کیا یہاں سب دودھ پیتے بچے رہتے ہیں؟
خدا مغفرت کرے، تقسیم ہند کے وقت بابا سخی محمد جوان تھا۔ ماضی میں ایک دفعہ ہم نادان طلبہ نے بابے سے فرمائش کردی کہ وہ ہمارے ساتھ قیام پاکستان کے وقت کی یاداشتیں شیئر کرے۔ بزرگ نے حقے کا لمبا کش لیا اور آنکھیں سکیڑ کر خلاؤں میں گم ہو گیا، جیسے اس کے دماغ کے پردہ سکرین پر کوئی بھولی بسری فلم چل رہی ہو۔ ایک لمبے انتظار کے بعد سخی محمد نے گلا کھنگھار کر گہری خاموشی توڑی اور دور کھیتو ں میں کام کرتے اپنے بیٹے فتح خان کی طرف اشارہ کر کے بولا ’’ تب یہ پھتا ماں کا دودھ پیتا تھا ‘‘
اس کھلنڈرے پن کے دور میں تو ہم بہت ہنسے تھے مگر آج جب شعور کی منازل طے کی ہیں تو رونا آتا ہے۔ ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ خیال آتا ہے کہ پھتا تو معصوم تھا، کیا ہمارے سارے اکابرین ملت بھی دودھ پیتے بچے تھے کہ قائداعظم کی رحلت کے بعد جب قیام پاکستان کے مقصد کو اندھی، گونگی اور بہری راہوں کی طرف بھٹکایا جا رہا تھا تو وہ اس سیل بلا کے آگے کوئی بند نہ باندھ سکے۔ محمد علی جناحؒ نے تو گیارہ اگست 1947ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں اپنے جمہوری تصور پاکستان کو غیر مبہم اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کردیا تھا۔ یعنی ایسی ریاست جس میں تمام شہریوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، رتبے کی مساوات، یکساں مواقع، قانون کی نظر میں برابری اور اظہار، عقیدے اور عبادات کی آزادی کی ضمانت حاصل ہو گی۔ مگر پھر جب شخصی و طبقاتی مطلق العنانیت کی راہ ہموار کرنے کی خاطر بانی پاکستان کے تصور ریاست سے یکسر مختلف مملکت کا سنگِ بنیاد رکھا جا رہا تھا تو کیا ساری قوم دودھ پی رہی تھی؟
خیال آتا ہے کہ پھتا تو نابالغ تھا مگر جب ہاتھ پاؤں اور زبان سے معذور گورنر جنرل غلام محمد نے 1954ء میں اسمبلی توڑی۔ جب مولوی تمیز الدین اس نامعتبر فیصلے کے خلاف سندھ چیف کورٹ اور فیڈرل کورٹ گئے اور جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت تخلیق کر کے قوم کو ایک نئے خارزاد سے روشناس کرایا۔ جب سکندر مرزا نے سیاستدانوں کی بے توقیری اور کمانڈر انچیف ایوب خان کی کابینہ میں شمولیت جیسے دورس اقدامات اٹھا کر قوم کی منزل کھوٹی کی، جب 27 اکتوبر1958ء کو ایوب خان نے اس ریاست کی کوہان پر سوار ہوکر اس کی مہار الٹی سمت میں موڑی تھی، جب اس نے اپنے ہنر کا شاہکار 1962ء کا صدارتی آئین متعارف کرایا، 1964ء میں بھاری اکثریت سے مادرِ ملت کے مقابلے میں صدارتی انتخاب جیتنے کا محیرالعقول تماشا کیا، آپریشن جبرالٹر کے ذریعے کشمیر کے ’’ مردہ گھوڑے ‘‘ میں جان ڈالی، جس کے نتیجے میں 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی، جس کے طفیل پاکستان کی معیشت تباہ ہوئی اورایک بھوکے ننگے پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا اس وقت بھی چند حبیب جالبوں کے سوا کوئی دوسرا بلوغت کو نہیں پہنچا تھا؟
خیال آتا ہے کہ 1969ء میں جب ایوب خان نے اپنی مفتوحہ سلطنت کی باگ ڈور یحییٰ خان کے ہاتھ میں تھمائی، جس نے 1970ء کے انتخابات میں ’’مطلوبہ‘‘ نتائج حاصل نہ ہونے پر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا۔ 1971ء میں جب اس نابغے نے بنگال آپریشن کا آغاز کیا اور اپنے ہی ہم وطنوں کا خون بہاکر باہمی نفرتوں کی دیواروں کو مضبوط کیا، اسی سال دسمبر میں بھارت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا، جس کے نتیجے میں مسافرانِ سخت کوش کی مساعی جمیلہ رنگ لائیں اور قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوا۔ جب یحیٰ خان کے وزیراطلاعات شیر علی نے نظریہ پاکستان کو نئی جہات سے روشناس کرایا۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کو 1973ء کا پہلا متفقہ آئین دینے، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے، سٹیل ملز کے قیام، اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد اور عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے جیسے سنگین جرائم کی پاداش میں مشہورِ زمانہ امریکی سپانسرڈ تحریک کے ذریعے غیر آئینی طور پر اقتدار سے ہٹایا گیا۔ جب 5 جولائی 1977ء کے منحوس دن آئین کو روندتے ہوئے ضیاء الحق نے عوام کے حقِ حاکمیت پر شب خون مارا۔ منتخب وزیراعظم کا عدالتی قتل ہوا۔ افغانستان میں امریکہ و روس کے مفادات کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی آگ میں قوم کو زبردستی دھکیلا گیا، جس کی پاداش میں محمد علی جناح ؒ کے پاکستان کی مسخ شدہ شکل، وحشت و بربریت اور خاک و خون میں نہائے، تنگ نظر، فرقہ پرست، شدت پسند، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کے حامل ملک کی صورت میں منظر عام پر آئی۔ جب مردِ مومن نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے کر ملک کے کونے کونے میں پھیلایا، جو اب ہمارے گلی کوچوں اور بازاروں میں پھیل کر ہر طرح کے جرائم سے ملک کا تشخص مجروح کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب اس نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کا عجوبہ متعارف کرا کے ملک میں کرپشن کے کلچر کی مضبوط بنیاد رکھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تاریخ کے اس خطرناک موڑ پر بھی مٹھی بھر سر پھروں کے سوا باقی سب دودھ پی رہے تھے؟
خیال آتا ہے کہ جب غلام اسحاق خان نے 1990 ء میں عوام کی منتخب پارلیمان پر 258-2B کا کلہاڑا چلایا۔ جب عوام کے مینڈیٹ کے سر پر جوتا مار کر آئی جے آئی تشکیل پائی۔ جب 1993ء میں غلام اسحاق خان نے پھر یہ کلہاڑا لہرایا۔ جب فاروق احمد لغاری نے1996ء میں یہی سنت دہرائی۔ جب12اکتوبر1999ء کو فاتح چہارم پرویز مشرف نے عوامی مینڈیٹ کو روندنے کی فلم شرطیہ نئے پرنٹ کے ساتھ ریلیز کی اور منتخب وزیراعظم نواز شریف کو گرفتار کیا۔ ’’ ق لیگ‘‘ اور ’’ ایم ایم اے ‘‘ تخلیق کر کے عوامی نمائندگی کا قبلہ درست کیا۔ جب اس نے 9 مارچ2007ء کو عدلیہ کو آداب انصاف سکھائے۔ جب افتخار محمد چوہدری نے خونین عوامی تحریک کے طفیل بحال ہوکر عدل و انصاف کو سائلان کی دہلیز تک پہنچایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن حالات کی بنا پر بے نظیر بھٹو تابوت کی ڈولی میں گڑھی خدا بخش کے قبرستان کے لیے رخصت ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہم سب ابھی شیر خوار ہیں کہ اپنی تباہی و بربادی کا سبب بننے والی ان سازشوں کاادراک اور ان کے تدارک کی صلاحیت نہیں رکھتے؟
یہاں مختصراً وہ تاریخ بیان کی گئی ہے جس کی بدولت قائداعظم کا روشن خیال پاکستان رواداری کے نخلستان کی بجائے انتہا پسندی کے خارستان میں تبدیل ہوا۔ زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں سے بھرپور متحرک معاشرے کی جگہ تنگ نظر اور جامد معاشرے نے لے لی۔ حرماں نصیب قوم کے ساتھ یہ ظلم ایک دن میں تو نہیں ہوا۔ غیر نمائندہ، غیر منتخب اور مفاد پرست عناصر نے باہم مل کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مرحلہ وار یہ ’’ جنت ‘‘ تشکیل دی ہے، جہاں نیم خواندہ افراد کو تو چھوڑئیے، یونیورسٹیوں تک میں دوسروں کو اپنی مرضی سے ہانکنے کی وحشیانہ آرزو جہالت کے ’’گل‘‘ کھلا رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ایسے پسماندہ اور سفاک ملک کی داغ بیل ڈالنے اور اسے پروان چڑھانے والے مٹھی بھر عناصر کے مقابلے میں ہم سب کروڑوں دودھ پیتے بچگان ہیں کہ ان کے ناجائز قبضے سے اپنا وطن واگزار نہیں کر اسکتے؟ اگر ہم شیر خوار نہیں تو بھنگ ضرور پی رکھی ہے اور تاریخ میں بھنگ پی کر سونے والے نسلوں کے مجرم ٹھہرتے ہیں۔
- مزاح کے بادشاہ کرنل محمد خان کی نگری سے ایک فریاد - 05/08/2019
- مضافات میں صنفی مساوات - 01/08/2019
- حشر گلفشانی کا بہرہ پن - 17/07/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).