نظام یا چچا نظام دین


قانون اورنظام حکومت ہی نہیں ریاست بھی انسانوں کے لئے ہوتی ہے، انسان اس کے لئے نہیں۔ شاید یہی وجہ رہی کہ 911 کے بعد امریکی کتابوں میں لکھے قوانین ہی نہیں، آئین میں دی گئی آزادیوں تک کے معنی بدل گئے، جہاں عدالتوں سے ماوریٰ قید خانے بنا ئے گئے۔ جہاں فوجیوں نے مقدمات سنے جمہوریت خطرے میں پڑی، نہ نظام کو کوئی شکایت پیدا ہوئی۔ پاکستان میں نخرے کچھ الگ ہیں۔ اپنا مفاد ہوتو باوردی صدر سے حلف لے کر بھی جبین حسن پر ملال نہ آئے اور معاملہ عوامی تحفظ کا ہو تو دہشت گردوں کی گردن ناپنے کے بندوبست سے عفیفہ جمہوریت کو لاج آتی ہے۔ رضا ربانی کہتے ہیں ’پچھلی بار بزدلی دکھائی اس بار خصوصی عدالتوں کی مخالفت کروں گا‘۔ دہشت گردوں کو خوشخبری ہو کہ گذرے نو برس میں ان کی سرکوبی کے لئے پارلیمنٹ نے نا صرف کسی خصوصی قانون سازی کا نہیں سوچا بلکہ عارضی بندوبست بھی نہیں ہونے دیں گے۔

کیسے بھلایا جا سکتا ہے 2008 میں پشاور کی عدالت کا منظر۔ دہشت گرد کو پیش کیا گیا، اس کا کوئی وکیل نہیں تھا۔ صرف ایک چٹ دی گئی جسے دیکھتے ہی جج کے پسینے چھوٹ گئے، سامنے سکول یونیفارم میں ان کا صاحبزادہ ملزم کے ساتھیوں کے درمیان بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ سرکاری وکیل بھی نا آشنا نہیں تھا، چند منٹ بعد ملزم قہقہے لگاتے عدالت سے نکل رہے تھے اور جج کی آنکھوں میں نامعلوم عدل کے سر عام قتل پر افسوس کے آنسو تھے یا معصوم بیٹے کی جان بچانے پر خوشی کے، مگر سنا ہے ماتحت عدلیہ کے اس جج نے دوبارہ کوئی مقدمہ نہیں سنا، پہلے لمبی چھٹی لی پھر استعفیٰ دیدیا۔ قصورکس کا؟

بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک افسر نے پہلی کمان سنبھالی اور اپنے ماتحتوں کو کتابوں میں پڑھی سچائی پر بمشکل قائل کرسکا کہ دہشت گرد مقابلہ پر آئے تو پکڑنے کی کوشش کرو مارنے کی نہیں۔ عدالتی سزا سے قانون کی دیرپا رٹ قائم ہوگی۔ صاحب کرفیو میں سڑک پر نکلے اور شہر کے ایک ویران چوک میں دہشت گردوں کی گھات کا شکار ہوگئے۔ ایف سی کا کانوائے اتفاقاً نہ پہنچتا تو مارے جاتے۔ ان کی ہدایت پر عمل ہوا ایک ملزم پکڑ کر اگلے روز ریمانڈ کے لئے پیش کردیا، مجسٹریٹ نے گواہ مانگے مگر قانون شہادت کے مطابق ایف سی جوان، اور ان کی اپنی فورس کی گواہی معتبر نہ ٹھہری۔ ایک کرفیواوپر سے گن فائٹ اور سول گواہ؟ کہاں سے آتے، ۔ ملزم رہا ہوا، صاحب سے ہاتھ ملا کر کہا ’بہت جلد پھر ملوں گا‘ذمہ دار کون؟

کوئٹہ میں دہشت گردوں نے بشیر لانگو کی قیادت میں مسجد سے نکلتے دو بھائی پنجابی ہونے کے جرم میں مار ڈالے، جاتے ہوئے پورا بازار تباہ کرگئے۔ ایک بہادر پولیس افسر نے ایک یا دو کو پکڑ لیا، دو دن تک بازار میں لوگوں کی منتیں کرتا رہا مگر کوئی ایک دکاندار بھی گواہی پر آمادہ نہ ہوا، کہا گیا ’ لاکھوں کا نقصان تو پورا ہو جائے گا، جان کیوں گنوائیں‘۔ ارباب سیاست کا کردار یہ رہا کہ وہی بشیر لانگو مارا گیا تو صوبائی اسمبلی نے سماجی کارکن قرار دے کر قتل کی مذمت کی اور جناب افتخار چودھری نے سرکاری ذمہ داران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ اس عدالتی نظام سے آپ دہشت گردی ختم کریں گے؟

اسی کوئٹہ میں عثمان سیف اللہ کرد پکڑا گیا، بری ہوا، دوبارہ قابو آیا تو جیل سے بھاگ نکلا، ایک وزیر اعلیٰ کے سیکیورٹی سکوارڈ کے ساتھ شہر میں پھرتا رہا کسی کو ہاتھ لگانے کی جرات نہ ہوئی۔ کیوں؟

پھر وہی بلوچستان، دہشت گردی کا سب سے خطرناک مجرم اللہ نذر کراچی سے پکڑا گیا، شہادتیں ناکافی قرار پائیں بری ہوا اور لاشوں کے مینار کھڑے کرتا چلاگیا۔ کس کس کا نام لیں؟ کس کس کی بات کریں؟ لشکر جھنگوی کا قاری ظفر کتنی بار پکڑا گیا؟ کتنی بار رہا ہوا؟ اسی تنظیم کا آصف چھوٹو پکڑا گیا، بری ہوا، پھر پکڑا گیا پھر بری ہوا، مگر وہ اپنی شرست سے باز نہ آیا۔ موقع کس نے دیا؟ ملک اسحاق، غلام رسول شاہ سمیت لشکر جھنگوی کے دسیوں دہشت گرد، پکڑے گئے اور بے گناہ قرار پائے۔ متحدہ کے چار ہزار تخریب کار انہی عدالتوں سے بری ہوئے اور پھر انہوں نے اپنے پکڑنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا۔ یہ نظام ہر بار چچا نظام دین ہی کیوں ثابت ہوا؟

کہتے ہیں‘ خصوصی عدالتیں نہیں بننے دیں گے، اگر بنائی بھی تو قانون شہادت کی پابند ہوں گی‘ نہ بننے دیں یہ تو بتائیں کہ آپ کی پارلیمنٹ نے گذرے نو برسوں میں دہشت گردوں کے خلاف کیا قانون سازی کی؟ اورکیوں نہ کی؟ یہ بھی کوئی باہر سے آکر بتائے گا کہ خصوصی حالات میں زمانہ امن کے قوانین نہیں چلتے۔ بھارت کو تو جانے دیں، سری لنکا، بنگلہ دیش، مصر، فلپائن، اری ٹیریا، برطانیہ اور امریکہ تک ایسا نہ کرسکے، آپ کیسے کرلیں گے؟ دہشت گردوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ مبارک۔ لیکن اس ملک کے پر امن اکیس کروڑ عوام کا بھی کوئی حق ہے یا نہیں؟ کم از زندہ رہنے کا حق؟ ورنہ آپ کو ووٹ کون ڈالے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).