بات صرف ’نظر کے زاویے‘ کی ہے


ابو جی کا یہ سوال میرے لیے غیر متوقع تھا۔ وہ گلی میں گزرنے والی بجلی کی تاروں اور ان پر بیٹھ کر مرنے والے اپاہج کوے کی بات کر رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ وہ روزانہ ان کے پاس کھانا کھانے آتا تھا۔ انہوں نے اچانک پوچھا کہ تمہیں جرمنی سے آنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اس سوال سے چند روز پہلے ہم اپنے پرانے گاوں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ابو جی نے اچانک مجھے کہا امتیاز تمہیں ایک بات بتاوں ؟ یہ میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی۔ میری آنکھوں میں ان سے بھی زیادہ تجسس تھا۔ کہنے لگے کہ ایک دن میں نے سیاہ رنگ کی دھاری دار تہمد باندھی ہوئی تھی، میری عمر بیس کے قریب ہو گی، میں سائیکل پر بیٹھ کر کسی دوسرے گاو¿ں جانے لگا تھا کہ باہر سرسوں کے کھیتوں کے قریب ’چودھری دی کڑی نے میرا راہ روک لیا اور گانے لگی۔سانوں وی لے چل نال وے باو¿ سوہنی سائیکل والیا۔ لے اے گل میں اج تک کسی نوں نہیں دسی سی‘…. اس کے بعد وہ بھی مسکرانے لگے اور میں بھی۔

بات سوال کی چل رہی تھی۔ تو انہوں نے اچانک پوچھا کہ تمہیں جرمنی سے آنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ میں نے کہا جرمنی سے کسی عرب ملک تک ساڑھے چھ گھنٹے اور پھر وہاں سے تین یا ساڑھے تین گھنٹے۔ ابو جی نے پوچھا ٹوٹل ٹائم کتنا لگتا ہے ؟ میں نے کہا گھر سے گھر تک یہی اٹھارہ، انیس گھنٹے۔ پھر وہ تھوڑی سی خاموشی کے بعد بولے پھر تو تم میرے جنازے میں شرکت نہیں کر سکو گے۔ میں نے کہا ابو جی آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟ وہ مسکرائے اور دوبارہ ہم نے کوے اور چڑیوں کی باتیں شروع کر دیں۔ لیکن اس عرصے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ابو جی کا چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ تبدیل ہو چکا ہے، ان کی آنکھ میں محبت اور رحم بہت زیادہ پیدا ہو چکا ہے۔ ان کی آنکھیں ہر چیز کو ایسے دیکھتی تھیں، جیسے آخری مرتبہ دیکھ رہی ہوں۔ وہ گھر کے دروازے کے آگے بیٹھ کر سب کو دعائیں دیتے رہتے۔ ان کے اردگرد اکثر محلے کا کوئی نہ کوئی بندہ موجود رہتا۔ وہاں سے فارغ ہوتے تو مسجد میں قرآن پڑھتے رہتے ورنہ چھت پر بیٹھ کر یہی عمل جاری رہتا۔ ان کا دل چھوٹا نہیں تھا لیکن اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ وہ مکے کا ذکر کر کے رونے لگتے اور کبھی مدینے کا۔

وفات سے تین سال پہلے جب وہ عمرہ کر کے آئے تو میں جب بھی پاکستان جاتا تو اکثر مجھے وہاں کے قصے کہانیاں سناتے رہتے۔ اب مجھے مکے یا مدینے کے کسی مقام کا نہیں پتا تھا میں صرف ہاں میں ہاں ملاتا جاتا۔

ایک دن میں نے پوچھا ابو جی آپ آنکھوں میں ہر رات کیا ڈالتے ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ آب زم زم ہے۔ اس کو جس نیت سے استعمال کرو ، ویسا ہی اثر ہوتا ہے۔ پھر ابو جی نے اپنے سرہانے کے نیچے رکھا اخبار کا ٹکڑا نکالا اور اس پر درج آب زم زم کے فضائل پڑھ کر مجھے سناتے رہے۔ میں نے کچھ کہنا چاہا تھا لیکن خاموش رہا کہ ابو اس عمل سے خوش ہیں۔ ابو جی کی وفات سے تین ماہ پہلے میں انہیں ملنے کے لیے نوشہرہ ورکاں گیا۔ جنوری کی کڑک دھوپ تھی۔ ابو جی اور میں چھت پر رکھی چار پائی پر بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے۔ ابو جی تصاویر کم ہی بنواتے تھے۔ اس دن انہوں نے کہا کہ کسی سے کہو کہ ہماری تصویر کھینچے۔ کیا پتہ ہم کبھی مل کر ناشتہ کریں یا نہ کریں ! میں نے دوبارہ ابو جی کی طرف مسکرا کے دیکھا اور ایک تصویر بنوائی، جو واقعی ابو جی کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے آخری تصویر تھی۔ اور میں اپنی تمام تر کوششوں کی باوجود بھی ان کے جنازے میں شرکت نہ کر سکا۔

آج جب میں بھی ابو جی کی طرح سوچتا ہوں کی شاید میرے پاس وقت کم ہے تو میری سوچ کا زاویہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ جن سے میں محبت کرتا ہوں ان کو چھوڑ جاﺅں گا؟ مجھے یہ سب لوگ بھول جائیں گے؟ میرا ذکر بس کبھی کبھار میرا کوئی عزیز کیا کرے گا یا وہ بھی نہیں ؟ میں سوچتا ہوں کہ میں اپنے پیچھے کیا چھوڑ کر جا رہا ہوں؟ میرے لیے ضروری کام کیا ہے ؟ میں کسی سے کیوں ناراض ہوں ؟ کوئی مجھ سے کیوں ناراض ہے ؟ اگر ہم کل ایک دوسرے سے نہ مل سکے تو ؟ میں پیسے کیوں جوڑ کر رکھتا ہوں ؟ ان سے کسی کی ضرورت بھی تو پوری ہو سکتی ہے! یقین کیجیے صرف ایک خیال سے آپ کے دیکھنے کا سارے کا سارا زاویہ تبدیل ہو جاتا ہے، آپ کی ساری کی ساری زندگی کا مقصد تبدیل ہو جاتا ہے۔ آپ صرف آج رات یہ سوچیں کی آپ کے پاس صرف ایک دن یا ایک سال ہے۔ یقین کریں آپ کی دنیا تبدیل ہو جائے گی۔ آپ دنیا کے سبھی انسانوں سے صلح کر لے گے۔ آپ کو کسی بات ب±ری نہیں لگے گی۔ آپ اس دنیا کی ہر مخلوق کو محبت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں گے، آپ کو دنیا کی ہر چیز میں چھپے رنگ نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ بات صرف اور صرف زاویے کی ہے۔ آپ صرف یہ سوچیں کہ دنیا آپ کے بغیر کیسی ہو گی ؟ آپ کے بھائی بہن یا بیوی بچے یا ماں باپ آپ کے بعد کیسی زندگی گزاریں گے؟

آپ نے جس گھر کی تعمیر کے لیے ساری عمر محنت کی اس پر آخری نظر ڈالنے سے کیا محسوس ہوتا ہے؟ وہ بچے جو آپ سے ایک دن کی دوری برداشت نہیں کر سکتے، گھر سے آتے جاتے آپ کے گلے سے لپٹ جاتے ہیں۔ اور جب آپ کو معلوم ہو کہ شاید یہ مجھے سے آخری مرتبہ گلے مل رہے ہیں یا دوبارہ یہ بھاگ کر میری ٹانگوں کو نہیں پکڑ سکیں گے ؟ ان کو سکول چھوڑنے کون جایا کرے گا، عیدی کون دیا کرے گا؟ یہ روئیں گے تو کس کے پاس جائیں گے؟ صرف ایک زاویہ آپ کے پورے کے پورے فلسفہ زندگی کو تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے۔ بات صرف زاویے کی ہے۔

بیٹھ کر سایہ گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).