اباسین کے کنارے ڈوبتا ستارہ


زرین خان کا آبائی وطن پختونخوا کی قبائلی پٹی پر دریائے کابل کے کنارے آباد تھا۔ تہذیبوں کے عجائب گھر کراچی میں اس نے جنم لیا۔ دودھ کے دانت ٹوٹنے سے لے کرعقل داڑھ نکلنے تک کے سب مراحل اسی غریب پرور شہر میں طے ہوئے۔ اس ساحلی شہر میں مہاجر پختون فسادات زوروں پر تھے مگرزرین خان کا شعور ہندوستانی ثقافت اور پختون روایت کے سنگ پروان چڑھ رہا تھا۔ زندگی کا زیادہ عرصہ اردو بولنے والوں کے ساتھ گزرا، جوہزاروں برس سے متمدن چلےآرہے ہیں۔ کم عرصہ اباسین کے کنارے گزرا جہاں کچے مکان اور سچے انسان آباد تھے۔ ایک طرف وہ تھے کہ جنہوں نے عمر بھر پہاڑوں کے سینوں پر اپنا زور بازو آزما کر آب و دانہ کیا، دوسری طرف وہ کہ انہی سنگ ریزوں پر ہنر آزما کر حیرت کدے تعمیر کررہے تھے۔ ایک طرف خواندگی کا یہ عالم کہ الف انار سے تعلیم شروع ہوکر ب بکری پر ختم، دوسری طرف خواندگی کی یہ شرح کہ بات شروع ہی ٹو ٹو زا فور ٹو تھری زا سکس سے ہو رہی ہے۔

ایک بات نے زرین کو مسلسل حیران کیے رکھا۔ وہ دیکھتا آرہا تھا کہ زوال کے وقت سے سہہ پہر تک گھر کے دروازوں پر دستکیں تھم کر نہیں دیتیں۔ کوئی فقیر اونچے سُروں میں شاہ مدینہ گاتے ہوئے اللہ کے نام پرمانگنے چلا آ رہا ہے، کسی مزدور کو دیوار اٹھاتے اور بجری ڈھوتے پیاس لگ گئی ہے تو اپنائیت کے احساس کے ساتھ پانی مانگنے آرہا ہے، ٹھیلے والے بابا جی گھرکے ساتھ والے درخت کے سائے میں گریبان کھولے سستا رہے ہیں، طلب ہوئی تو کنڈی کھٹکا کے چائے بنوالی۔ عزت واحترام سے سب کے تقاضے برلائے جارہے ہیں۔ تفریق کا گزرنہیں امتیاز کا شائبہ نہیں۔ کچھ گلاس چند پیالے اور تین چار پلیٹیں مگر گھر میں الگ رکھی تھیں۔ یہ غیر مسلموں کے لیے رکھی گئی تھیں۔ کوئی ہندو یا مسیحی چائے پانی یا کھانے کا تقاضا لیے آجاتا تو مراد اس کی بھی بر آتی تھی مگراس کے لیے الگ تھلگ رکھے برتن استعمال میں لائے جاتے۔ یہ برتن استعمال کے بعد دھو کر ایک طرف رکھ دیے جاتے کہ گھر کا کوئی فرد استعمال نہ کرلے۔

سال دو سال میں زرین کا ایک چکر گاوں کا لگ جاتا۔ گاوں میں اسے شہر کے بالکل برعکس صورت حال دیکھنے کو ملتی۔ اس کے گاوں میں اور اطراف و اکناف میں ہندو اورسکھ آباد تھے۔ گھر کی بیٹھک سے لے کرگاوں کے حجرے تک، حجرے سے عبادت گاہوں تک، میلوں ٹھیلوں سے لے کر غمگساریوں تک کوئی مرحلہ ایسا نہیں تھا جہاں تفریق کا ہلکا سا سایہ بھی دکھائی پڑجائے۔ ایک ہی چارپائی پر بیٹھ رام کہانیاں سنتے سناتے،ایک ہی چشمے سے حال احوال کرتے ہوئےمٹکے بھرتے، ایک ہی آبخورے کو منہ لگاتے، ایک ہی دسترخوان پرلقمے چباتے۔ فاصلے کا تصور تھا نہ برتن الگ کرنے کا۔

