس آپریشن کا مشورہ دیا گیا، اُس نے بحریہ ٹاؤن کے سٹیٹ آف آرٹ ہسپتال میں داخل ہوتے ہوئے تمام دوستوں سے درخواست کی کہ۔ مستی کو کہنا کہ میرے لئے دُعا کرے۔ اُس کی دعا قبول ہو گی۔
دُعا کرنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا، صرف دل کے اندر سے وہ دُعا دھڑکتی ہوئی عرش منور پر دست دے تو بات بن جاتی ہے۔ ناصر بٹ، میں تمہارا منتظر ہوں۔ صحت مند ہو کر پارک میں سیر کرنے آ جاؤ اور میں تم سے کہوں ’’تم ہندو ہو جاؤ‘‘۔
- بڑے شاعر اور ادیب کنوارے کیوں مر گئے؟ (مستنصر حسین تارڑ کی ایک زندہ تحریر) - 24/12/2023
- تتلیاں سنو لیک کی اور میرے ابا جی کے بوسے - 23/07/2021
- ’’کرتار پور اور رین بوبرج کے خواب‘‘ - 30/10/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).