مستنصر حسین تارڑ: مناپن روشن ہوتا ہے!


رات دو بجے مناپن نگر میں دران ریسٹ ہاؤس پہنچا۔ ڈاکٹر احسن نے کہا تارڑ صاحب جاگ رہے ہیں اور متفکر ہیں آپ کے بارے میں۔۔

پہلے ا ن سے مل لیں۔ تارڑ صاحب کے کمرے میں پہنچا تو خوش ہو گئے۔

ایسے خوش ہو گئے جیسے گلگت بلتستان کے مقامی کہتے ہیں کہ ‘میں خوش ہو گیا’

تارڑ صاحب نے ڈاکٹر احسن کی جانب دیکھا اور کہا  میں نے کہا تھا نا یہ پہنچے گا ضرور!

پہلے کھانا کھا لو اور پھر ایک گھنٹہ سو جاؤ۔ چار بجے ہم ٹریک کے لیے نکل جائیں گے۔ سامان سب باندھا جا چکا ہے۔ پورٹرز تیار ہیں۔

ہم دران ریسٹ ہاؤس کے ڈائننگ ہال میں پہنچے۔ ڈائننگ ہال گلگت بلتستان کی ہوٹل روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ڈائننگ ہال کم عجائب گھر زیادہ تھا۔ باہر اندھیرا تھا لیکن بہرہ نہیں تھا۔ باہر دریائے ہنزہ اور گلیشئیر کے نالے کی ملی جلی گونج اندھیرے میں مدغم ہوتی دران ریسٹ ہاؤس کے اس ڈائننگ ہال میں چلی آتی تھی۔ اندھیرا ڈایننگ ہال کی روشنیوں سے ڈر کر صرف کھڑکیوں سے جھانکتا تھا۔

میں اکیلا کھانا کھا رہا تھا۔ سات تماشائیوں کی نظریں میرے نوالےکو سالن کی پلیٹ سے منہ تک پیچھا کرتی تھیں۔ ان میں ایک نظر ایسی تھی جو ممتا سے بھرپور تھی اور وہ تارڑ صاحب کی نظر تھی۔ ساتھ ساتھ وہ میز پر دھری ڈشوں کا بھی بتا رہے تھے اور اسرار جو دران ریسٹ ہاوس کے مالک/باورچی/ویٹر اور مہمانوں کی ماں تھے کی تعریفیں کیے جا رہے تھے۔مجھے لگاتار جاگتے ہوئے 30 گھنٹے ہو چکے تھے۔ لگاتار اس مہماتی سفر نے جوڑ جوڑ ہلا دیا تھا لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ وہاں بیٹھے میری کیفیت ایسی تھی جیسے کوئی بارہ گھنٹوں کی طویل نیند کے بعد سوجی آنکھوں کے ساتھ ترو تازہ ناشتے کی ایسی میز پر بیٹھے جس کے ساتھ لگی کھڑکی کے باہر چمکیلی دھوپ پوست کے رنگ برنگے پھولوں پر پڑتی ہو۔

میں اس قدر خوش اور تروتازہ اس لیے تھا کیونکہ جانتا تھا کہ گلگت بلتستان میں ہوں۔ باہر چاہے اندھیرا سہی لیکن میرے آس پاس تاحد فلک خاکستری محافظ کھڑے ہیں۔ خوبانی اور سیب کے درخت بھلے نظر نہ آتے ہوں لیکن یہ سب بزرگ متانت سے کھڑے دعا دے رہے ہیں اور کبھی کبھی کسی دعائیہ فقرے کے ختم ہونے اور دوسرے دعائیہ فقرے کے شروع ہونے کے مابین مختصر لمحے میں میری جانب کن اکھیوں سے دیکھتے ہیں۔ سفیدے کا قد لمبا ہونے کی وجہ سے چیری سیب اورخوبانی کے درخت اس کو احمق تصور کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ اس احمق کو میری آمد کا پتہ نہیں ہے اس لیے اوپر کی جانب دیکھتے ہوئے سفیدے کو بتاتے ہیں کہ۔ وہ آ گیا ہے!