زرین خان کے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ کراچی کے مکین ہزاروں برس سے متمدن ہیں اور نسل درنسل خواندہ چلے آرہے ہیں۔ اباسین کے کنارے جو پختون آباد ہیں ان کے لیے تمدن اور کتاب آج بھی دو اجنبی نام  ہیں۔ آخر ماجرا کیا ہے کہ نا خواندہ اور غیرمتمدن دنیا میں حضرت انسان کا احترام بول رہا ہے اور یہاں متمدن و خواندہ دنیا میں حضرت انسان کا منہ آبخورے کو لگ جائے تو دوسرے کے لیے وہ فاصلے کی فصیل بن جاتا ہے۔

وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تھا۔ حالات بدل رہے تھے۔ زرین خان کا خاندان رفتہ رفتہ شہر کراچی کا رخ کر رہا تھا۔ گاوں چھوڑ کر آنے والے پہلے قافلے نے کمر کھولی تو کسی نے ہتھوڑا چھینی اٹھا لی کسی نے چوکیدارا سنبھال لیا۔ کسی نے اجنبی سڑکوں پر رکشے رکشہ اتارا تو کوئی خانساماں کہلانے پر پھولے نہیں سمایا۔ زرین خان کے قبیلے کے لیے ترقی کا پہلا زینہ یہ تھا کہ سال دوسال میں اس کے عزیزوں نے مذکر مونث کے حشر نشر کے ساتھ اردو کے دو چار جملے جوڑ لیے۔ کوئی سیانا تھا تو پیسے دو پیسے جوڑ کے اپنی ٹیکسی خرید لی اور مل بانٹ کے چلالی۔ ترقی کا اگلا زینہ یہ تھا کہ آنے والی پود میں چھ جماعتیں اور قاعدہ قرآن پڑھنے کا رجحان شروع ہوا۔ یوں رفتہ رفتہ کراچی ان کی ہستی کا سامان ہو گیا۔

وہ وقت آگیا کہ نئے سیاسی نظریوں کی علمبردارریاستوں کے بیچ کی پراسرارکشمکش باقاعدہ جنگ کے لیے میدان ڈھونڈ رہی ہیں۔ سائنسی کرشمہ سازیوں کے سبب انسان ستاروں سے آگے کے جہاں میں جھانک رہا ہے۔ ایران کا نقشہ بدل رہا ہے اورافغانستان میں گھمسان کا رن پڑنے کو ہے۔ کعبے کو صنم خانے سے اور صنم خانے کو کعبے سے پاسبان میسر آ رہے ہیں۔ برسوں بعد سہی، دھول کچھ بیٹھ گئی۔ دھول اڑنے اور بیٹھنے کے اس وقفے میں سات پانیوں کا رنگ خاصا بدل چکا تھا، بس ایک زرین خان کا سوال تھا کہ جو وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔ وہی سوال کہ متمدن شہر میں انسانوں کے بیچ پائی جانے والی یہ گریز پائیاں کیا ہیں، اور کچے مکانوں کے مکینوں نے انسانی احترام کا راز کیسے پالیا۔ عمر رواں تیسری دہائی کی دہلیز عبور کرنے کو آئی تھی مگر سوال کا جواب نہ ملا۔

