مطالعہ پاکستان، بیس نمبر کا سوال اور جدید گنجے فرشتے


 عزیز دوست اسد خالد فوج میں اچھے رینک پر فائز تھے۔ مطالعے کا شوق تھا۔ اپنے جوانوں سے بات چیت کرتے تو علاوہ دیگر امور کے معلومات عامہ پر بھی بات کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک اچھے سپاہی کے لئے بندوق کے علاوہ ایک سوچنے سمجھنے والے دماغ کا مالک ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک روز انہوں نے ایک جوان سے سے پوچھا کہ پاکستان کس نے بنایا؟ جوان نے کہا کہ علامہ اقبال نے۔ اسد نے سرزنش کے انداز میں کہا کہ میں نے تو سنا ہے کہ پاکستان قائداعظم نے بنایا تھا۔ پوٹھوہار کے سیدھے سادھے جوان نے خالص فوجی روزمرہ میں افسر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ۔ ’جی ہاں سر ۔ اس کی بھی ڈیوٹی لگی تھی‘۔

معمولی تعلیم یافتہ فوجی جوان کی یہ لاعلمی قابل فہم ہو سکتی ہے لیکن کئی دہائیوں سے اردو اخبار میں ایک خبر کی روایت چلی آتی ہے۔ مقابلے کے امتحانات کا نتیجہ آتا ہے تو امیدواروں کے مضحکہ خیز جوابات ایک خبر کی صورت میں بیان کئے جاتے ہیں اور پھر سرپرستانہ انداز میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیار پر ایک شذرہ بھی لکھا جاتا ہے۔ اس برس 23 مارچ کے روز ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے نمائندے کو دلچسپ بات سوجھی ۔ وہ مائیک اٹھا کر پارلیمنٹ کے باہر پہنچ گیا ۔ جو رکن پارلیمنٹ سامنے آتا اس سے پوچھتا کہ قرارداد پاکستان کب منظور ہوئی تھی اور اس قرارداد میں کیا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ سوال چوتھی جماعت کے کسی طالب علم سے پوچھا جاتا تو درست جواب مل گیا ہوتا لیکن ہمارے منتخب نمائندوں کے جوابات چشم کشا تھے۔ ایک لمبی فہرست ان مضحکہ خیز جوابات کی سامنے آئی ہے۔ نمونے کے چند دانے ملاحظہ فرمائیے۔

خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی نے فرمایا۔ ’ اتنی تفصیل آپ کو کیسے بتاﺅں۔ ہم ہسٹری کے طالب علم ہیں۔ لیکن آپ بہت چھوٹے ہیں اور سوال بہت بڑا ہے‘۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینٹر الیاس بلور نے فرمایا۔ ’ بیٹے مجھے معلوم ہے۔ 23 مارچ 1940 ء کو ایک قرارداد پیش ہوئی تھی۔ اس میں قائداعظم بھی تھے۔ علامہ اقبال تھے یا نہیں تھے مجھے یاد نہیں‘۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی ایک جواہر ریزہ پیش کیا۔ ’میں پوری ہسٹری تو نہیں جانتا لیکن مجھے یاد ہے کہ قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والے پاکستان میں نہیں ہیں۔ ہمیں نیشنل ہیروز پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ آج یوکے میں دفن ہیں۔ اگر ہم ان کو لے آتے تو 23 مارچ دوبالا ہو جاتا۔ اب آپ کی سمجھ میں آ گیا؟‘

ایسا نہیں کہ ہماری سیاسی قیادت میں ہر طرف ایسے ہی فاضل لوگ بھرے ہیں ۔ میاں ممتاز دولتانہ، ذوالفقار علی بھٹو، اکبر بگتی اور شیرباز مزاری جیسے سیاسی رہنماﺅں کا مطالعہ اور علم ضرب المثل سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی رضا ربانی، افراسیاب خٹک، اعتزاز احسن اور حامد خان جیسے عالم فاضل سیاست کے افق پر موجود ہیں۔ البتہ عمومی معیار غالباً وہی ہے جسے نجی ٹیلی ویژن چینل نے بے نقاب کیا ہے۔ سیاست دانوں ہی پر کیا موقوف ہمارے شہرت یافتہ سائنس دان قومی اہمیت کے معاملات پر قلم اٹھاتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ ایسے کھٹل دماغ کیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں الیکٹرانک میڈیا پر دفاعی تجزیہ کاروں کی ایک فوج اتر آئی ہے۔ بیشتر کا استدلال اس قدر پیش پا افتادہ ہوتا ہے کہ صاحبزادہ یعقوب علی خان اور جنرل مٹھا اپنی ابدی آرام گاہوں میں بے چین ہو جاتے ہیں۔ صحافت کے میدان میں بھی صورت حال کچھ ایسی اطمینان بخش نہیں ۔ اسلام آباد کے ایک شہرت یافتہ مولوی صاحب، چند برس قبل، ایک وکیل دوست سے قانون اور آئین کا فرق پوچھ رہے تھے۔ یہ مولانا صاحب اپنے تبحر علمی سے کئی بار ملک میں طوفان اٹھا چکے ہیں۔ ہماری اعلیٰ درس گاہوں کے اساتذہ قلم اٹھاتے ہیں تو ہمارے ملک میں علم کی درماندگی واضح ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ کسی فرد کی کم علمی کا مذاق اڑانے کا نہیں ہے۔ ہمارے تصور علم میں کچھ بنیادی مفروضات غلط ہیں ۔ ہمارا نظام تعلیم ان غلط مفروضات کی بنیاد پر کھوکھلی شخصیت سازی کرتا ہے ۔

ہم معلومات اور علم میں فرق نہیں کرتے۔ معلومات تو لائبریری کی الماری میں بھی رکھی ہیں اور اب کمپیوٹر پر بھی ہر طرح کی معلومات ہاتھ کے فاصلے پر مل جاتی ہیں۔ علم ان معلومات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت ہے۔ علم اپنی معلومات کی تحدید جاننے کا نام ہے۔ علم تعصبات سے اوپر اٹھنے کی ثقافت ہے۔ علم سوال اٹھانے کی جرات کا نام ہے ۔ ہم نے علم کو مطالعہ پاکستان کے امتحانی پرچے میں بیس نمبر کا سوال بنا کے رکھ دیا ہے جس کے گھڑے گھڑائے جواب سے انحراف کو ہم سخت برا جانتے ہیں۔ اس انحراف پر وطن دشمنی سے مذہب دشمنی تک ہر الزام لگایا جاتا ہے۔ چنانچہ ہماری ترجیح درست جواب ڈھونڈنا نہیں بلکہ قابل قبول جواب دینا ہے۔ اس طرح کے فکری جبر میں جہالت، منافقت، رعونت اور تعصب پیدا ہوتے ہیں۔ تاریخ کو اپنی سہولت کے لیے مسخ کیا جاتا ہے۔ پالیسی بنانے میں غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قوم کے بہترین دماغ بھی اعلیٰ معیار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے ملک کے ہر شعبے میں بہترین افراد مفقود ہو چکے ہیں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہماری ذہنی سطح کمزور ہو چکی ہے۔ ہم بغیر سوچے سمجھے لگے بندھے فقرے بولتے بھی ہیں اور لکھتے بھی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ تاریخ کے ایک معمولی سوال پر ارکان پارلیمنٹ نے ادھر ادھر کی ہانکی ہے ۔ نیز یہ کہ ان ارکان پارلیمنٹ کے لب و لہجے سے ایسی رعونت ٹپکتی ہے جس سے خوف آتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والوں کی ذہنی صلاحیت سے قوم کا مستقبل متعین ہوتا ہے۔ ہم نے علم کو بیس نمبر کے امتحانی سوال میں بدل کر گنجے فرشتوں کا ایک لشکر تیار کر دیا ہے جو قوم کا مونڈن کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).