لیکن سفیدے کو علم ہے۔ سفیدے سے کیا چھپا ہے۔

 کامران کی راہنمائی میں میں ایک کمرے میں گیا۔ کامران نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا، کوشش کریں نیند آ جائے۔ آدھے گھنٹے کی گہری نیند نہایت ضروری ہے۔

میرے ساتھ المیہ یہ ہے کہ کہیں جانا ہو تو نیند نہیں آتی۔ دماغ آنے والے سفرکی ممکنہ شکلیں اور واقعات گھڑتا رہتا ہے۔ میں سر کو جھٹکتا ہوں اور اپنے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ اب کچھ نہیں سوچوں گا اور خیال کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ دماغ میں خون کا بہاؤ اور مقدار کم ہو اور نیند آ جائے لیکن پانچ منٹ بعد اچانک معلوم پڑتا ہے کہ کسی اور خیال کے دام میں آ گیا ہوں۔ انہی داموں میں پھنستے اور نکلتے نہ جانے کس وقت نیند آ گئی۔

دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا تھا۔ کامران سلیم کی آواز آ رہی تھی۔ ۔ وقار بھائی اٹھ جائیں۔ ۔جلدی

اور میری حالت یہ کہ دنیا کی ساری دولت (اگر میرے پاس ہو) اور سارے ٹریکس ایک گھنٹہ اور نیند کے عوض دینے کو تیار تھا۔ کامران سلیم کی آواز تو آ رہی تھی لیکن مجھے صرف یہ سمجھنے میں30 سیکنڈ لگ گئے کہ میں کہاں ہوں؟

جیسے ہی یادداشت واپس آئی میں نے چھلانگ لگائی اور باہر آ گیا۔ باہر کا منظر کچھ عجیب تھا۔ چار بجے تو اندھیرا ہوتا ہے لیکن باہر تو اچھی بھلی روشنی لگ رہی تھی۔ جمیل عباسی سے وقت پوچھا تو جواب ملا کہ ساڑھے پانچ بج چکے ہیں۔ سب تیار ہیں لیکن تارڑ صاحب پس و پیش کرتے رہے کہ وقار کو کچھ اور سو لینے دیا جائے۔ اور تارڑ صاحب کی اس محبت بھری حمایت نے مجھے بہت آسودہ کر دیا تھا۔

میز پر انواع و اقسام کے کھانے لگے تھے۔ کچھ کی شکلیں مانوس اور کچھ کی نامانوس۔ کھانے کی جو ورائٹی آپ کو گلگت بلتستان میں میسر آ سکتی ہے وہ پاکستان کے کسی اور خطے میں نہیں ہے۔ یہ ورائٹی بھی آپ کو عام ہوٹلوں میں نہیں ملے گی۔ اس کے لیے آپ کو ٹریک کرنا پڑے گا جس میں آپ تجربہ کار کک ٹیم میں شامل کرتے ہیں۔ یا پھر یہ ورائٹی اسی طرح کے تجربہ کار مقامی شیف صاحبان کے ہوٹلوں میں ملے گی جنہوں نے بین الاقوامی ٹریکرز کی میزبانی کرتے ہوئے عمر گزار دی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو بین الاقوامی مہمانوں کی خدمت کرتے ہوئے 125 سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس تمام عرصے میں دنیا کے کونے کونے سے سیاح گلگت بلتستان آئے۔ یہاں کے مقامی افراد کا سب سے بڑا ذریعہ روزگار بن گیا۔ لیکن یہ روزگار اس صلاحیت سے مشروط ہو گیا کہ کون زیادہ سے زیادہ خطوں کے کھانے بنانا جانتا ہے۔ اگر فرانسیسی ٹیم آئی ہے تو یقیننا وہ ایسے شیف کو ترجیح دے گی جو فرانسیسی کھانے بنانا جانتا ہو۔ یہی صورتحال زبانوں کی ہے۔ اگر آپ کا گلگت بلتستان سے مفصل تعارف نہیں ہے تو آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ بہت سے مقامی افراد جاپانی زبان نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ بول بھی لیتے ہیں۔انگریزی تو خیر اردو اور مقامی زبانوں کے بعد سب سے زیاد ہ بولی جانے والی زبان ہے۔

بلتستان کا خطہ کیوں کہ زیادہ بلند چوٹیاں رکھتا ہے اور ٹریکرز و کوہ پیماؤں کی جنت ہے اس لیے بلتی کک پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ پرنس چارلس جب ہنزہ آئے تو بحث اس بات پر تھی کہ ان کو کھانے میں کیا پیش کیا جائے۔ دران ریسٹ ہاؤس کے میزبان اسرار نے کہا کہ یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ اسرار نے کچھ ایسے جادو صفت کھانے بنائے کہ پرنس چارلس بہت خوش ہوئے۔ بعد میں اسرار سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ پرنس کا لندن میں ذاتی کک بلتی ہے۔ اس بلتی سے ایک دفعہ ملاقات میں میں نے پوچھا تھا کہ پرنس چارلس کو کیا پسند ہے جس پر بلتی نے بلتستان کی ایک مقامی ڈش کا نام بھی بتایا جو ان کو پسند تھی۔ بس میں نے اس لیے وہ ڈش بھی تیار کی جو ان کو بہت پسند آئی۔

ایک بہت ہی اہم بات گلگت بلتستان کے حوالے سے یہ ہے کہ شیف بلتستان کے اچھے ہیں کیونکہ یہاں کا مہمان ٹریکر یا کوہ پیما ہوتا ہے جو زیادہ دن رہنے آتا ہے۔ اس لیے بلتیوں سے اچھا شیف کوئی نہیں ہے۔ دوسری طرف ہنزہ میں عام سیاح زیادہ آتا ہے اس لیے ہوٹل مینجمنٹ میں ہنزائیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ اگر آپ ایک ہوٹل کھولنا چاہتے ہیں تو ہوٹل مینیجر کسی ہنزائی کو رکھیں اور شیف بلتی کو۔ یقین جانیے اگر آپ کا ہوٹل کسی ویرانے میں بھی ہے تو مہینوں میں کامیاب ہو جائے گا۔

ناشتہ کرنے کے بعد میں دران ریسٹ ہاؤس سے باہر آیا۔ باقی تمام افراد بھی آہستہ آہستہ باہر آ رہے تھے۔ پورٹرز سامان ایک دوسرے میں بمطابق وزن تقسیم کر رہے تھے۔ دران سےباہر نکلتے ہی پہلی نظر باغ پر پڑی۔ سیب اور خوبانی کے درختوں کا باغ۔۔ چیری کے پھلوں سے لدے درخت۔ ۔۔اور اس باغ کے فرش پر دھوپ پہنچ نہیں پاتی تھی کہ اس قدر گھنا تھا۔ دران میں روایت ہے کہ ناشتہ ان درختوں کے نیچے ہی دیا جاتا ہے لیکن ہم کیوں کہ جلدی میں تھے اس لیے اندر ہی لگایا گیا تھا۔ باغ میں درختوں کے نیچے میز کرسیاں لگی تھیں۔ ساتھ ایک سوئمنگ پول تھا۔ بالکل ساتھ ہی کھیلتے بچوں کی کلکاریاں تھیں۔ معلوم ہوا اسرار صاحب کے گھر کا صحن بھی ساتھ ہی ملحق ہے۔

دران کا نقشہ لفظوں میں کھینچنا ناممکن ہے۔ میں دریائے ہنزہ کی دور سے آتی گہری طلسماتی گونج یہاں لکھ سکتا ہوں آپ کو سنوا نہیں سکتا۔ میری بے بسی دیکھئے کہ چیری کے پھل پر پڑتی سورج کی کرنیں دکھا نہیں سکتا۔ باغ کے درختوں کے سروں سے اوپر راکا پوشی کے عظیم برفانی معبد کی صرف بات لکھ سکتا ہوں لیکن یہ دکھا نہیں سکتا ہے وہ برفیں کیسی شاندار ہیں۔ میں اسرار کے اس بچے کی فراخ دلی اور نسلوں میں سفر کرتی مہمان نوازی کا منظر کیسے کھینچوں جس کی سامنے والی جیب اتنی چھوٹی تھی کہ تین خشک خوبانیاں سما سکتی تھیں۔ ایک خوبانی وہ کھا رہا تھا۔ ایک خوبانی دوسرے ہاتھ میں تھی۔ میرے پاس آیا سلام کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کی۔ جیب سے تین خوبانیاں نکالیں اور میرے ہاتھ پر رکھ دیں۔ شکریہ کہنا چاہتا تھا لیکن وہ گھوما اور درخت سے لٹکے جھولے کی جانب ہو لیا۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کو شکریہ سننے کی عادت نہیں۔ وہ تو بس احسان کرنا جانتے ہیں۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik