جناح کا دیس آزاد کے دیس سے کیوں بہتر ہے؟


کل ایک تحریر لکھی جس کا خلاصہ دو لفظوں میں یہ لکھا کہ ابوالکلام آزاد حضرت مدنی اور گاندھی جی کا فلسفہ ہار گیا ہے۔ چلیں ہندوؤں کو تو آزاد وطن مل گیا لیکن حضرت آزاد کے ماننے والوں کو کیا ملا؟ حضرت مدنی کے ماننے والوں کو خوف جبر اور ہندو طالبان کے علاوہ کیا ملا؟

ہمارے بزرگوں نے اسلامی ملک کی بجائے سیکولر ملک کو ترجیح دی۔ ایک مسلمان لیڈر کی بجائے ایک ہندو لیڈر کا ساتھ دیا۔ تقسیم کی بجائے متحدہ ہندوستان کو ترجیح دی۔ بدلے میں مودی ملا۔ بدلے میں ادتیا یوگی ملا۔

اب پالا ایسے لوگوں سے پڑا جن کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں جو صاف صاف ہندو ازم کی بات کرتے ہیں۔ صرف ہندو ازم کی ہی نہیں بلکہ چار قدم آگے بڑھ کے کہتے ہیں اگر ایک ہندو لڑکی مسلمان لڑکے کے ساتھ جائے تو سو مسلمان لڑکیوں کو اغواء کیا جائے۔ ایک ہندو مارا جائے تو بدلے میں سو مسلمانوں کو مارا جائے اور ایف آئی آر بھی نہ کاٹی جائے۔ جی یہ باتیں اترپردیش کے نئے وزیر اعلی کی ہیں جو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی باتوں پہ قائم ہوں۔ جو کہتے ہیں کہ میں راضی اس بات پہ ہونگا کہ جتنے مسلمان اور عیسائی ہیں انہیں واپس ہندو مذہب کی طرف پلٹنا چاہیے ان کی رگوں میں ہندوؤں کا خون ہے۔

میری یہ تحریر ان لوگوں کے لیے تھی جنہیں جناح صاحب کے پاکستان بنانے پہ اعتراض ہے جنہیں آج بھی اس بات کا رنج ہے کہ ہندوستان تقسیم کیوں ہوا؟

یہ بزرگ بڑے ہیں ان کے نام بڑے ان کے کام بڑے لیکن ان سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے نا ان کی پالیسیوں کو زیر بحث تو لایا جا سکتا ہے نا۔ مجھے ان کی عظمت میں کوئی شک نہیں مگر یہاں غلطی کر گئے۔

ایک وقت تھا کہ میں خود بھی حضرت آزاد کے فلسفے کا حامی تھا میں بھی تقسیم کے خلاف تھا لیکن آج کے حالات دیکھ کر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ جناح کا دیس آزاد کے دیس سے لاکھ درجے اچھا ہے۔ قائد اعظم کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔ قائد اعظم کی بصیرت ان لوگوں سے زیادہ تھی۔

آپ دیکھیں کہ بھارت کو سب سے زیادہ جس نام پہ اعتراض ہے وہ حافظ سعید کا ہے۔ بھارت حافظ سعید کا نام لے کر پوری دنیا میں شور مچاتا ہے لیکن میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس حافظ سعید کا ایک بیان مجھے پاکستان میں ہندو اقلیتوں کے خلاف دکھا دیں میں کہوں گا کہ حافظ سعید دہشت گرد ہے۔ بلکہ میں یہ دکھا سکتا ہوں کہ حافظ سعید نے ہندوؤں کی کئی مواقع پہ مدد کی۔ ہمیشہ اقلیتوں کا خیال رکھا ان کے خلاف لڑنے کی بات نہیں کی۔ آپ مجھے بھارت میں بال ٹھاکرے کی ایسی مثال نہیں پیش نہیں کر سکتے۔

اس لیے کہتا ہوں جناح کا پاکستان آزاد کے پاکستان سے اچھا ہے۔

آپ کے ذہن میں یقینا سوال آیا ہو گا کہ کئی جگہوں پہ ہندوؤں کیساتھ زیادتی نہیں ہوئی؟ ان کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا گیا؟ تو پھر یہ پارسائی کا دعوی کیسا؟

جی بالکل آپ کا سوال بجا ہے مگر یہ بھی دیکھیں کہ مجموعی طور پہ قوم کا رویہ کیا رہا ہے؟

چند لوگوں کی بدمعاشیوں کا انکار نہیں کرتا لیکن قوم نے ہمیشہ شرپسندوں کو برا سمجھا ہے قوم نے ایسے شخص کا ساتھ نہیں دیا جو نفرت کو پروان چڑھاتا ہے۔

ہماری مذہبی جماعتوں کو ہی دیکھ لیں کہ اقلیتی لوگوں کو کتنی فراخ دلی کیساتھ قبول کیا ہوا ہے۔ بشپ صاحب کا جمعیت میں شامل ہونا تو ابھی کل کی بات ہے اور حکومتی سطح پہ دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا وزیر اعظم ہولی کی تقریب میں جاتا ہے پیار و محبت کی باتیں کرتا ہے۔ اور پاکستان کی دوسری بڑی جماعت کا نوجوان لیڈر بلاول اپنے لوگوں کیساتھ باقاعدہ مندروں میں جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں کرسمس کا کیک کاٹتی ہیں۔

کیا اب بھارت میں ایسا ممکن ہے؟ اب تو بھارتی قوم ان لوگوں کو چن رہی ہے جو نفرت کی بنیاد پہ آگے آ رہے ہیں۔ اسلام کے نام پہ بننے والے ملک میں یہ آزادی جبکہ سیکولر ازم کی بنیاد پہ وجود میں آنے والے ملک کی یہ حالت قابل افسوس ہے۔

میں یہ نہیں کہتا یہاں امن ہی امن ہے بہاریں ہی بہاریں ہیں ہم میں سو اختلافات ہیں۔ ہم آپس میں جھگڑتے ہیں لیکن اقلیتوں کے حوالے سے ہمارا رویہ مثالی ہے۔ اقلیتوں کو خوف نہیں ہے وہ آزادی سے نوکریاں کرتے ہیں۔ کام کاج کرتے ہیں عبادت کرتے ہیں ریاست وہاں دخل اندازی نہیں کرتی۔

سوچیں

آج اگر ہم بھارت کیساتھ ہوتے تو یقینا فسادات نے جنم لینا تھا۔ ہم یقینا غلام ہوتے۔ ہم نے خوف کی زندگی گزارنی تھی کوئی مودی اور کوئی یوگی ہمارے سر پہ بھی سوار ہوتا اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو ہم بھی جے ماترے کہہ رہے ہوتے۔

اب بھی کچھ لوگوں کو ریاست سے شکایات ہیں ان شکایات کو دور کرنے کے تین طریقے ہیں

ایک طریقہ یہ ہے کہ ریاست شہریوں کی جان مال عزت کی محافظ بن جائے ریاست مذہبی معاملات میں ٹانگ نہ اڑائے ریاست کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پہ فرق نہ کرے مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔

دوسرا اس ملک کو جمہوریت کے راستے پہ چلنے دیا جائے آمروں کا بار بار ملک فتح کرنا نقصان کا باعث بنتا ہے

تیسرا سارے کام چھوڑ کے معیشت کی طرف توجہ دی جائے معیشت کی مضبوطی ملک مضبوط کر دے گی۔

بہرحال پھر بھی بہت ساری خامیوں کے باوجود پاکستان اللہ کی نعمت ہے۔ میں آج بھی پاکستان کے حکمرانوں کو حضرت آزاد کے ملک اور حکمرانوں سے بہتر سمجھتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).