زرین خان کے لیے گاوں آنے جانے کا جواز اس طور کم ہو گیا تھا کہ آدھے سے زیادہ خاندان کراچی میں آباد ہوچکا تھا۔ آٹھ برس بعد گاوں کے مغرور پہاڑ، بہتی آبشاریں، برد بار بیوہ کی مانگ جیسی پکڈنڈیاں، کچی مٹی کی سوندی خوشبو، بل کھاتی نہریں، جھومتے لہلہاتے سرمست سبزے، تنور سے اٹھتا ہوا دھواں، چاٹی کی لسی، مکئی کی روٹی، اباسین کی لہروں پرٹھنڈ سے کپکپاتا ہوا چاند، لبِ دریا ستاروں کی آنکھ مچولی، اسی کے سرد پہلو سے طلوع ہونے والی سورج کی پہلی کرن، بے لوث طبعتیں، پرخلوص مزاج اور پروقار رویوں کی یاد نے ٹوٹ کر زرین کو ستایا۔ زرین اٹھا، کوچ پکڑی اور تیس گھنٹوں کی مسافت پشتو گانوں کے ساتھ کاٹ کر شانگلہ کے قدموں میں ایستادہ پہاڑوں کے بھیگتے دامن میں ٹھٹرتی ہوئی انگڑائیاں لرزتی ہوئی جمایئاں لیتا ہوا اترا۔ شام دبے قدموں آگے بڑھ کر ہر منظر کو ڈھانپتی چلی جارہی تھی۔ آسمان ٹوٹ کربرس رہا تھا اورسردی سے دانت بج رہے تھے۔ معمول میں جہاں چہل پہل ہوتی تھی آہنی پہاڑی گھوڑے سواریوں کے منتظر ہوتے تھے وہاں صرف پرنالوں سے گرتے پانی کا شور سنائی دے رہا تھا۔ اباسین پر سے گزرتے لکڑی کے اکلوتے تاریخی پل کو پیدل عبور کرنے کا چیلنج درپیش تھا۔ برسات میں لشتم پشتم زرین تیز قدمی سے آگے بڑھا۔ پل پر پہلا قدم پڑھتے ہی آسمان گرجا اور اس کڑاکے کی بجلی کڑکی کہ دل لرز کررہ گیا۔ بجلی کی پہلی کڑک کے کے ساتھ قدم رک گئے، دوسری کڑک کے ساتھ قدم واپس پیچھے کو ہٹ گئے۔ دھڑکنیں ابھی ترتیب میں آرہی تھیں کہ بجلی کی ایک لہر آسمان پر شمال کی جانب ابھری اور زرین کی ٹھٹھرتی حالت پر مسکراکر وہیں بجھ گئی۔ اس لہر کے اٹھتے بیٹھتے میں زرین کو سڑک کنارے بس اسٹیشن سے کچھ فاصلے پرایک خستہ سی انتظارگاہ میں پیلی رنگ کی ایک نستعلیق پگ چمکتی دکھائی پڑی جو کسی بندہ بشر کی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔ زرین نے خود کلامی کے سے اندازمیں زیرلب بڑبڑاتے ہوئے کہا، اگر یہ پیلی نستعلیق پگ ہی تھی پھریہ سردار سرنجیت سنگھ ہی ہو سکتے ہیں۔ زرین نے گزرگاہ قسم کی انتظارگاہ کی جانب قدم بڑھائے تو اندازہ ٹھیک ثابت ہوا۔ سردارسرنجیت کے ساتھ ان کی بیگم، جنہیں پیار سے گاوں والے سردارہ پاپو کہتے تھے، اپنے تین کمسن بچوں کو اپنے برقعے میں چھپا کر سردی سے بچا رہی تھیں۔ زرین جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا سردار صاحب کی نگاہ پہچاننے کی کوشش میں پھیل رہی تھی۔ زرین آٹھ برس میں کافی بدل چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ سردار صاحب کی تشویش بڑھتی زرین نے دور سے تعارفی آواز دی، سردار جی پخیر، زرین خان یمہ۔ سردار بولے، زرین؟ کچھ دماغ پر زور دیا اور پھر یکایک کھڑَے ہوکر آگے بڑھے اورپخیر پخیر کے تکرار کے ساتھ گلے لگ گئے۔ سردار صاحب زرین کے گلے لگے رہے، اور زرین یہ سوچ کرتشویش میں مبتلا ہوا جارہا تھا کہ آج سردار صاحب گلے ہی کیوں لگے، اپنے روایتی انداز میں سینے نال ٹھاہ کر کے کیوں نہیں لگے۔ گلے لگ کر ہاتھ رک کیوں گئے، میری کمر تھپتھپا کیوں نہیں رہے۔ اتنی دیر گلے کیوں لگے ہوئے ہیں، فورا ہٹ کر میرے ماتھے پر چوم کیوں نہیں رہے۔ سردار صاحب نے زرین کے کندھے سے سر اٹھایا تو چہرہ سپاٹ تھا۔ بارش میں مکمل بھیگ چکے تھے اوراس کا انہیں گویا احساس ہی نہ تھا۔ ہاتھ میں ہاتھ دبائے کچھ دیر زرین کو دیکھا اور پھر سے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگے۔ زرین کی پریشانی بڑھ گئی۔ سردار صاحب کو بٹھایا، ان کی ڈھارس بندھانے لگا کہ عقب میں سردارہ پاپو کا ضبط سسکیاں لیتا سنائی دینے لگا۔ زرین نے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے کہا

کیا میں پوچھ سکتا ہوں سردار جی کہ ہوا کیا ہے؟

سردار سرنجیت نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، بیٹا جی، ساری زندگی اس دریا کے کنارے گزری ہے۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایک دن آئے گا کہ اس طرح گاوں چھوڑنا پڑ جائے گا۔

زرین نے کہا، کیوں؟ آخرکیوں، گاوں کیوں چھوڑرہے ہیں؟ میرا مطلب گاوں تو لوگ چھوڑتے ہی رہتے ہیں مگر سردار جی آپ کا مسئلہ کچھ اور لگ رہا ہے، مجھے بتائیں کسی نے کچھ کہا ہے کیا آپ کو؟

سردارجی ابھی کچھ کہنے کو تھے کہ سردارہ پاپو کی آواز ابھری، بیٹا جی گاوں کے لوگ شہر جاکر پڑھ لکھ گئے نا، تو شاید وہ کافر مسلمان کا فرق جان گئے ہیں اب۔

زرین کا دل ڈوب سا گیا، جیسے کوئی زہربھرا نشتر جگر کے پار ہوگیا ہو۔ زرین نے معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی اپنی تئیں کوشش میں سردارہ پاپو کی بات کو نظر انداز کیا، اور پھر سے کہا

“پاپو، سچ بتائیں کس نے کیا کہا آپ لوگوں کو”

لرزتے ہونٹوں سے روہانسے انداز میں سردار صاحب نے کہا، بیٹا قسم ہے اس ذات پاک کی کسی نے زبان سے ہمیں کچھ نہیں کہا، سب ویسا ہی ہے، بس لوگوں کی نگاہیں بدل گئی ہیں۔ رویوں میں اجنبیت کا تکلیف دہ احساس جھلکنے لگا ہے۔ اب ہمیں اپنا آپ یہاں پرایا محسوس ہوتا ہے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ہم کچھ مختلف مخلوق ہیں جو یہاں آباد ہیں۔ بیٹا جی عزت نفس سے بڑھ کر تو کچھ نہیں ہوتا نا۔

ابھی سردارصاحب بہت کچھ  کہنا چاہتے تھے مگران کی کوچ آگئی۔ سردار صاحب پھر گلے لگے، کچھ آہیں سسکیاں بھریں، سامان اٹھایا، گاڑی میں رکھا، بچوں کو بغل میں اٹھائے بھیگی آنکھوں کے ساتھ گاڑی میں چڑھے، دروازے پر لحظہ بھر کو رکے، پلٹ کردیکھا، مسکرا کر خدائے پہ امان کیا، زرین نے بھیتی آنکھوں سے “پہ مخہ دی خا” کا جواب دیا، اور پھر چل دیے، تم کہاں ہم کہاں۔

گاڑی کو جاتا دیکھ کر زرین کا حلق عرب کا خشک صحرا بن گیا تھا۔ اشکوں کا سیل رواں تھا جو برسات کی بوندوں میں فنا ہوا جارہا تھا۔ انشا جی کے بول دماغ کے نہان خاںوں میں ستم ڈھا رہے تھے

”انشا جی اٹھو اب کوچ کرواس شہر میں جی کا لگانا کیا”

زرین آدھی رات گاوں پہنچا۔ تاروں بھرے آسمان سے دیر تلک کلام کیا۔ رات گزر گئی۔ صبح دم گاوں میں ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوا کہ سردار ہرن سنگھ کا پورا خانوادہ بھی کوچ کرگیا ہے۔ شام تک اندازہ ہوا کہ پنڈت لعل خان کے دروازے پر اب جتنی بھی دستک دے لو، اس کی ہنستی مسکراتی زوجہ لعلونہ ابئی اب دروازے کی اس پار سے ماں کی سی شفقت کے ساتھ “سوک یی” یعنی کون ہے کی صدا نہیں لگاتیں۔ ویرانی ہی ویرانی بول رہی ہے۔ زرین نے وجہ جاننا چاہی تو ماموں نے بتایا

”وہ بھی روزی روٹی کی تلاش میں چلے گئے ہیں کوئی کراچی وراچی کی طرف”

زرین کی سماعتوں میں سردارسرنجیت کے آخری الفاظ گونج گونج کر ماجرا سمجھانے لگے۔ سردار جی نے کہا تھا، بیٹا! گاوں جا تو رہے ہو پر کسی کو بتانا مت کہ ہم کیوں جا رہے ہیں۔

زرین کا یہ سفر زندگی کا تلخ سفررہا۔ وہ بجھی طبعیت ڈوبے دل اور بکھرے احساس کے ساتھ کراچی واپس لوٹا۔ لوٹنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ زرین کے دوست زلفی نے لندن سے پہنچنا تھا۔ زلفی کوعبدالستار ایدھی سے ملنا تھا۔ لندن میں مقیم ہم وطنوں سے عطیے کی کچھ رقم لایا تھا، جو ایدھی صاحب کو اپنے ہاتھوں دینا چاہتا تھا۔ ملاقات کا انتظام زرین ہی کروا سکتا تھا۔ زرین زلفی کو لے گیا۔ کھارادر کی جلیبی جیسی گلیوں سے ہوتے ایدھی صاحب کے در آستان پہ پہنچ گئے۔ ایدھی صاحب کو ایک تخت پر بیٹھے دلیہ کھاتا دیکھ کر زلفی ششدرتھا۔ وہی ٹوٹی جوتی اور پیوند بھرا ملیشیا کا جوڑا کپڑا۔ دائیں بائیں کھیلتے لاوارث بچے، کسی نے ہندو ماں کی کوکھ سے جنم لیا کس نے مسیحی ماں کی کوکھ سے۔ لوٹے تو زلفی نے ایدھی سے متعلق اپنے تاثرات اپنی اہلیہ کو سنائے۔ اہلیہ نے معصومیت سے سوال کیا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس سوسائٹی میں ایک ایسا شخص کیسے پیدا ہوگیا جو انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے رنگ نسل عقیدہ مذھب کچھ بھی نہیں دیکھتا۔ اور شخص بھی ایسا جو خود تعلیم سے محروم ہے، حیرت کی بات ہے نا؟ زلفی نے ترنت کہا، شاید یہ شخص اسی لیے رنگ نسل اور مذھب نہیں دیکھتا کہ اس نے ہمارے اس نصاب کے تحت تعلیم حاصل نہیں کی جو نفرت کا سبق معصوم ذہن پر نقش کر دیتا ہے۔ یہ سنتے ہی زرین کے حاشیہِ ذہن پر وہ سادہ لہجے میں کہے گئے وہ سچے الفاظ ابھرآئے جو سردارہ پاپو نے اباسین کو اپنے آخری آنسو سونپتے کہے تھے

”بیٹا جی گاوں کے لوگ شہر جاکر پڑھ لکھ گئے نا، تو شاید وہ کافر مسلمان کا فرق جان گئے ہیں اب”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments