اسحاق ڈار کا تربوز ٹیکس اور بوٹ


وسعت اللہ خان صاحب سے خبر ملی کہ ہندوستان میں دو ہزار روپے کے تربوز کھانے پر ایک امیدوار نااہل ہو گیا ہے۔ ہم اس پر ہنس ہی رہے تھے کہ دو ہزار کا کون سا تربوز ہوتا ہے، کہ جناب اسحاق ڈار صاحب نے ہنگامی پریس کانفرنس کر دی کہ چالیس ارب کے نئے ٹیکس لگ رہے ہیں۔ اور تربوز پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔

گھبرا کر ہم ممتاز ن لیگی راہنما اچھی بٹ صاحب کے پاس پہنچے تاکہ سچ کو ن لیگ کے گھوڑے کے منہ سے ہی سنیں۔

ہم: السلام علیکم بٹ صاحب۔ یہ آپ کے ڈار صاحب نے تو چالیس ارب کے ٹیکس لگا دیے ہیں۔

اچھِی بٹ: ہاں جی۔ وہ ملک چلانے کے پیسے کم پڑ رہے تھے۔ فوج کی ضرب عضب بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔

ہم: لیکن پیسہ تو کافی ہے جناب۔ ایک ڈیڑھ کھرب سے روپے سے اوپر کی میٹرو ٹرین تو لاہور میں شروع ہو رہی ہے۔ ایک تیس ارب روپے کی ملتان میں بننے جا رہی ہے۔ پچاس ارب روپے کی اسلام آباد میں چلائی گئی ہے۔ اور لاہور میں ہی پچاس ارب روپے سے ایک سڑک گلبرگ سے موٹروے تک بنانے کا ارادہ ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں تیل نکل آیا ہے جس طرح یہ میٹرو بن رہی ہے۔

اچھِی بٹ: میاں ساب کو لہور سے پیار ہی بہت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر بندہ لانگ ڈرائیو کرے اور لہور دیکھے۔ میاں صاحب کو سڑکوں کا بہت شوق ہے۔ اور آپ جانتے ہی ہو کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔

ہم: پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ ڈار صاحب نے فرمایا ہے کہ سال کے پہلے تین مہینوں میں چالیس ارب کا گھاٹا پڑ گیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے ہیں۔ یعنی ہر تین مہینے بعد کچھ ہو جایا کرے گا۔

اچھِی بٹ: تو ڈار ساب کیا کریں؟ سال کو تین مہینے کا کر دیں؟ بادشاہو آپ بھی تحریک انصاف والوں کی طرح کم عقلی کی بات کرتے ہو۔ سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں تو مجبوری ہے جی کہ ہر تین مہینے بعد کچھ کرنا پڑے گا۔ پر میاں ساب کو غریبوں سے بڑا پیار ہے۔ ڈار ساب کہتے ہیں کہ عوام کو ان ٹیکسوں سے فرق نہیں پڑے گا۔

ہم: فرق کیسے نہیں پڑے گا؟ اخبار میں لکھا ہے کہ میز پر تیس فیصد ٹکس لگا دیا ہے؟

اچھِی بٹ: میز کرسی کون سا عام بندہ استعمال کرتا ہے سجنو؟ ان کو تو منجی [چارپائی] پیڑھی بھی نہیں ملتی اور آپ میز کرسی کی فرمائش ڈال رہے ہو۔

ہم: میز یعنی مکئی۔ اسے تو غریب بندے ہی کھاتے ہیں۔

اچھِی بٹ: اچھا پاپ کارن کی بات کر رہے ہیں۔ پاپ کارن تو امیروں کے بچے ہی کھاتے ہیں۔ ابھی پچھلے ویک اینڈ پر ہی میرے بچے فلم دیکھتے ہوئے تین ہزار کے پاپ کارن کھا گئے تھے۔ اچھا کیا ٹیکس لگا دیا۔

ہم: مکئی کی روٹی تو غریب بھی کھاتا ہے اور دلیہ بھی۔ اور صابن شیمپو وغیرہ پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔

اچھِی بٹ: میاں ساب کی رحم دلی کی تو بندہ جتنی تعریف کرے کم ہے۔ کتنے بچے میاں ساب کو دعائیں دے رہے ہوں گے جن کے ظالم ماں باپ ان کو دسمبر جنوری کے ٹھنڈے ٹھار مہینوں میں نہلاتے تھے۔ میاں ساب نئی نسل پر بہت توجہ دے رہے ہیں۔

ہم: ٹوتھ پیسٹ کو بھی نہیں چھوڑا ہے؟

اچھِی بٹ: اچھا ہے جی۔ لوگ خواہ مخواہ ہمیں دیکھ کر دندیاں [دانت] نکلالتے تھے۔ اب ٹوتھ پیسٹ نہیں ہو گا تو اپنا بدبودار منہ بند رکھیں گے۔

ہم: یہ سیب اور انار وغیرہ پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔

اچھِی بٹ: بادشاہو، ہمارے راج میں کون سا غریب یہ مہنگا پھل فروٹ کھا سکتا ہے؟ اب تو آپ جیسے مڈل کلاسیے بھی یہ افورڈ نہیں کرتے ہیں۔ یہ پھل کھا کھا کر لوگ غریبوں کی توہین کر رہے تھے۔

ہم: تربوز، پپیتے اور امرود پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔ یہ تو غریب کے پھل ہیں۔

اچھِی بٹ: بزرگو، غریب کو تو ہمارے ملک میں ایک وقت کی سوکھی روٹی مشکل سے ملتی ہے۔ اس لیے کھانے پینے پر ٹیکس لگانے سے غریب کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ میاں ساب نے سوکھی روٹی پر ایک پیسے کا ٹیکس بھی لگایا ہو تو اچھی بٹ کا گریبان پکڑ لیں اور یہیں دھوبی پٹڑا لگا کر ڈھیر کر دیں۔ آپ بس بے فضول کا سیاپا ڈال رہے ہیں۔ وہاں بھارت کے ریٹ پتہ ہیں کیا چل رہے ہیں؟ ایک ایک تربوز دو دو ہزار کا بک رہا ہے۔ لیکن میاں ساب عوام کی خاطر اگلے بجٹ سے پہلے پاکستانی تربوز کو دو ہزار کا نہیں ہونے دیں گے۔

ہم: سٹیل رولنگ ملز اور شوگر مل وغیرہ پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔

اچھِی بٹ: سٹیل مل سے تو میٹرو کے جنگلے بن رہے ہیں۔ اس پر تو ٹیکس تو وہی لگائے گا جو ملک کی ترقی کا دشمن ہے۔ اور شوگر ملوں والے اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ وہ بابے کہتے ہیں نہ کہ جو گڑ سے مرتا ہو، بندہ اسے زہر سے کیوں مارے؟ ہماری حکومت عوام کو گڑ دے گی۔

ہم: بچوں کے دودھ پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔

اچھِی بٹ: اچھا ہے جی۔ اب بچے گائے بھینس کا دودھ پئیں گے۔ پتہ نہیں پاؤڈر میں یہ گورے کیا کیا ملا کر بچوں کو پلا دیتے تھے۔

ہم: بچوں کے ڈائپر پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے۔

اچھِی بٹ: اچھا ہے جی۔ یہ ڈائپر کا بھی بڑا گند ہوتا تھا۔ میاں ساب بڑے صفائی پسند ہیں۔ اب وہ اپنے کسی بچے کو وہ ڈائپر نہیں پہناتے ہیں۔ نہ بچے ڈائپر پہنے گے، نہ مائیں گندے ڈائپر پھینکیں گی، اور نہ گند مچے گا۔

ہم: ماؤں کو تو آپ نے روک دیا لیکن بچے تو ڈائپر کے بغیر بھی وہی کریں گے جو وہ ڈائپر پہن کر بھی کرتے ہیں۔ بلکہ ہر جگہ کریں گے۔

اچھِی بٹ: بادشاہو، یہ کھاد ہوتی ہے۔ جتنی کھاد پھیلے گی، اتنا ہی ملک سر سبز ہو گا۔ میاں ساب کو پھول بوٹوں سے بھی بڑا پیار ہے۔

ہم: عوام کو جمہوریت سے بھوک ملے گی تو پھر وہ جمہوریت کو برا ہی جانیں گے۔ یہی حال رہا تو پھر روٹی کو ترسے عوام بھی اپنے دودھ کے لیے بلکتے بچے دیکھ کر دوبارہ بوٹوں سے ہی بڑا پیار کرنے لگیں گے۔

اچھِی بٹ: اللہ کا نام لیں جی۔ اس باری تو جدہ والے بھی نہیں بلائیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar